صحافت کا سفر…ھل پوسٹ سے ھل نیوز تک
(Mohammed Obaidullah Alvi, Islamabad)
دنیا میں چند پیشے ایسے ہیں جن
کا تعلق نہ صرف فکرو شعور سے ہوتا ہے بلکہ وہ براہ راست انسان کی تقدیر ،
اس کے مستقبل اور نیک و بد کی راہ متعین کرتی ہے ان پیشوں میں عدل' قانون'
تدریس اور صحافت و ابلاغ عامہ شامل ہیں جن کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ ممکن
انسانی دانش سے فیصلہ دینے ،قصور وار کو کٹہرہ میں کھڑا کرنے،علم نافع کو
طلبہ تک ایمانداری سے پہنچانے اور انسانی شعور کو نئی فائدہ مند اور غیر
جانبدارانہ انداز سے خبرونظر سے آگاہ کرتے ہیں، اس میں ذرا سی کوتاہی سے
انسانی جانیں تلف اور درد ناک و کربناک المیے جنم لیکر سماج کو انارکی اور
بے یقینی کی کیفیت کی دلدل میں پھنسا سکتے ہیں۔
آج کے جدید دور میں صحافت اور ابلاغ عامہ ایک سائنس، تھیوری، فن اور پیشہ
کے طور پر اپنا وجود رکھتے ہیں، اس کی اہمیت کا اندازاہ اس بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ یہ انتظامیہ،عدلیہ اور مقننہ کے بعد کسی بھی جمہوری ریاست کا
چوتھا ستون ہے، اسے قوموں کی آنکھ، کان اور زبان بھی سمجھا جاتا ہے اور جس
ملک اور معاشرے میں مطبوعہ برقی اور دیگرسماجی ذرائع ابلاغ جتنے زیادہ ہوں
گے اسے اتنا ہی باشعور پڑھا لکھا اور جمہوری سمجھا جائے گا۔ ابلاغ عامہ کے
یہ ذرائع اس سپر سٹور کی مانند ہوتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنے سماجی، دینی،
ملکی اور قومی تقاضوں سے ہم آہنگ اور اپنی سوچ کے مطابق اپنا برانڈ یعنی
خبر اور تجزئیے رکھ سکتا ہے اور یہاں پذیرائی اسی کو ملے گی جس میں خبر،
اطلاع، معلومات اور شعور کے خزانوں میں اضافہ کرنے والامواد شامل ہو گا
ورنہ صحافت اور ذرائع ابلاغ کے 152 رائج نظریات کے مطابق شاہوں کی قصیدہ
گوئی،برسر اقتدار پارٹی کی خوشامد اور بیان بازی کسی صحافت کے زمرے میں
نہیں آتے بلکہ یہ ایک سفید کاغذ کو محض کالا کرنے کے حربے سمجھے جاتے ہیں…
قارئین کرام کے لئے یہ بات ضرور باعث دلچسپی ہو گی کہ راقم کی معلومات کے
مطابق کوہسار سرکل بکوٹ، گلیات اور کوہ مری کی صرف ایک یونین کونسل اور
میری جنم بھومی بیروٹ میں میٹرک، بی اے یا ایم اے تعلیم یافتہ افراد کو تو
ایک طرف رکھیں یہاں تو ملکی اور غیر ملکی جامعات سے فارغ التحصیل پی ایچ
ڈیز کی تعداد 18 ہے مزید 8 ایم فل اور پی ایچ ڈی طلباء مختلف جامعات میں
زیر تعلیم ہیں، اسی یونین کونسل میں دینی اور جدید تعلیم کے ٹیچرز حضرات کی
تعداد بھی سینکڑوں میں ہے ایک ریٹائرڈ جج اور درجن بھر وکلاء حضرات سیشن
ہائی اور سپریم کورٹس میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ،اعلی تعلیم یافتہ
اور عشروں پر مبنی پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا کے تجربات کے حامل کچھ ماہرین
ابلاغ کا تعلق بھی اسی یونین کونسل سے ہے اس میں تعلیم و صحت سے لاپرواہ
قیادت کے اغماض کے باوجود سرکل بکوٹ ، گلیات اورکوہ مری کی الگ یونین میں
تعلیمی سماجی، دینی اور فکری شعور کا کیا عالم ہو گا؟ وہ کسی سے پوشیدہ
نہیں ایسے میں اگر دانستہ طور پر کسی بھی شعبہ زندگی کی کالی بھیڑوں کے
کرتوتوں کو ذاتی تعلیم کی وجہ سے لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جائے،
علاقے کی نمائندگی کرنے والے مقامی سے صوبائی اور قومی سطح تک عوامی
نمائندوں کی نہ صرف کاسہ لیسی اور خوشامد میں ساری حدیں توڑ دی جائیں ان کی
ڈکٹیشن پر علاقے کے دیگر طبقات اور سٹیک ہولڈرز کے جائز اور مبنی برحقیقت
اور کھرے سچ کا بلیک آئوٹ کرنے کی کوشش کی جائے صحافت اور ابلاغ عامہ جیسے
مقدس پیشے اور فکری و شعوری علم و فن کو اشتہارات سے ہونے والی آمدن میں
لوٹنا شروع کر دیا جائے اور اگر اس صحافتی بے ایمانی، بدعہدی اور کرپشن پر
کوئی سٹیک ہولڈر یا قاری حرف شکایت نوک قلم پر لائے تو جواب ملے کہ ''یہ
میرا اخبار ہے' میں کسی کا پابند نہیں ' وہی پیش کروں گا جو میری میریے
آقائوں کی مرضی کا ہو گا…؟ تو پھر عقل و شعور کا حامل قاری ہو یا ناظر یا
سامع ،لکھاری ہو یا صحافی ،سیاستکار ہو یا سیاستدان اور سوشل سائنٹسٹ
بالخصوص اعلی تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ اور شعبہ تدریس و تعلیم سے وابستہ
اساتذہ کرام اور طلباء و طالبات محض چار صفحے کے ایک ہفت روزہ کو دلہن کی
طرح رنگ و روپ سے سجا کر صرف ایک برسر اقتدار سیاسی جماعت اور چند مخصوص
لوگوں کے ترجمان کو کون قبول کر سکتا ہے؟ وہ طبقہ جس کے مفادات کو سرعام
تمام اخلاقی، سماجی اور تمدنی اقدار کو روند کر تحفظ دیاجا رہا ہے یا وہ جن
کے جائز موقف کو صرف اس لئے نظر انداز کیا جائے کہ ان کی آواز سے ظلم و جبر
اور مکرو فریب کی سیاست کی دھجیاں نہ اڑ جائیں اور عام آدی کو آگاہی نہ مل
جائے کہ اس کے حقوق کیا ہیں ؟کہاں سے اس کے نام پر اربوں روپے کے فنڈز حاصل
کئے جا رہے ہیں؟ اور انہیں سیاسی مفادات پر شیر مادر کی طرح کون کون
عیاشیوں میں اڑا رہا ہے۔ اسی طرح کی سیاست اور صحافت دکانداری اور کمرشل
ازم تو ہو سکتی ہے مگر اسے مقدس مشن کبھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ
ایڈیٹر کی جیب میں جانے والے کرنسی نوٹ اس کے ضمیر سے بے باکی اور حق گوئی
نکال کر اسے روباہ خصلت مخلوق کی شکل میں ڈھال دیا کرتے ہیں۔
سرکل بکوٹ سے گزشتہ تیس سالوں میں تین بہترین صحافتی شاہکار سامنے آئے ہیں،
نئے دور کا سب سے پہلا ہفت روزہ ہل پوسٹ تھا جسے راقم نے 1988ء میں کراچی
سے نکالا اور اس نے صحافیوں کی ایک نرسری تیار کی جو اس وقت ملک کے بڑے بڑے
