خبر کے مطابق چھبیس اور ستائیس
اکتوبر کی درمیانی شب اسلام آباد پولیس نے رات کو دو گاڑیوں میں سوار چار
مشکوک امریکی باشندوں کو گرفتار کیا، ان کی گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی جعلی تھی،
ان کے پاس سے غیر قانونی اسلحہ بھی برآمد ہوا اور انہوں نے گرفتاری کے وقت
پولیس پر اسلحہ بھی تان لیا۔ جبکہ ایک اخبار کے مطابق یہ چاروں امریکی
قبائلیوں کے حلیے میں تھے، یعنی ان کی لمبی لمبی داڑھیاں تھیں (روزنامہ
جسارت کراچی) ان مشکوک امریکیوں کی گرفتاری کی اطلاع پر آئی جی پولیس بھی
پہنچ گئے اور وزارت داخلہ کے ذمہ داران بھی پہنچ گئے۔ بعد ازاں ان امریکیوں
کو تقریباَ ڈیڑھ گھنٹے بعد چھوڑ دیا گیا۔ اگلے دن آئی جی اسلام آباد نے اس
بات کی تصدیق کی کہ چار مشکوک امریکیوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے
پاس سے غیر قانونی اسلحہ کی بھی تصدیق کی۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ان
چاروں دہشت گرد امریکیوں کو میں نے اپنے صوابدید اختیار پر چھوڑا تھا۔ جبکہ
ایک اخبار کے مطابق انہوں نے یہ کہا کہ ان کو اعلیٰ حکام کی مداخلت پر
چھوڑا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ کراچی
میں ایک مدرسہ پر چھاپہ مار کر کئی غیر ملکی طلبہ کو طالبان کے شبہے میں
حراست میں لے لیا گیا جبکہ ان طلبہ کے تمام ضروری کاغذات، حکومت کا اجازت
نامہ وغیرہ بھی موجود تھا اس کے باوجود ان کو گرفتار کرلیا گیا اور تادم
تحریر وہ طلبہ زیر حراست ہیں۔
اب ان دونوں واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ
ہماری حکومت اس وقت امریکی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف چار مشکوک غیر
ملکی افراد بھیس بدل کر غیر قانونی اسلحہ لیس، گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی تبدیل
کر کے انتہائی حساس علاقے میں گرفتار کئے جاتے ہیں لیکن ان کو چھوڑ دیا
جاتا ہے جبکہ دوسری جانب بے گناہ طلبہ کو مدرسے سے گرفتار کیا جاتا ہے اور
ان کو قید کردیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات صریح طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ جنرل
مشرف کے جانے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ جنرل مشرف ہی کی
پالیسیاں اس وقت بھی چل رہی ہیں۔
دوسری جانب کیا ہماری خودمختاری، غیرت، اور قومی مفاد کا یہی تقاضہ ہے کہ
اپنے مسلمان بھائیوں کو تو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کیا جائے، محض امریکی
خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کے گھروں پر بمباری کی جائے اور اس کو راہ
نجات اور راہ راست کا نام دیا جائے، اور دوسری طرف رنگے ہاتھوں پکڑے جانے
والے دہشت گردوں کو معاف کردیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوال اٹھتا ہے
کہ اگر آئی جی صاحب کی بات کو درست مان لیا جائے کہ انہوں نے اپنی صوابدید
پر ان چار مشکوک امریکی دہشت گردوں کو چھوڑ دیا تھا تو انہوں نے کس قانون
اور کیسے صوابدیدی اختیارات کی بنیاد پر ان کو رہا کیا۔ کیا قانون میں اس
بات کی گنجائش موجود ہے کہ کسی بھی مجرم کو کوئی اعلیٰ افسر اپنے صوابدیدی
اختیار کے تحت رہا کردے۔ جبکہ اس وقت پورے ملک میں جو ماحول بنا ہوا ہے جگہ
جگہ بم دھماکے ہورہے ہیں، خود کش حملے ہورہے ہیں، ملک دہشت گردی کی لپیٹ
میں ہے اس وقت تو عام حالات سے بھی زیادہ سختی ہونی چایئے جبکہ یہاں غیر
ملکی دہشت گردوں کو معاف کیا جارہا ہے۔
اور اگر یہ خبر درست مان لی جائے کہ ان کو امریکی سفارت خانے اور محترم
وزیر داخلہ کے کہنے پر چھوڑا گیا ہے تو پھر ہمارا سوال ہے کہ یہ کیسی دو
رخی پالیسی ہے کہ ایک طرف تو آپ اپنے ہی علاقوں پر جنگ مسلط کردیں، ان کو
ہر جگہ ذلیل کریں، ملک میں ہونے والی ہر واردات ان کے ان کے نام کردیں،
عوام سے اپیل کی جائے کہ جناب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ دیں،
مشکوک افراد پر نظر رکھیں اور دوسری جانب رنگے ہاتھوں پکڑے گئے مجرموں کو
چھوڑ دیا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا حکمرانوں نے ذہنی
طور پر امریکہ کی غلامی قبول کرلی ہے کہ امریکی سفارت خانے کی مداخلت پر
مجرموں کو چھوڑ دیا جائے، جبکہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہوں؟ ہمیں نہیں
معلوم کہ ان کی نیت کیا تھی لیکن یہ بات واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پاک فوج کے
ایک بریگیڈئر کو مشکوک نقاب پوشوں نے فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا جبکہ ایک
اور اعلٰی افسر پر قاتلانہ حملہ کیا جاچکا ہے۔ ان صورتحال کو سامنے رکھیں
تو یہ تصویر بنتی ہے کہ یہ مشکوک امریکی وہاں کوئی واردات کرنے آئے تھے اور
قبائلی حلیہ اختیار کرنے کا بظاہر مقصد یہ نظر آتا ہے کہ اگر کوئی فرد ان
کو موقع واردات پر دیکھے تو وہ یہی سمجھے کہ یہ قبائلی یا افغانی تھے جنہوں
نے واردات کی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ سامنے آنے پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس سے
پہلے جو وارداتیں ہمارے سیکورٹی ادارے َطالبان َ کے کھاتے میں ڈالتے آئے
ہیں کیا واقعی وہ طالبان نے کی ہیں یا امریکی دہشت گردوں اور امریکی
ایجنٹوں نے کی ہیں۔ ہم شروع سے یہ بات کہتے آئے ہیں ہمارے ملک کے حالات
خراب کرنے، دہشت گردی کی وارداتوں میں، اور نام نہاد طالبان کی مدد کرنے
میں امریکہ اور بھارت ملوث ہیں۔ جو کہ ملک میں بد امنی پھیلا کر اس طرف
عالمی طور پر پاکستان کو غیر محفوظ اور غیر ذمہ دار ریاست ثابت کرنا چاہتے
ہیں، اور دوسری طرف اس کی آڑ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ان کی نظر ہے،
اب پالیسی یہ نظر آتی ہے کہ ایک طرف پاکستان پر عالمی دباؤ بڑھایا جائے اور
اگر پاکستان اس دباؤ میں نہیں آتا ہے تو از خود کاروائی کر کے پاکستان کے
ایٹمی پلانٹ کہوٹہ پر قبضہ کرلیا جائے۔ اس مقصد کے لئے بدنام زمانہ امریکی
قاتل تنظیم بلیک واٹر کو پاکستان میں داخل کردیا گیا ہے۔ اور اسلام آباد،
پشاور، کراچی میں ان کو کرائے پر گھر دلائے گئے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ
مشکوک امریکیوں نے سہالہ میں بھی لاکھوں روپے ماہانہ پر گھر حاصل کئے ہیں
اور سہالہ سے اے کیو لیبارٹیرز کا فاصلہ چند کلو میٹر سے زیادہ نہیں ہے؟؟
یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ جو لوگ اسلام پسندوں کو، مدارس کو اور اپنے ہی
مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں دن رات لتاڑتے رہتے ہیں، جو کسی بھی
واردات کے بعد بغیر کسی ثبوت کے اس کا الزام مدارس کے طلبہ پر، اسلام
پسندوں پر یا اپنی ہی قبائلی بھائیوں پر ڈال دیتے ہیں اور پھر اپنے کالمز
میں تجزیوں میں، اور تقریروں میں شور مچا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں وہ
اس واقعے پر بالکل خاموش ہیں۔ ان کی یہ مجرمانہ خاموشی بہت کچھ کہہ رہی
ہے،اور واضح کررہی ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں دیکھیں امریکہ کبھی بھی ہمارا
دوست نہیں رہا ہے۔ اس کے اپنے مفادات ہیں اور وہ صرف اپنے مفادات کو ہی
مقدم رکھتا ہے۔ اگر امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جنگ سنجیدہ ہوتا تو
سب سے پہلے اسرائیلی دہشت گردی کو ختم کرتا، اس کے بعد بھارت کے اوپر نظر
ڈالتا لیکن دراصل یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔
غور کریں کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن کی اطلاع ملتے ہیں امریکی اور نیٹو
فوج نے جنوبی وزیردستان سے ملحق سرحد پر واقع اپنی چھ چوکیاں خالی کردی
تاکہ جب آپریشن شروع ہو و ایک تو پاکستانی فوج پر دباؤبڑھے اور وہ اس میں
الجھ جائے، ور چوکیاں خالی کرنے کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ دونوں جانب مسلمان
ہی مارے جائے، اور وہ اس آپریشن سے پہلے ہی اپنی جان بچا کر بھاگ گئے۔ کیا
یہ باتیں ہماری حکمرانوں کو نظر نہیں آتی ہیں۔
ان حالات میں اگر پاکستانی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا دشمن کوئی اور نہیں
بلکہ امریکہ ہے اور یہ جنگ ہماری نہیں بلکہ امریکی مفادات کی جنگ ہے جو پم
پر تھوپی گئی ہے، تو کیا وہ غلط سمجھتے ہیں؟؟ ان حالات میں اگر عوام یہ گو
امریکہ گو کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں؟؟ وقت کا تقاضہ یہی ہے
کہ عوام کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کو، سیاستدانوں کو اور بیورو کریسی کو
حالات کو سمجھنا چاہیئے اور ملک کی بھلائی کے لئے وہ بھی امریکہ بہادر کا
آلہ کار بننے سے انکار کردیں بلکہ وہ بھی کھل کر کہیں َََ َ گو امریکہ
امریکہ گو امریکہ گو ََ َ |