(اعلیٰ حضرتؒ کے یوم ولادت اورجشن پاکستان کی مناسبت سے خاص تحریر)
اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخاں بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ دس شوال المکرم کوبریلی
شریف بھارت میں پیداہوئے۔تاریخ ِ عالم شاہدہے کہ دنیامیں جتنی بھی بلندپایہ
ہستیاں گزری ہیں‘اُن کے مقام ومرتبہ کی ابتداء وانتہاء سرکارِ کل عالم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے غیرمشروط وابستگی‘آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سچی
غلامی اور بے انتہاء محبت وعقیدت ہی ہے۔ایسی کئی عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کا
نام سن کر ہی حضور سرورکائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے محبت وعقیدت کے
جذبات اُبھر آتے ہیں۔مگرصحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے بعدعشق ومحبت
اورادبِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں جومقام واعزاز حضورغوث الاعظم شاہ
سیدعبدالقادرجیلانیؒ،حضرت مولاناعبدالرحمان جامیؒ،حضرت مولانا رومیؒ،حضرت
شرف الدین بوصیریؒ،حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ، حضرت خواجہ حسن بصریؒ،حضرت نعمان
بن ثابت المعروف امامِ اعظم ابو حنیفہؒ،حضرت امام محمداحمد غزالیؒ،حضرت
سیدعلی ہجویری المعروف داتاگنج بخشؒ،حضرت پیرسیدمہرعلی شاہؒ،حضرت مجددالف
ثانیؒ،حضرت علامہ محمداقبالؒ کوحاصل ہو۔انہی میں سے ایک امام ِ عاشقاں،
مجددِدین و ملت،چشمہ ء ِ علم وحکمت،عاشقِ صادق الشاہ امام احمدرضاخاں
بریلوی قادری ؒ کی ذات ِگرامی ہے کہ جن کا ذکر آتے ہی عشق رسول صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی مٹھاس سے دل ودماغ تازہ ہوجاتاہے۔ حضورسرکاردوعالم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے بحرِبیکراں سے فیضیاب ہونے والے غلامانِ رسول کا
کوئی شمارنہیں لیکن یہ ایسی ہستیاں ہیں کہ جن کی پہچان ہی عشق و محبتِ رسول
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
اعلیٰ حضرت ؒ کی ہرہراداسنت مصطفی اورآپؒکی پوری زندگی عشق رسول صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم سے عبارت ہے ۔ آپ ؒ کی زندگی کاہراک پہلو ایک زخیم کتاب
کامتقاضی ہے اورآپؒ کی زندگی پر جتنابھی لکھاجائے کم ہے ۔اعلیٰ حضرت امام
احمدرضاخانؒ کو اﷲ رب العزت نے بے انتہاذہانت وفطانت سے نوازاتھا۔آپ ؒ اپنے
علمی فضل وکمال کی بناء پر محض 15سال کی عمرمیں مسندِفتاویٰ پر فائز کردئے
گئے تھے۔آپؒ بچپن سے ہی ملنسار،خوش خلق اورحلیم الطبع تھے۔آپ ؒ نے کم وبیش
50علوم پردسترس حاصل کی ۔جن میں بطورخاص علم حدیث،علم فلکیات،علم ریاضی،علم
الاعداد،علم فقہ،علم نحو،علم فلسفہ،علم منطق،علم طب،علم سائنس،علم الکلام
اور دیگر علوم شامل ہیں۔آپ کی ایک کرامت یہ ہے کہ آپؒ کو لوگ وضع قطع سے
حافظ جی کہہ کر پکارتے تھے۔آپ کو یہ شاک گزراکہ لوگ آپؒ کو حافظ قرآن کہتے
اور سمجھتے ہیں، مگر آپ ؒ نے قرآن کریم حفظ نہیں کیا۔اسی جستجومیں قرآنِ
کریم حفظ کرناشروع کردیا۔روزانہ ایک سپارہ حفظ کرتے اوررات کو نمازِ تراویح
میں سنادیتے۔اس طرح ایک ماہ کے قلیل عرصے میں پوراقرآنِ کریم حفظ کرلیا۔
اعلیٰ حضرت ؒکی جذبہ ء عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب کر لکھی
ہوئی نعتیں آج سوسال سے زائدعرصہ گذرنے کے باوجود زبان زدعام ہیں۔’’سب سے
اولیٰ واعلیٰ ہمارانبی ،صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم‘مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں
سلام ‘‘جیسے کلام آج بھی مسجدومحراب سے گونجتے عشق و محبت وادب ِ مصطفی صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو بکھیررہے ہیں۔اس کے علاوہ آپؒ نے محبت رسول صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب کر ایک ہزارسے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔آپ کا
ترجمہ قرآن ’’کنزلاایمان ‘‘حقیقی معنوں میں دین وایمان کی سلامتی کی کنجی
ہے اس ترجمہ قرآن نے پوری دنیامیں ادب ومحبتِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے حوالے سے جو شہرت پائی‘ اپنی مثال آپ ہے۔آپ کاترجمہ ء قرآن عشق رسالت
مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خاص پہچان عطاکرتاہے۔آپ ؒ نے محبت وعشق رسالت
مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب کر نعتیں لکھیں،آپ کانعتیہ کلام ’’حدائق
بخشش‘‘ وہ مجموعہ کلام ہے جس کو پڑھ کر ایک سچاغلام ِ مصطفےٰ بلامبالغہ نعت
کی صوررت میں قرآن پڑھتاہوادکھائی دیتاہے۔فرماتے ہیں،
عرشِ حق ہے مسندِرفعت رسول اﷲ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،دیکھنی ہے حشرمیں عزت رسول اﷲ
کی
اے رضاخودصاحبِ قرآن ہے مداحِ حضور ۔۔۔۔،تجھ سے کب ممکن ہے پھرمِدحت رسول
اﷲ کی
ایک اورمقام پر فرماتے ہیں، وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا،وہ جو نہ ہوں تو
کچھ نہ ہو ۔۔۔۔،جان ہیں وہ جہان کی ،جان ہے تو جہان ہے
اعلیٰ حضرت ؒکے خلفاء اورشاگردوں میں مولاناشاہ احمدنورانیؒ کے والدگرامی
مرحوم ومغفورحضرت شاہ عبدالحلیم صدیقی ؒ،مفسرِقرآن حضرت مولانانعیم الدین
مرادآبادیؒ اورپیرصاحب کچھوچھویؒ سمیت ہزاروں علماء ومشائخ عظام شامل
ہیں‘بیسویں صدی کے اوائل میں ان صاحبان نے آل انڈیاسنی کانفرنس بنارس میں
منعقدکرکے سب سے پہلے نظریہ پاکستان کی ابتداء کی۔اعلیٰ حضرت ؒ نے 1919ء
اور1920ء میں انگریزوں اور ہندؤوں کے خلاف علی الاعلان فتویٰ صادرفرمایااور
مسلمانوں کی واشگاف اندازسے راہنمائی کرتے ہوئے فرمایاکہ انگریزاور
ہندومسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔مسلمانوں کو جذبہ ء عشق رسول صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم سے سرشارہوکر ان دونوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کرنی
ہوگی۔اس تبلیغ کا یہ اثر ہوا کہ آل انڈیامسلم لیگ مظبوط ہوناشروع ہو
گئی۔حضرت قائداعظم محمدعلی جناح ؒ اور حضرت علامہ محمداقبال ؒ بھی اعلیٰ
حضرت کی اس تحریک کے معترف ہوئے۔جب حضرت علامہ محمداقبال ؒ نے پاکستان کا
خاکہ پیش کیا اور حضرت قائداعظمؒ نے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کی تحریک
چلائی تو سب سے پہلے اعلیٰ حضرتؒ کے متوسلین ومعتقدین ،خلفاء اور
صاحبزادگان نے آل انڈیاسنی کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اس کی کھل کر حمائت کی
اور قیام پاکستان کو ممکن بنانے میں ہراول دستے کاکرداراداکیا۔حالانکہ اُ س
وقت بعض لوگوں نے قائداعظم پر کفرکے فتوے لگائے اور برملاء کہاکہ ’’پاکستان
تو دورکی بات ہے، کسی ماں نے ایسابیٹانہیں جنا ،جوپاکستان کی ’’پ‘‘بھی
بناسکے۔مگرآپ ؒ کے عقیدت مندوں اور مسلمانوں کی غالب اکثریت نے پاکستان
کاخواب شرمندہ تعبیرکرکے دکھایا۔
آپؒ کا مزارپرانوار بریلی شریف انڈیامیں آج بھی مرجع خلائق ہے۔آپ ؒ کے فیض
ِعشق رسول سے تاقیامت تشنگانِ عشق رسول اپنی محبت کی پیاس بھجاکرہدائت پاتے
رہیں گے، ڈال دی قلب میں عظمت ِ مصطفے صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔۔۔۔۔سیِدی
اعلیٰ حضرت ؒپہ لاکھوں سلام ،امیدواثق ہے کہ اعلیٰ حضرت ؒ کے چاہنے والے
اولیاء واکابرین اہلسنتؒ نے جس پاکستان کے خاکے میں اپنے خون کا رنگ
بھراہے۔ اﷲ کریم اپنے محبوب رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق اس عظیم
اسلامی جمہوری پاکستان کو بھی تاقیامت روشن،تابندہ و پائندہ رکھے
گا۔سداسلامت پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاقیامت پاکستان(آمین بجاہ النبی الامین) |