ملک میں جاری حالیہ کشیدگی اور
بحران جو انتخابی دھاندلیوں اور سانحہ ماڈل ٹاؤ ن جیسے معاملات کے بروقت
برطریق احسن حل نہ کیے جانے کے بعد ایسی سٹیج پر پہنچ چکے تھے کہ اگر ثالث
کی خدمات حاصل نہ کی جاتیں تو قو م ایک اور کسی بڑے سانحے سے دو چار ہو
سکتی تھی ۔
پاک فوج جو دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اﷲ کے
فضل سے پاکستان کا اندونی و بیرونی ،نظریاتی اور سرحدی دفاع ناقابل تسخیر
ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری فوج کو اندورنی و بیرونی دونو ں طرح کے
خطرات کا سامنا ہے پاک فوج ہماری صفوں میں گھسے دہشت گردوں کے خلاف صف آراء
ہے اور ہمارے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے ایجنڈے کو ناکام بناکر انہیں
ناکوں چنے چبوا رہی ہے ایسے حالات میں ہمارے سیاستدانوں کا کردار شرمناک حد
تک کریکٹر لیس ہے یہ ملکی حالات کا ادراک کرنے کی بجائے اپنی اپنی سیا سی
دکان چمکائے ہوئے ہیں ۔انھیں چاہیے تھا کہ کٹ جاتے ۔مر جاتے ۔قربانی دیتے
مگر اپنے سیاسی معاملات کو آپس میں مل بیٹھ کر حل کرتے ۔مگر آرمی چیف سے
حالیہ معاملات میں ثالثی کی اپیل ہمارے ملک کے تمام سیاستدانوں کی اجتماعی
ناکامی ہے ۔اور انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ملکی معاملات کو حل کرنے کی
طاقت نہیں رکھتے ۔اگر ایسا ہوتا تو کب کا یہ بحران ختم ہوجاتا ۔اگر آرمی
چیف کے کہنے پر نواز شریف و شہباز شریف کو استعفا دینا پڑتا ہے تو اس میں
آرمی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔
نوازشریف سیاستدان تو ہیں مگر سیاسی بصیرت کی ابھی بھی ان میں کمی ہے ۔وہ
بار بار آرمی کی طرف دیکھ رہے تھے کہ آرمی مداخلت کرے اور وہ سیاسی یتیم بن
سکیں ۔اور 20 کروڑ عوام کو بتا سکیں کہ وہ ملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے مگر
آرمی نے ان کی حکومت کو لپیٹ دیا مگر موجودہ حالات میں آرمی کا کردار
نیوٹرل رہا۔نواز شریف کے بار بار آرمی سے ملاقاتوں میں بھی یہی پیغام دیا
جاتارہاکہ سیاسی معاملات کو سیاستدان آپس میں کچھ لے کچھ دے کے اصول کے تحت
حل کریں۔آرمی نہ تو لوگوں کے سامنے آئے گی اور نہ ہی ان پر گولی چلائے گی ۔آرمی
نے اپنے آپ کو بطور اہم قومی ادارہ موجودہ کیچڑی سے دور رکھا۔
بد قسمتی سے ہمارے سیاستدان جمہوریت کے دعویدار تو ہیں بشرط جمہوریت صرف
اپنے تک لاگو ہو تو ۔نوازشریف بادشاہ کو جمہوریت سے ذیادہ اپنی کرسی عزیز
ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کرسی چلی گئی تو انکی سیاست ختم ہو جائے گی ۔جمہوریت
میں کرسی سے ذیادہ اداروں کو مضبوط کیا جا تا ہے مگر ہمارے سیاستدان اداروں
سے ذیادہ شخصیات کو مضبوط کرنے کے درپے ہوتے ہیں ۔
ماڈل ٹاؤن کا سانحہ موجودہ حکمرانوں کے گلے کی ہڈی بنے گا جو ظلم اور
بربریت کا بازار نہتے لوگوں پر گرم کیا گیا اسکی لپیٹ میں بہت سے سیاستدان
آئیں گے نواز شریف اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اقتدار میں رہ کر تمام معاملات
پر قابو پالیں گے تو یہ انکی بھول ہے بھٹو کا مقدمہ انہیں نہیں بھولناچاہیے
۔
عمران خان اور طاہرالقادری کشتیاں جلا کر آئے ہیں اور وہ نواز شریف کے
استعفا کے بغیر جاتے دکھائی نہیں ۔کیونکہ اگر وہ اس کے بغیر جائے گے تو وہ
انکی سیاسی موت ہوگی۔دوسری طرف نواز شریف کو یہ ڈر ہے کہ اگر انہوں نے
اقتدار کسی کے حوالے کیا تو شاید انکی اقتدار پر گرفت کمزور پڑ جائے گی ۔اب
موجودہ صورت حال میں اگر آرمی چیف بطور ثالث نواز شریف سے کہتے ہیں کہ وہ
ملکی مفاد کی خاطر قربانی دیں تاکہ موجودہ حالات کو ڈی فیوز کیا جا سکے تو
نواز شریف کو استعفا دینا پڑے گا ۔اور اگر یہی استعفا وہ بہت پہلے دے دیتے
تو انکا سیاسی قد بڑ جاتا ۔اور سیاستدان بھی یہی سمجھتے کہ نواز شریف نے
انکی لاج رکھ لی اور مستفعی ہو گئے مگر آرمی چیف کے کہنے پر استفا بہت سے
سوال کھڑے کر دے گا ۔
عمران خان اور قادری کے لانگ مارچ کے مرکزی ڈرائیور شیخ رشید کا یہاں ذکر
نہ کیا جائے تو ذیادتی ہو گی شیخ رشید کو نہ جانے لانگ مارچ کے روز اول سے
اس بات کا قوی ادراک تھاکہ معاملات بالآخر آرمی کے ہاتھوں ہی انجام پائے گے
وہ دونوں انقلابی و آذادی رہنماؤں کو جوڑنے میں کامیاب رہے ہیں ۔گذشتہ روز
بھی شیخ رشید عمران خان کے کنٹینر پے کھڑے مسکرارہے تھے ۔شاید وہ جانتے تھے
کہ آگے کیا ہو نے جا رہا ہے مجھے شیخ رشید کی ـ"قربانی سے پہلے قربانی "
ہوتی دکھائی دیئے جا رہی ہے قربانی تو دینی پڑتی ہے چاہے وہ جان کی ہویامال
یا اقتدار کی ۔اگر قربانی نہ دی جائے تو پھر نخوست کے بادل بھی نہیں چھٹتے
۔آرمی چیف یقینا ملکی مفاد میں بہتر فیصلہ کرے گے جو اس ملک کی بقاء کے لیے
ضروی ہوگا ۔چونکہ ملک ہے تو ہم سب ہیں وگرنہ سب بیکار۔ |