پاکستان کی تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں ہر دور
میں سیاستدانوں نے عوام کو ایک ہی نعرہ دیا۔ انقلاب ، انقلاب ، انقلاب
بدقسمتی سے آج تک ایسا کوئی لیڈ ر نہیں آیا جس نے پاکستان میں انقلاب لا نے
کی سعی کی ہو۔ ہاں اتنا ضرورہے کہ پاکستان کی بھولی بھالی عوام کواپنے نئے
چکرمیں پھنسا کر اپنا الو سیدھا کر جاتے ہیں۔ آجکل پھروہ ہی ایک نعرہ کہ
پاکستان میں انقلاب لانا ہے ۔ انقلاب لانے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ عوام کی
خیر خواہی ہوگی بلکہ جو یہ نعرہ لگا رہے ہیں وہ سیاستدان اپنا الو سیدھا
کرتے ہیں اگر عوام ان سیاستدانوں کو حکومت میں لے آئیں تو یہ پاکستان میں
انقلاب آجائے گااور اگر ان کو عوام مسترد کردے تو پھر انتخابات میں جھرلو
یا دھاندلی کا نعرہ بلند ہوجاتا ہے۔ جبکہ ہر دور میں عوام بے روزگاری،
مہنگائی اور نقص امن و امان کی چکی میں پستی آئی ہے۔عوام ہر بار ان
سیاستدانوں کے جھوٹے نعروں کو انقلاب سمجھ کر اندھا اعتماد کربیٹھتے ہیں
اور جب عوام پر مختلف قسم کے ظلم کے پہاڑٹوٹتے ہیں تو پھر ان کی آنکھیں
کھلتی ہیں۔پھر یہ کہتے ہیں کہ ان سے تو پچھلی حکومت ٹھیک تھی۔جب مشرف دور
تھا تو اس کو برا بھلا کہا گیا پھر زرداری کو حکومت دی گئی تو مشرف دور کو
اچھا اور زرداری دور کو برا کہا گیا اور جب میاں صاحب کی حکومت ہے تو اس کو
زرداری دور سے بھی برا کہا جارہا ہے اور مشرف اور زرداری دور کو اچھا کہا
جارہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو مشرف دور کا بیجا ہو بیج زرداری دور میں کاٹا گیا اور
زرداری دور کا بیج میاں صاحب کے دور میں کاٹا جارہا ہے۔ ہردور میں یہ
سیاستدان مزے میں رہے اور اگر پسی ہے تو یہ غریب عوام۔میں پاکستان کی عوام
اوربالخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہ
جوسیاستدان جو انقلاب کی باتیں کررہے ہیں کیا کبھی کسی نے ان سیاستدانوں سے
یہ سوال پوچھا ہے کہ وہ اتنا بتا دیں انہوں نے کس کس ملک سے پاکستان میں
سرمایہ کاری کرنے کے لیے بات چیت کی ہوئی ہے ؟ کون کون سے ملک سے لوگ آکر
ہمارے ملک میں بزنس کریں گے؟محکموں میں کس انداز سے کرپشن کو ختم کریں گے ؟ملک
سے بیرروزگاری کس طرح ختم کی جائی گی؟ عوام کوروٹی ، کپڑا اور مکان کدھر سے
ملے گا؟ تعلیم کس طرح عام ہوگی؟ بجلی کے لیے کس ملک سے بات چیت کی ہوئی ہے؟
گیس کا مسئلہ کس طرح حل ہوگا؟ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کونسا طریقہ
اپنائیں گے؟اپنے مسلم ممالک بھائی کے کیا ہونے والی نا انصافیوں کے لیے کس
طرح آواز بلند کریں گے؟
صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم حکومت میں آکر ملک کی تقدیر سنوار دیں گے
یا کرپشن ختم کردیں گے۔ یہ نعرہ تو ہر دور میں سیاستدان اپنے اپنے جلسوں
میں لگا تے آر ہے ہیں مگر اقتدار میں آکر وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں ان کو
صرف اپنے اقتدار اور اپنی کرسی سے غرض ہوتی ہے۔
نواز شریف نے بھی ملک کی تقدیر سنوارنے کا نعرہ لگا یا تھا مگر آج سب اس
بھی مایوس ہوچکے ہیں۔تحریک انصاف ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کررہی ہے اور
زیادہ سے زیادہ عوامی طاقت کا مظاہر ہ کرنے کی جد وجہد میں لگی ہوئی ہے۔وہ
ملک میں سونامی لانے کی نوید سنارہے ہیں تو کبھی نیا پاکستان بنانے کی۔ مگر
خان صاحب نے ایک بار بھی یہ عوام کو نہیں بتایا کہ ہم نے نیا پاکستان بنانے
کے لیے فلاں ملک سے سرمایہ کاری کی بات کررکھی ۔ ہم نے کرپشن کے لیے یہ
پروگرا م بنایا ہوا ہے۔ ہم نے بے روزگاری کے لیے یہ پراجیکٹ بنایا ہوا ہے۔
بس عوام کوجھوٹے دلاسے دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ میں تو یہ کہوں گا کہ
عوام کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔قادری صاحب اپنا
انقلاب لانا چاہتے ہیں۔وہ پی پی کے دورمیں بلٹ پروف بکتر بند ٹینکر میں
بیٹھ کر دھرنا بھی دے چکے مگر انقلاب تو نہیں البتہ پتا نہ کیا کھیل کھیل
کر واپس کینیڈا جاپہنچے تھے۔ اس وقت بھی وہ پاکستانی عوام کو موجودہ سیاسی
نظام سے چھٹکارا دلانے آئے تھے۔ آج پھروہ عوام کے مسیحا بن کر انقلابی
پروگرام لائے ہیں جو ابھی تک ان کے دل میں محفوظ ہیں اور عوام تک نہیں
پہنچا۔ہوسکتا ہے شیخ الاسلام صاحب پھر کسی بکتر بند میں قید ہوکر اسلام
آباد جائیں اور اپنا کام کرکے واپس اپنے ملک پدھار جائیں۔
ابھی تک ان دونوں انقلابیوں نے کسی سٹیج پربھی اپنا انقلابی ایجنڈا عوام کو
بتانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ جب ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے
الزامات لگا کر عوام کوسب کچھ بتا سکتے ہیں تو پھر یہ انقلابی پروگرام عوام
کوکیوں نہیں بتا سکتے؟
سوال یہ ہے کہ اس وقت جو حالات پاکستان میں چل رہے ہیں ۔ لاء اینڈ آرڈر کا
جو مسئلہ چل رہا ہے۔ کیا ان حالات میں کوئی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے
کے لیے تیار ہے؟ ہرگز کوئی نہیں تیار ہوگا کیونکہ سب سے پہلے ہمیں اپنے ملک
میں لاء اینڈ آرڈر کو درست کرنا ہوگا۔ باہر کے ملکوں سے آنے والے لوگوں کو
تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ نا ہوگا۔جو اس وقت ہماری
فوج کررہی ہے۔ ان انقلابیوں سمیت تمام سیاستدانوں کوا س وقت فوج کی مکمل
حمایت کرنی چاہیے اور ملک میں کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے فوج کا ذہین
بھٹکے۔ اگر ہمارے سیاستدان ملک سے سنجیدہ ہیں تو پھر آپس کے اختلاف بھلا کر
اس حالت جنگ میں فوج کا بھر پور ساتھ دیں۔
ان لیڈران کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انقلاب ہمیشہ عوام کے ذہن بدلنے سے آتا
ہے۔ جلسوں یا جلوسوں سے انقلاب نہیں آتے۔ اگر کسی بھی لیڈر کو انقلاب لانا
ہے تو پہلے اس کو عوام کا ذہن بدلنا ہوگا۔ ان کے سامنے ساری حقیقت واضح
کرنا ہوگی ۔ ان کے لیے ایک راستہ متعین کر نا ہوگا۔ ان کوعوام کا اصل خواب
سچا کر کے دکھانا ہوگا۔ اگر لوگ جمع کرنے سے انقلاب آتا ہوتا تو پھر دو چار
مداری بھی مل کر ملک میں انقلاب لا سکتے ہیں کیونکہ آدمی جمع کرنے کافن ان
کو بھی آتا ہے۔
میں اپنے ان انقلابی سیاستدانوں سے صرف اتنا کہوں گا کہ اگر آپ واقعی ملک
کے ساتھ مخلص ہیں اور ملک میں انقلاب لانا چاہتے ہیں تو ملک میں سب سے پہلے
بے روزگاری ختم کرو، امن وامان قائم کرو، حقدار کو اس حق دلاؤ، انصاف عام
کرو، امیر اور غریب کا فرق مٹاؤ،محکموں سے کرپٹ مافیا کا خاتمہ کرو۔ انقلاب
ایسے نہیں آتا کہ خود تو بکتربند ٹینکر میں بیٹھیں اور عوام کو مرنے کے لیے
سڑکوں پر چھوڑ دے۔انقلابیوں کو سب سے پہلے اپنے اندر تبدیلی لانا ہوگی۔
اپناکلچر تبدیل کرناہوگا۔ خود کو عوامی بناناہوگا۔ عوام میں گھل ملناہوگا۔
عوام کے اندر سے احسا س محرومی نکالنا ہوگا۔ تب جا کرعوام کا انقلاب کی طرف
ذہن بنے گا۔ |