یووون ریڈلے اور عافیہ صدیقی

برطانوی صحافی یووون رڈلے (مریم ریڈلے) کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ،گذشتہ دنوں2جون 2014ء کویووون ریڈلے، ڈیفنس لائبریری آڈیٹوریم ،ڈی ایچ اے کراچی میں ایک سمینار " "Solidarity with Syria" ـ" مسلم امہ یکجہتی فورم "کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا ، اس میں یووون رڈلے بطور مہمان خصوصی شرکت کیلئے آئیں ۔انھوں نے سیمنار میں مسلم امہ کو درپیش مسائل اور خاص کر ملک شام میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر اپنے خیالات کااظہار کیا اور اپنے کرب کو اس دلسوزی سے بیان کیا کہ جیسے الفاظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔سینمار کا مقصد مملکت شام، انبیا ء علیہ السلام اور نزول وحی کی سرزمیں تھا ، جس میں گذشتہ تین سال سے ظلم و ستم ، قتل وغارت اور تباہی و بربادی نے گھیرا ڈالا ہوا ہے ۔ سمینار میں شامی مسلمانوں کی حالت زار کا تذکرہ کیا گیا کہ شامی مسلمان روزانہ کی بنیاد پر اپنے سو سے زائد عزیز اقارب کی لاشوں کو کندھا دے رہے ہیں اور اتنے ہی مسلمان زخمی حالت میں شام کے ہسپتالوں میں منتقل کئے جا رہے ہیں۔شام کی بگڑتی صورتحال کے سبب ہجرت کرنے والے شامی عوام کی بہت بڑی تعداد ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔یہ انسانی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے جس پر مسلم امہ خاموش بیٹھی ہوئی ہے اور شامی عوام مسلمانوں کو ایک طرف صحت ، تعلیم ، خوراک کی کمی کا سامنا ہے تو دوسری طرف کیمیاؤئی ہتھیاروں کے استعمال نے بھی بڑی تباہی مچا دی ہے ۔

فی الوقت سمینار میں میری نظروں کے سامنے اسٹینلے کی کاؤنٹی ڈرہم میں جنم لینے والی مشہور صحافی تھیں جو اپنے افغانستان کے سفر میں طالبان کے ہاتھوں قید ہوئیں ستمبر2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے وقت آپ کو سفری دستاویزات کی عدم موجودگی کی وجہ سے طالبان نے گرفتار کیا تھا اس وقت آپ سنڈے ایکسپریس سے منسلک تھیں ، دوران قید آپ نے قرآن کا مطالعہ اور افغان طالبان کے کردار کا نزدیکی سے جائزہ لیا ور طالبان کے حسن سلوک کے باعث جب رہائی پائی تو یووون رڈلے ، مریم رڈلے بنتے اور عیسائیت کو خیر باد کہتے ہوئے مشرف بہ اسلام ہوگئیں تھیں۔یووون رڈلے سنڈے ایکسپریس کی چیف رپورٹر رہنے کے علاوہ سنڈے ٹائم ، آبزرور، روزنامہ مرر اور انڈیپنڈنٹ ٓاف سندے سے بھی منسلک رہی ہیں ، مزید آپ نے پیشکار ، میزبان کی حیثیت سے سی این این ، بی بی سی ، آئی ٹی این اور کارلٹن ٹی وی کیلئے بھی خدمات سر انجام دیں اور اس ضمن میں عراق ، افغانستان اور فلسطین کا دورہ بھی کیا۔یووون رڈلے عورتوں کے حقوق کی علمبردار کے ساتھ ساتھ جنگ مخالف گروپ کی بانی رکن ہیں ۔

جبکہ ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں جو کراچی میں پیدا ہوئیں ،کراچی میں ابتدائی وثانوی تعلیم کے بعد بوسٹن ٹیکساس کی University of Houston میں پڑھیں وہاں سےMassachusetts Institute of Technology (MIT)چلی آئیں اور" وراثیات" میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔2002 ء میں پاکستان واپس آئیں ، امریکہ ملازمت ڈھونڈنے گئیں ۔ اس دوران میریلینڈ میں ڈاک وصول کرنے کیلئے پوسٹ بکس لیا اور 2003ء میں کراچی واپس آگئیں ۔ امریکی ایجنسی ایف بی آئی نے ان پرپوسٹ بکس القائدہ کے کسی رکن کیلئے لینے کا شبہ ظاہر کرکے عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کرادی ، یہ دیکھ کرعافیہ صدیقی کچھ عرصہ کراچی میں روپوش رہیں 30مارچ2003ء کو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کیلئے ٹیکسی میں ہوائی اڈا کی طرف روانہ ہوئیں مگر پرویز مشرف کے آلہ کاروں نے بچوں سمیت عافیہ کو اغوا کرکے امریکی فوجیوں کی حوالے کردیا ، اس وقت ان کی عمر30سال کی تھی۔افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں قیدی نمبر 650عافیہ صدیقی ہی تھی جو وہاں بے حد بری حالت میں رکھی گئیں، پاکستانی اخبارات کے شور مچانے پر امریکیوں نے اعلان کیا کہ عافیہ کو27جولائی2008ء افغانستان سے گرفتار کرکے امریکہ پہنچا دیا ہے تاکہ ان پر دہشت گردی کا مقدمہ چلایا جائے۔ تمام انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کہانی کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا کہ گلاسگو غشی میزان 3(یعنی مرنے کے قریب) جیسے مرض میں مبتلا نحیف و کمزور لڑکی نے دوران گرفتاری امریکیوں سے اسلحہ چھین کر گولیاں چلائیں تھیں جس پر امریکی فوجیوں نے ایسے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا ۔23ستمبر2010میں نیویارک کی امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو86سال کی قید کی سزا سنا دی جبکہ جون 2013میں امریکی فوجی نے فورٹ ورتھ جیل میں عافیہ پر حملہ کیا جس سے وہ دو دن بے ہوش رہیں ، بالاآخر وکیل کی مداخلت پر اسے طبی امداد دی گئی۔

یہ دنیا عالم کے سامنے دو ایسی خواتین کے کردار ہیں ، جن کی ہمت و عظمت کی مثالیں دیں جاتیں ہیں ۔وہاں انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے لئے بھی ایک روشن مثال ہے کہ افغان طالبان کو اسلام کے نام پر وحشی اور خواتین کے ساتھ نا انصافی و ظلم کے قوانین نافذ کرنے کا پروپیگنڈا کہہ کر مغرب نے سورج کو چراغ کی روشنی میں چھپانے کی کوشش کی تھی ، لیکن یو وون رڈلے جیسی کہنہ مشق صحافی طالبان کے حسن سلوک اور اسلام کی تعلیمات سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ عیسائیت کو خیر باد کہہ کر ان ممالک کے منہ پر طمانچہ دے مارا جو خود کو خواتین کے حقوق کا عملبردار کہتے نہیں تھکتے ، جبکہ دوسری جانب ڈاکٹر عافیہ صدیقی ، جرات و حوصلہ مند مسلمان نازک نحیف نزار خاتون ، جس کے حوصلے پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کردیں ، تمام تر ظلم ، زیادتی ، تشدد اور انسانیت سوز سلوک کے باوجود اسلام کی یہ بیٹی عزم استقلال کا پیکر بنی ہوئی ہیں اور عالمی استعماری قوتوں کے تمام تر ظلم و زیادتی کے باوجود ان کی ہمت کو توڑنے میں ناکام رہیں ہیں۔

افغان طالبان کی قید میں ایک سال کا کم ترین عرصہ گذارنے والے یوون رڈلے نے جب اسلام قبول کیا تو ہر فورم پر طالبان کا دفاع بھی کیا ۔کچھ لوگ ایسے پختون روایات قرار دیتے ہیں کہ پختون روایات میں خواتین کے ساتھ حسن سلوک ثقافت کا حصہ ہے لیکن یہ پشتون طالبان خواتین کے بلاضرورت اکیلے یا نا محرم کے ساتھ گھر سے باہر جانے کے مخالف تھے اور اب بھی پختون روایت اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ رویہ کسی" طالبائزیشن" کی وجہ سے نہیں بلکہ پختون رسم و رواج میں آج بھی پایا جاتا ہے۔اسلام کے نام پر سزائیں دینے کے تصور پر بحث ان سے کی جانے چاہیے جو خود خواتین کا احترام کرتے ہوں ، مغرب اور ان کے حواری ممالک میں ، چاہیے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی ، عورت کو آزادی نسواں کے نام پر جتنی کھلم چھوٹ دی گئی ہے اس کا تو کوئی عشر عشیر ہی نہیں ہے۔ بے پردگی ہی نہیں بلکہ کلچر کے نام پر کئے جانے والوں مجروں کو ثقافت قرار دے دیا جاتا ہے ۔ یونکہ ہم نے اپنی روایات و ثقافت کو مغرب زدہ کردیا ہے ۔ لیکن ہمارے سامنے اسلامی روایات کی دو بین مثالیں موجود ہیں کہ حسن سلوک اور اسلامی روایات کی پاسداری کی جائے تو مغرب میں ان گنت غیر مسلم مسلمان ہوجاتے ہیں اور جب واپس اپنے ممالک جاتے ہیں تو ان کے بدلی ہوئی کائنات کو دیکھ کر انھیں اسلام کی سچائی ہضم نہیں ہوتی ۔جبکہ دوسری جانب اپنے مفادات کیلئے ان کے سامنے بیمار ، نازک اور لاچار کمزور ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی خاتون آجائے تو پھر ان میں صلیبی انتقام کی روح گھس جاتی ہے ، امریکہ نائن الیون کی بعد کی جنگ کو صلیبی جنگ اور وزیراعظم برطانیہ ، تمام سیکولر نظریات کو ایک طرف رکھ کر انگلینڈ کو عیسائی مملکت قرار دیتا ہے ۔ ہند وانتہا پسند حکومت بنتے ہی مسلمانوں پر اذان کی صدا پر پابندی عائد کرادی جاتی ہے، طاقت کے نشے میں معصوم کمزور مزدور پیشہ مسلمان کا زبردستی روزہ توڑا دیا جاتا تو دوسری جانب بدھا کے ماننے والے جو ایک چیونٹی کے غلطی سے پاؤں کے نیچے آنے پر رو پڑتے تھے مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں تو انھیں کوئی پوچھنے والا کوئی نہیں۔عراق ، شام میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی کراکر مغرب اپنا ایجنڈا پورا کرتا ہے تو جمہوریت کا راگ الپانے والے مصر میں فوجی حکومت کے قیام ہونے پر جشن مناتے ہیں۔یووون رڈلے اور عافیہ صدیقی جیسی ہزاروں بچیاں ہیں جو اسلام کے حسن سلوک کی نمایاں مثالیں ہیں ۔مغرب صلیبی زدہ حواریوں کو بس سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں تشدد ، جبر اور ظلم کا نظام نہیں ہے بلکہ چند ناعاقبت اندیشوں اور اسلام دشمن ایجنٹوں نے اسلام کے روشن چہرے کو انتہا پسندی میں چھپانے کی کوشش کی ہے جو ہمیشہ ناکام رہے گی ۔اسلام کسی بھی مذہب کے پیروکاروں پر زبردستی کا اسلام مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرتا ، اس کا ایک واضح ثبوت افغان طالبان کی قید سے رہائی پانے والا ایک امریکی فوجی بھی ہے ، جس پر اب خود اس کی امریکی حکومت اعتبار نہیں کر رہی۔بلکہ اس کی اسکرینکنگ کے ساتھ ، سخت تفتیش اور سوال جواب کے ساتھ اس کی انتہائی سخت نگرانی کی جارہی ہے کہ کہیں اتنے عرصہ طالبان کے ساتھ رہنے کے بعد یہ بھی کہیں" طالبان" تو نہیں بن گیا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 743525 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.