اخبارات، میگزینز، چینلز، اشتہاری اداروں اور سرکاری و نجی اداروں کے پبلک
ریلیشنگ کے شعبوں سے منسلک ہیں ،یہ اخبار 2002ء تک فکرو شعور کے اجالے
بکھیرتا رہا دوسال کے تعطل کے بعد راقم الحروف اور اے ڈی عباسی نے ہفت روزہ
ہل نیوز منظر عام پر لائے جس نے کوہسار تحصیل مری، سرکل بکوٹ ،گلیات کوٹلی
ستیاں ،کہوٹہ کے علاوہ راولپنڈی، اسلام آباد سمیت کراچی جیسے دو کروڑ کی
آبادی والے شہر میں اہلیان کوہسار کو نہ صرف متحد کیا بلکہ متعدد بار معروف
کاروباری شخصیت امتیاز عباسی آف نکر قطبال بیروٹ خورد کے اشتراک سے عالی
شان تقریبات منعقد کرکے باہمی رابطوں کو مزید مضبوط بنایا۔ اس دوران رختاج
عباسی کا ایک ہفت روزہ قومی تشخص بھی سامنے آ گیا۔ صحافتی جمود میں ایک اور
ستارہ صبح کوہسار کے افق پر نمودار ہوا جسے ہل سٹار کہا جاتا ہے، اس کے روح
رواں جناب سلیم برلاس ہیں جو دو عشروں سے صحافتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں،
انہوں نے اس ہفت روزہ میں راقم الحروف سمیت کوہسار سرکل بکوٹ اور مری کے
بہترین لکھاریوں کو اظہار خیال کی دعوت دی، عاطف خالد ستی، عبدالواحد عباسی
شامل ہوئے،ہل نیوز میں عتیق عباسی، نوید اکرم عباسی' نوید عباسی ' مرتضی
عباسی مرحوم ،زاہد مہروی، وحید ہزاروی، طالب عباسی ،اعظم عباسی ،عمران
عباسی (کراچی)، طارق نواز عباسی ' افضل عباسی ' افضال سلیم' ، زبیر یوسف،
فیاض عباسی، معاذ عباسی، خطیب عباسی، جمیل عباسی، انوار عباسی، محسن عباسی،
ڈاکٹر شکیل، کراچی میں سردار گل خطاب،طاہر عباسی، نصیر عباسی ، وقار عباسی
سردار رب نواز، شہزاد عباسی، رفیق عباسی کے علاوہ شمس عباسی اور شاکر عباسی
ستارے بن کر چمکنے لگے۔ ہل سٹار نے اپنے چیف ایڈیٹر سلیم برلاس کے ویژن کے
مطابق غیر وابستہ اور غیر جانبدارانہ خطہ کوہسار مری میں درخشندہ اور زندہ
صحافتی روایات کا چلن شروع کیا ،یہاں کے ہر مکتب فکر میں اسے عزت کی نگاہ
سے دیکھا جانے لگا، اس کا صحافتی وژن بھی بڑھا اورکوہ مری کی حد تک اب بھی
غیرمتنازعہ اور باوقار عوامی خیالات اور واقعات کا آئینہ ہے، ہم امید کرتے
ہیں کہ سلیم برلاس تحصیل مری میں مزید کامیابی کے جھنڈے گاڑھیں گے اور اپنی
غیر جانبدارانہ غیر وابستہ شاندار صحافتی اقدار اور شائستہ ابلاغی روایات
کا دائرہ مری سے باہر دیگر علاقوں تک بھی بڑھائیں گے تب ہی وہ سرکل بکوٹ
اور گلیات میں مخصوص طبقات، پریشر گروپس، تو وہ برسر اقتدار پارٹی کی
خوشامد کی حد تک ترجمانی ،کاسہ لیسی اور دم چھلہ ہونے کے طعنہ سے بچ سکیں
گے۔
یہاں پر کوہسار مری کے ایک اور اہم اخبار ستی ٹائمز کا ذکر نہ کیا جائے تو
یہ بھی زیادتی ہو گی جناب امجد ستی بھی کوٹلی ستیاں کے ایک تعلیم یافتہ اور
منجھے ہوئے صحافیہیں، ستی ٹائمز کو ستی قبیلہ کا ترجمان ہوناچاہیے مگر امجد
