بحیثیت مسلمان ہم قیامت اور پھر آخرت کی زندگی پر ایمان
رکھتے ہیں ۔ روز حشر میں کیا کیا اور کیسے حساب ہوگا ہمارا اس پر بھی یقین
ہے۔ قیامت آئے گی اور ساری کائنات فنا ہو جائیگی ۔ قیامت کے مقررہ وقت کا
کسی کو اندازہ نہیں لیکن احادیث کی روشنی میں قیامت کی نشانیوں کا اندازہ
لگایا جا سکتا ہے۔۔۔ آج کل پاکستان کے جو حالات نظر آرہے ہیں وہ بھی کسی
قیامت سے کم نہیں ہیں ۔۔۔ عورتوں کی سر عام تذلیل کی جاتی ہے، بھوک ہوس اس
قدر بڑھتی جارہی ہے کہ ہر روز ایک زیادتی کیس سامنے آتا ہے اور ہوس مٹانے
کے بعد حوا کی بیٹی کو درختوں پر لٹکانے کے رواج بھی عام ہو رہاہے۔۔۔
انسانیت کا قتل کیا جا رہا ہے۔ ۔۔۔مولانا حضرات عورتوں کی آڑ میں حکمرانی
کے چکروں میں ہیں۔۔۔حرام کمائی میں اس قدر سکون پایا جاتا ہے کہ ہر بندہ
آسانی کا راستہ اختیار کرکے امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ یہی نہیں
بلکہ جانورانسانوں سے زیادہ عزیز ہوگئے ہیں ۔۔۔ برسر اقتدار لوگ اپنی جانوں
کی حفاظت کے لیے مہنگے مہنگے کتوں کو ترجیح دے رہے ہیں اور اگر کوئی ان
کتوں کو نقصان پہنچے تو پر انسان سے کتوں والا حشر کیا جاتا ہے۔۔۔ کیا یہ
قیامت کی نشانیوں میں سے نہیں ہے۔۔۔ یہی نہیں ملکہ مرد حضرات خواتین کی نقل
کریں گے اور عورتیں مردوں کی۔۔۔اب ڈاکٹر عامر لیاقت کو ہی دیکھ لیں ۔۔۔
اسکے ڈرامے سے کبھی کسی کو گمان ہوا کہ یہ مرد ہے یہ عورت۔۔۔اس کے علاوہ
الطاف بھائی بھی ڈارمہ کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔۔۔ اب بھی کوئی خوف
نہ کھائے تو الگ بات ہے۔۔۔ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی دجال کی
آمد بتائی جاتی ہے۔۔ یقین مانیے مولانا کی آمد نے اس نشانی کو بھی سچ کر
دکھا یا ہے۔ مولانا کا ڈرامہ اس قدر پذیرائی حاصل کرتا جا رہاہے کہ حکومت
بد ترین بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے۔
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایک کینڈین نیشنلٹی ہولڈر پاکستان میں انقلاب کی با
ت کر رہا ہے۔ اپنی مصالحے دار تقرریوں سے کارکنوں کو بری طرح اکسا رہا ہے۔
ان کارکنوں میں خواتین کی تعداد زیاد ہ ہے۔اگر ہم تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں
تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ انقلاب لانے کا بنیادی مقصد غربت کا خاتمہ ہے
انسانیت کی پہچان ہوتا ہے جینے کی تمنا ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ طاقت کا صیح
استعمال ہوتا ہے۔ مگر یہ کیا پاکستان میں انقلاب لانے والے اسلام آباد کی
سڑکوں پر کارکنوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھما دیتے ہیں ۔کیا اسے کہتے ہیں
انقلاب۔۔۔؟ ایک طرف کارکن ڈنڈوں کی برسات سے قومی سرمایوں کو نقصان پہنچا
رہاہے اور دوسری طرف ان کارکنوں کا لیڈر پاکستان اور حکومت کو لٹو کی طرح
گھما کر بے حد خوشی محسوس کر رہا ہے۔اس کے علاوہ علامہ صاحب بچوں کی طرح
ضدی بھی ہیں ۔۔کوئی شک نہیں کہ حکومت علامہ صاحب کے طیارے کا رخ موڑ کر
جذباتیت کا اظہار کیا مگر علامہ بھی خود سر نکلے کہ طیارے سے نکلنے کے لیے
مطالبات پیش کر دیے اور گورنر پنجا ب نے ضدی بچے کو بہلا پھسلا کر طیارے سے
اترنے پر آمادہ کر لیا۔ایک عجیب طرح کا ڈرامہ چلتا رہا ۔۔۔ مولونا جی طیارے
میں بیٹھے ادھر ادھر گھوم رہے ہیں ۔۔۔میڈیا لوگوں کو اپ ڈیٹ کر رہاہے اور
عوام دیکھ رہے ہیں کہ انقلاب طیارے میں بیٹھا ہے۔۔۔
مولانا نے میڈیا پر پر جوش تقریر کی کہ حکومت کا احتساب ہوگا ۔۔حکومت کو اب
واپسی کی تیاری کر لینی چاہیے ۔۔ شریف براداران کو گھر کا راستہ دکھائیں
گے۔۔۔ یہ اس پر جوش خطاب کی چند جھلکیاں ہیں ۔۔۔ اور اس پر جوش خطاب کا اثر
حکومت پر تو ہوا نہیں ہاں عوام انقلاب انقلاب کے نعرے لگانا شروع ہو گئی۔۔۔
سمجھ سے بالاتر بات ہے کہ کیا انقلاب اس انتشار کا نام ہے جو مولانا صاحب
کی آمد پر پھیلا ۔۔۔۔ عوام ، پولیس ، میڈیا اور حکومت سب کے درمیان ایک
انتشاری کیفیت پھیل گئی۔۔۔
مولانا کی شخصیت کا اگر نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مولانا
ذہنی طور پر بیمار انسان ہیں ۔ وہ ایک ایسی بیماری میں مبتلا نظر آتے ہیں
جو کہ احساس کمتری کو ختم کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے اور یہی کچھ وہ
اپنے جملوں میں کرتے ہیں۔۔۔ مولانا کا مطالبہ تھا یہ فوج کی سیکورٹی مہیا
کی جائے اب یہ مطالبہ بھی ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کا نہیں ہو سکتا
کہ اب فوج کے پاس کرنے کو کچھ نہیں رہا تو وہ کینڈین انقلاب کی حفاظت کریں
گے۔۔۔؟ فوج سرحدوں اور ملک کی حفاظت پر معمور ہوتی ہے ۔ فوج کے لیے ملک سے
بڑھ کر مقدم کچھ چیز نہیں ہوتی چاہے وہ کتنی ہی قدآور شخصیت کیوں نہ
ہو۔۔۔اگر انقلاب یہ ہے کہ کینیڈا میں بیٹھ کر جان کی پروا نہیں اور پاکستان
میں آتے ہی فوج کی حفاظت کی ضرورت۔۔۔تو پھر انقلاب تو آہی گیا۔۔۔ اور کچھ
اطلاعوں کیمطابق مولانا نے اپنے اور اپنے فرزند کے لیے کروڑوں روپے مالیت
کی بلٹ پروف گاڑیاں بھی درآمد کر لی ہیں ۔ انقلاب بلٹ پروف گاڑیوں اور
کینٹنرز میں ہی آتا ہے۔۔۔صد افسوس اس عوام پر جو عقل کو چھوڑ کر جذبات کی
رو میں بہتے رہتے ہیں اور ایسے انسان کے پیچھے دوڑے چلے جاتے ہیں جو انقلاب
میں گولی تو دور سردی اور گرمی بھی برداشت نہیں کرتا ہے۔۔۔ جو انسان عوام
میں نہیں رہ سکتا ہے وہ عوام کا بھی نہیں رہ سکتا ہے۔۔۔ عوام کو سوچنا
چاہیے کہ یہ انقلاب ذاتی مفادات کے لیے آیا ہے یا پھر کسی ایجنڈے پر۔۔۔ یا
کہیں اس میں کوئی بہتری کا پہلو بھی نظر آتا ہے۔۔۔؟ نہیں تو حقیقت پھر یہ
ہی ہے کہ قرب قیامت کی نشانیاں واضح ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔ |