نواز شریف کے نقش قدم اور ایکسٹنشن

نواز شریف نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جنرل کیانی کو آرمی چیف کے طور پر ایکسٹنشن نہیں ملنی چاہئے ہم ان کی مدت میں توسیع نہیں چاہتے۔ اس بات کی ضرورت کیا ہے، ایکسٹنشن دینا ہے تو دے دیں ورنہ سب کو پتہ ہے کہ وہ اگلے سال ریٹائر ہو جائیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کا جب دل چاہتا ہے تو کسی کو بھی ایکسٹنشن دے دیتے ہیں۔ جو جرنیل سیاسی ہو کر حکومت پر قبضہ کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو خود بلکہ خودبخود ایکسٹنشن پہ ایکسٹنشن دیئے چلے جاتے ہیں اور انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ ہمارے سیاستدانوں کو ایسا نظام اور ایسا ماحول بنانا چاہئے کہ کسی جرنیل کو جرات نہ ہو کہ وہ حکومت پر قبضہ کرے اگر سیاستدان عوام کے لئے کچھ کریں ملک وقوم کے لئے کوئی نظام بنائیں تو لوگ ان کی مدد کو آئیں گے مگر وہ تو عوام کی بجائے امریکہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کی غلامی کرتے ہیں۔ لانے والا بھی وہی اور لے کے جانے والا بھی وہی ہے۔ سیاستدانوں کے لئے بھی کوئی قانون اور ضابطہ ہو، وہ تو ریٹائر ہی نہیں ہوتے اپنے بعد بھائیوں، بیٹوں بھتیجوں اور بھانجوں وغیرہ کو لے آتے ہیں یہ بھی ایکسٹنشن ہے۔ نواز شریف نے اپنے بھتیجے حمزہ شہباز کے لئے کہا ہے کہ وہ میرے شاگرد ہیں اور میرے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ یہ نقش قدم وزیراعلیٰ ہاؤس اور وزیراعظم ہاؤس کی طرف جاتے ہیں۔ نواز شریف صدر ہونگے مگر کیا وہ 17ویں ترمیم کے بغیر صدر ہونا پسند کریں گے۔

سویلین صدر فاروق لغاری نے صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے اپنی پارٹی لیڈر بے نظیر بھٹو کی حکومت توڑی تھی۔ نواز شریف کو وزیراعظم صدر لغاری نے بنوایا تھا بی بی نے جیتنا تھا تو ان کی حکومت توڑی ہی کیوں گئی تھی۔ منصفانہ الیکشن یہی ہوتے ہیں۔ بی بی کی حکومت ٹوٹی تو میاں صاحب اور میاں صاحب کی ٹوٹی تو بی بی آ گئی۔ یہ جمہوری تماشہ چلتا رہا اب پھر چلنے لگا ہے۔ صدر زرداری جائیں گے تو میاں صاحب آئیں گے۔ جنرل مشرف نے دونوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا۔ اب بھی مائنس ون اور مائنس ٹو کی بات ہو رہی ہے۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ مائنس ٹو کے لئے اشارہ میری طرف ہے وہ اشارے جو ان کی طرف نہیں ہیں ان کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ نظام کو خطرہ ہوا تو رکاوٹ بنوں گا وہ اپنے بنائے ہوئے آرمی چیف کے سامنے تو رکاوٹ نہیں بنے تھے۔ چودھری نثار نے جنرل مشرف کی سفارش کی تھی اور وہ اب تک شریف برادران کی آنکھ کا تارا ہے اب بھی اس ستارے کی روشنی میں فیصلے ہوتے ہیں۔ حیرت ہے کہ سیاسی وزیراعظموں کے بنائے ہوئے جونیئر جرنیلوں نے مارشل لاء لگایا۔ جنرل ضیاء نے بھٹو صاحب کو پھانسی بھی دلوائی اور جنرل مشرف نے نواز شریف کو جلا وطن کیا۔

نواز شریف کے داماد بہت اہل اور اہل دل نوجوان کیپٹن صفدر بھی ساتھ ہی جلاوطن ہوئے۔ وہ اب ایم این اے ہیں اور ٹی وی چینلز پر بڑی درد بھری اور اچھی گفتگو کرتے ہیں۔ وہ بھی نواز شریف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں نجانے ان کی منزل کہاں ہے؟ بغیر اختیارات کے جو عزت صدر رفیق تارڑ کو حاصل ہوئی وہ اختیارات والے صدر کے لئے ایک مثال ہے۔ مزا تو یہ ہے کہ اختیار نہ ہو مگر وقار ہو۔ پاکستان کو اختیار والے صدور نے بدنام کیا اس میں فوجی اور غیر فوجی کی کوئی تخصیص نہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے جرنیلوں نے حکومت پر قبضہ کر کے سیاستدان بننے کی کوشش کی اور ہمارے سیاستدانوں نے جرنیل بننے کی کوشش کی۔

نواز شریف نے صدر زرداری کو ٹھیک مشورہ دیا کہ آرمی چیف کے لئے میرے تجربے سے سبق سیکھیں جو سبق وہ خود نہیں سیکھ سکے جنرل جہانگیر کرامت کو ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے پہلے رسوا کر کے نکالنا اور انجینئر کور کے جنرل بٹ کو آرمی چیف بنانا کیا تھا۔ تو کیا صدر زرداری میڈیکل کور کے کسی جرنیل کو آرمی چیف بنا رہے ہیں وہ تو جرنیلوں کی تقرری کے اختیارات مخدوم گیلانی کو دینے پر تیار ہیں۔ جس طرح وہ 58 ٹو بی دینے کو تیار تھے۔ نوازشریف نے فرمایا ہے کہ صدر زرداری کو غیر جمہوری طریقے سے ہٹانے کے حق میں نہیں ہوں۔ انہیں جمہوری طریقے سے ہٹایا جائے۔ جمہوری طریقہ یہ ہے کہ وہ جائیں تو میں آ جاؤں ہمارے ملک میں سیاستدانوں کے جانے اور آ جانے کا طریقہ ایک جیسا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کسی سویلین حکمران کے دو سال بھی نہیں ہونے پاتے اور اس کی ناکامیوں اور بدنامیوں کے ڈھول بجنے لگتے ہیں مذہبی سیاستدان عبدالقدیر خاموش کہتے ہیں ”قوم زرداری اور نواز شریف دونوں سے مایوس ہو چکی ہے“ کسی کالم نگار نے لکھا ہے کہ صدر زرداری کی ہٹ دھرمی اور نواز شریف کی ضرورت سے زیادہ احتیاط نے کام خراب کیا ہے۔ مصالحت اور مصلحت ایک ہو چکی ہے۔ شاید اسی کو مائنس ٹو کہا جا رہا ہے ہم تو چاہتے ہیں کہ کچھ بھی مائنس نہ ہو کچھ پلس ہو مگر وہ ایمرجنسی پلس نہ ہو ایک خبر مخدوم گیلانی کی طرف سے یہ بھی ہے کہ مسلح افواج کے سربراہان کا تقرر عمل میں آ چکا ہے ابھی جنرل کیانی کا تقریباً ایک سال رہتا ہے تو اتنی جلدی کیا ہے اسے جلد بازی کہنا چاہئے وہ این آر او کے گارنٹر بھی ہیں۔

فوزیہ وہاب کہتی ہیں صدر اور آرمی چیف میں کوئی اختلاف نہیں۔ یہ بات صدر اور وزیراعظم کے لئے بھی سرکاری حلقوں کی طرف سے کہی جاتی ہے تو پھر معاملہ کیا ہے۔ باتیں کہاں سے نکلتی ہیں اور کہاں چلی جاتی ہیں۔ آرمی چیف سے شہباز شریف اور چودھری نثار کی ملاقات پر نواز شریف خفا ہوئے تھے، اب یہ کہا ہے کہ یہ معمول کی ملاقات تھی مگر یہ معمولی تو نہ تھی۔ آخر حالات ایسے کیوں بن جاتے ہیں کہ آرمی چیف سے ملنا خطرناک ہو جاتا ہے ہمارے ہاں تو کسی مخالف سیاستدان سے ملنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔

اعتزاز احسن کے حوالے سے میرے کالم پر بہت باتیں ہوئیں نامور ایڈووکیٹ اکرم شیخ اور دردمند نوجوان عبداللہ گل نے بات کی وہ جنرل حمید گل کے بیٹے ہیں کچھ ایسے فون تھے کہ میں ان کا نام نہیں لکھ سکتا۔ کہا گیا کہ تین مہینے امریکہ میں رہنے کے بعد اعتزاز سیدھے جنرل کیانی سے جا کے ملے اعتزاز جس پوسٹ کی پیشکش کے لئے نیندیں اڑا دینے کا ذکر کر رہے تھے وہ صدر مملکت کی پوسٹ ہے اور اس کے لئے آٹھ نومبر کی تاریخ بھی طے تھی، اس کے بعد تو صدر زرداری اور نواز شریف کی نیندیں اڑنا چاہئیں اتنا پتہ ہے کہ اعتزاز صدر زرداری سے بڑے متاثر ہیں اور ان کی طرح صدر بننا چاہتے ہیں یہ خبر زیادہ اہم ہے کہ اعتزاز کو پیپلز پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنایا جا رہا ہے۔ اس عہدے میں لفظ جنرل پر غور کریں اس سے برادرم جہانگیر بدر کی نیندیں اڑ جائیں گی مگر اڑ کر کہاں جائیں گی۔ انہوں نے ہی اعتزاز کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی رکنیت معطل کی تھی۔ کوٹ لکھپت میں قیدی زرداری کے پاس کھڑے ہو کر جہانگیر بدر نے کہا کہ میری پیشی عدالت میں تھی بے نظیر بھٹو سے بات ہوئی کہ دعا کرو اور صبح میری ضمانت ہو گئی۔ زرداری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یار بی بی سے میرے لئے بھی دعا کرا دو۔
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 19024 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.