ستی نے اپنے(باقی صفحہ3بقیہ نمبر48)
رنگین اخبار میں ہر برادری اور کوہسار کے ہر سٹیک ہولڈر کو غیر جانبدارانہ
کوریج دیکر قابل فخر صحافتی اقدار قائم کی ہیں اور اب وہ جنوبی تحصیل مری،
کوٹلی ستیاں ،کہوٹہ سمیت ٹیکسلا تک کوہسار کے ہر گھر میں پڑھا جاتا ہے اور
اس میں شائع ہونے والی آراء کو قبول بھی کیا جاتا ہے۔
بھارہ کہو سے سینئر صحافی فیصل ظفر علوی نے ابھی حال ہی میں دو نئے اخبار
شروع کئے ہیں ان میں سے ایک روز نامہ مبلغ اور دوسرا ہفت روزہ پبلک ڈے ہے۔
ہمارے ایک اور دوست محمد انور رندھاوا نے مری اور نتھیاگلی سے ایف ایم
ریڈیو کا لائسنس بھی لیا ہے اس سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ذرائع
ابلاغ کوہسار کے عوام اور ان کی شاندار تہذیب کو آگے بڑھانے کے لئے باہر کے
لوگ بھی اس خطہ میں دستک دے رہے ہیں، یہ ابلاغ عامہ اور کوہسار کی صحافتی
اہمیت ایسے ہی حاصل نہیں ہوئی بلکہ یہ سرکل بکوٹ،گلیات اور اور کوہ مری کے
ان بے لوث صحافتی کرداروں کی مرہون منت ہے جنہوںنے اس پودے کی آبیاری میں
آنکھوں میں راتیں کاٹی ہیں ،ایک ایک خبر کے حصول اور ظلم کے خلاف جارحانہ
صحافت کیلئے دس دس میل پیدل چلے ہیں، جنہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر کرپشن،
ظلم ،زیادتی، جرائم اور سماج دشمنی جیسی لعنتوں کے خلاف خم ٹھُونک کے جہاد
کیا اور انہیں بے نقاب کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، بالکل اسی
طرح جیسے سردار متہاب احمد خان نے سرکل بکوٹ کے اپنے حلقہ نیابت میں کچی
پکی اور ٹیڑھی میڑھی سڑکیں ضرور دیں جن پر رائے ونڈ بادشاہوں سے لیکر بنی
گالہ اسلام آباد کے کھلاڑیوں تک سب چل کر اہلیان سرکل بکوٹ تک آ رہے ہیں،
اب آگے دیکھیے، صحافتی شعور اور سیاسی اقتدار ان کوہساروں کے عوام کو آگے
والے دنوں میں مزید کن کن رفعتوں سے ہمکنار کرنے والا ہے؟ یہ بات اپنی جگہ
اتنی درست ہے جتنے سائنسی علوم کے تمام فارمولے بے بدل ہیں اتنی ہی یہ
حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ جس صحافتی ادارے کی پشت پر سرمایہ نہ ہو وہ
اپنا وجود، تسلسل اور آزادی برقرار رکھ سکتا ہے نہ ہی ان اقدار و روایات
سمیت جرات و بے باکی کا ہی مظاہرہ کرسکتا ہے جو اس کے ضمیر اور مشن کا جوہر
اولین ہیں۔
ہر صحافتی ادارے میں ایڈیٹوریل سیکشن اور شعبہ اشتہارات بھی اتنے ہی ناگزیر
ہوتے ہیں جتنا اس کا لائسنس مگر یہ ادارے اپنی اپنی متعین حدود میں رہ کر
کام کرنے کے پابند ہوتے ہیں، ایڈیٹوریل سیکشن ایڈیٹرز، رپورٹرز، نمائندوں
اور اداریہ نویسوں اور تجزیہ نگاروں پر مشتمل ہوتا ہے ان کا صحافتی ادارے
کے زر یا پیدائش زر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ،بڑے شہروں کے صحافتی اداروں
میں ادارتی عملہ بھاری تنخواہیں، ایڈوانسز اور مراعات لیتا ہے، ادارتی بورڈ
ان لوگوں کو اپنی صحافتی پالیسی بریف کر دیتا ہے اور یہ لوگ تمام تر صحافتی
مواد اسی بریفنگ کی روشنی میں مرتب اور اشاعت پذیر کرتے ہیں ،کوہسار کے
صحافتی اداروں میں یہ ادارتی حضرات ملازم نہیں ہوتے بلکہ اہلیان علاقہ تک
اپنا نقطہ نظر اور خیالات پہنچانے کیلئے رضا کارانہ طور پر وقت اور سرمائے
کی قربانی بھی دیتے ہیں ،خبریں، اطلاعات اور معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز تک
پہنچ کر وہ حقائق کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا ایمان ہوتا ہے کہ ان کے
قلم کی سیاہی کا ایک قطرہ یا ان کے کمپیوٹر کے کی بورڈ کی ایک سٹرائیک
لاکھوں کروڑں خیالات اور افکار کو جنم دے گی۔ پسماندہ سماج اور افراد ان
قلم کے شہسواروں کو ان کی ان بے لوث اور پرخطر خدمات پر لفظ ''شکریہ'' بھی
کہنے کے روا دار نہیں ہوتے کیونکہ صحافتی کام کو عرف عام میں تھینک لیس
جاب(Thankless job) سے موسوم کیا جاتا ہے بہرحال یہ ہمہ وقت اپنے مشن کیلئے
اپنی کھلی آنکھوں ، سنتے کانوں اور قلم کے ذریعے بیدار اور اپنے خیالات سے
اتفاق یا عدم اتفاق کرنے والوں سے رابطہ میں رہتے ہیں ،صحافت کا دوسرا شعبہ
اشتہارات کا ہے اور اس کا فرض اولین مشتہرین سے فنڈز جنریٹ کرنا ہوتا ہے،ہر
بزنس مین کا یہ حق ہے کہ اس کی مہارتوں خدمات اور پراڈکٹس کی تشہیر ہو اور
پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ان مشتہرین سے معاوضہ کے عوض ان کے اشتہارات اور
سپلیمنٹ شائع کرتا ہے، ادارہ ان کی رسید جاری کرتا ہے اور فیڈرل بورڈ آف
ریونیو ان اشتہارات سے ہونے والی آمدن پر ٹیکس بھی وصول کرتا ہے۔ جس اخبار
کا بزنس منیجر جتنا زیادہ فعال ہو گا اس میں اشتہارات بھی اتنے ہی زیادہ
نظر آئیں گے، اشتہارات کے سوا صحافتی اداروں کا پیسے لیکر مضمون ،خبر یا
فوٹو شائع کرنا جرم ہی نہیں بلکہ ایک گناہ بھی ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسا دودھ
کی بھری بالٹی میں ناپاک قطرہ آب مل جائے ،کوئی باضمیر ایڈیٹر ،صحافی،
اخبار کا مالک اور پبلشر اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ اس کے قلم کو کرنسی
نوٹ میں تولا جائے اور نہ ہی وہ اشتہاری مواد کا ایک لفظ بھی بغیر معاوضہ
کے شائع کرتا ہے، جب تک ایڈیٹوریل سیکشن اورشعبہ اشتہارات الگ الگ رہتے ہیں
تو صحافتی ادارے میں واضع اور غیر جانبدار صحافت نظر آتی ہے مگر جب ایڈیٹر
بزنس مینجر بن جائے یا بزنس منیجر ایڈیٹر کی کرسی پر بیٹھے تو خبریں اور ان
کی سرخیاں وہی بنائے گا جو کرنسی نوٹ لگائے گا اور ایسا اشاعتی ادارہ صحافت
کار تو نہیں اپنے انویسٹر کا پبلک ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ ہو گا۔ |
|