کئی لوگوں کا ناچ گانے دیکھنے کو
دل چاہتا ہے مگر دوسروں سے شرم کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرپاتے۔ تحریک انصاف
نے ان لوگوں کی اس ’’مشکل‘‘ کو آسان کردیا ہے، اب وہ کسی جھجک کے بغیر 24
گھنٹے بلا ناغہ نیوز کی نیوز اور ناچ کا ناچ دیکھ سکتے ہیں۔ جلسے جلوسوں
میں پارٹی ترانے پڑھنا تو معمول کی بات ہے ،لیکن جلسوں کو باقاعدہ میوزیکل
شو میں بدلنے کا اعزاز صرف تحریک انصاف کو حاصل ہوا ہے۔ اسلام آباد میں روز
شام کو جو میلہ سجتا ہے اور اس میں جس طرح ’’جنون‘‘ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے،
سچ پوچھیں تو اسے کسی نے بھی پسند نہیں کیا ہے، کوئی اسے پسند کر بھی کیسے
سکتا ہے۔ بے باک خواتین کی یہ اچھل کود ہمارے مذہب، ہماری تہذیب اور روایات
کے منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے حامی بھی اس صورت حال پر دل
گرفتہ ہیں۔ لوگ تنقید کرتے ہیں تو جنونی ان کے گریبانوں کی طرف دوڑ پڑتے
ہیں۔ تحریک انصاف تنقید کرنے والوں پر گرجنے برسنے کی بجائے اگر خود سے اس
گندگی کو دور کردے تو یہ اس کے لیے کارثواب تو ہوگا ہی مزید سیاسی نقصان سے
بچنے کا بھی کچھ سامان ہوجائے گا۔
بلاشبہ سیاست میں ناچ گانے کو فروغ دینے میں تحریک انصاف نے تمام حدود
وقیود کو پیروں تلے روند ڈالا ہے، مگر اس معاملے پر ہم دیگر جماعتوں کو بھی
کلین چٹ نہیں دے سکتے۔ دیگر جماعتیں جو فحاشی پھیلانے کے جرم میں تحریک
انصاف پر چڑھ دوڑی ہیں، ان کا دامن بھی داغدار ہے۔ صرف مذہبی جماعتوں کو یہ
کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کے اجتماعات اس گند سے سو فیصد پاک ہوتے ہیں۔ باقی سب
جماعتیں چہرے پر کوئلہ ملتی رہی ہیں۔ ن لیگ اس معاملے پر بڑی پھرتی دکھا
رہی ہے۔ حمزہ شہباز لاہور میں ریلی سے خطاب کے دوران فحاشی پھیلانے پر پی
ٹی آئی پر خوب برسے۔ بہت اچھی بات ہے مگر میاں صاحبان یہ تو بتائیں وہ
پنجاب فیسٹیول کے نام پر جو گل کھلاتے ہیں ،کیا وہ فحاشی کے زمرے میں نہیں
آتا؟ اسکولوں اور کالجوں کی طالبات کو ریکارڈ بنوانے کے نام پر جس طرح
قذافی اسٹیڈیم میں نچوایا گیا، پنجاب کے ہر ضلع میں کھیلوں کے نام پر جو
تماشے لگائے گئے، یہ سب تحریک انصاف کے کرتوتوں سے کسی طور کم نہیں تھے۔
قارئین کو یاد ہوگا رمضان سے قبل عمران خان کا فیصل آباد میں جلسہ ہوا تھا،
جس میں حسب روایت کافی چمک تھی، ن لیگ نے اس کے توڑ کے لیے جلسہ گاہ کے
قریب ایک بدنام زمانہ رقاصہ کا ڈانس شو منعقد کرایا، اس کی باقاعدہ سرکاری
طور پر تشہیر کرائی گئی، گویا فحاشی کا مقابلہ فحاشی کے ذریعے کیا گیا۔
بلاول بھٹو نے بھی تحریک انصاف کے ناچ گانوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ
وہی شہزادے ہیں جو چند ماہ قبل سندھ کی ثقافت کے نام پر طوفان بدتمیزی برپا
کرچکے ہیں، انہوں نے موئن جودڑو میں رات بھر مردوں کے سامنے رقاصاؤں کو
نچوایا۔ کراچی کے ساحل پر ہونے والی ’’ثقافتی‘‘ تقریب کو بھی آپ نے اپنی ٹی
وی اسکرینوں پر دیکھا ہوگا۔ پیپلزپارٹی اور گانا بجانا تو ہمیشہ سے لازم
وملزوم رہا ہے۔ جس کثرت سے یہ جماعت ’’ثقافتی‘‘ شوز منعقد کرتی ہے، شاید ہی
کوئی اور جماعت اس معاملے میں اس کا مقابلہ کرسکے۔
چودھری برادران کے بارے میں سنا ہے کہ وہ بڑے شریف لوگ ہیں، مگر کیا کہیں
پچھلے دنوں ہم نے ق لیگ کی وہ تقریب دیکھی تھی، جس میں چودھری شجاعت کی
موجودگی میں ایک رقاصا فن کا مظاہرہ کررہی تھی۔ اگر ذرا ماضی میں جھانکیں
تو میراتھن کا قصہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ مشرف دور حکومت میں وزیراعلیٰ پنجاب
چودھری پرویزالٰہی نے باس کو خوش کرنے کے لیے لاہور میں مردوں اور خواتین
کی مشترکہ میراتھن نکالنے کا اعلان کیا تھا، اس کے خلاف مذہبی جماعتیں
میدان میں نکل آئی تھیں، بہت احتجاج ہوا مگر پرویزالٰہی نے اس احتجاج کی
پروا کیے بغیر پولیس پہرے میں مخلوط میراتھن نکلواکر باس کا دل باغ باغ
کردیا۔ اے این پی والے بھی بڑے حاجی نمازی بنے ہوئے ہیں، فحاشی پر بڑے غم
زدہ ہیں، روزانہ بیانات داغ رہے ہیں، حالانکہ ان کا کردار بھی قوم کے سامنے
ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح تحریک انصاف کا ناچ گانا غلط ہے، اسی طرح
دیگر جماعتوں کے ناچ گانے بھی غلط ہیں۔ پی ٹی آئی کے خلاف ضرور پرزور
احتجاج کرنا چاہیے، تاکہ اس پر عوامی دباؤ پڑے اور وہ کان پکڑنے پر مجبور
ہوجائے، مگر یہ احتجاج چکربازی والا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ ہم عمران
خان کے تو خوب لتے لیں مگر شریف برادران کے میلوں اور بلاول کے ثقافتی
پروگراموں پر آنکھیں موند لیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہمارے احتجاج کو
فحاشی وعریانی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے خلاف سمجھا جائے گا، اس رویے کی
وجہ سے فریق مخالف کبھی بھی اپنی اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف کے دھرنے سے یہ بڑا فائدہ ہوا ہے کہ سیاست کو فحاشی سے پاک
کرنے کی باتیں ہونے لگی ہیں، اس آواز کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، اگر
یہ مہم کی صورت اختیار کرجائے تو سیاست دان عوامی دباؤ میں آکر اپنے رویوں
میں ضرور تبدیلی لانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اس سلسلے میں مذہبی جماعتوں کے
قائدین، علماء کرام، دینی رجحان رکھنے والے اخبارات وجرائد اور قلم کاروں
کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے، وہ چاہیں تو قوم کو متحرک کرسکتے ہیں، اچھا
موقع ہے، اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ |