بادشاہ کون؟ یہ ہے وہ سوال جو اکثر کہانی سناتے ہوئے بچے
پوچھتے ہیں کیونکہ وہ فرضی کہانی ہوتی ہے اس لیے کچھ بھی نام لیکر بچے کو
مطمئن کردیا جاتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ بادشاہ تو صرف ایک ہے جس
نے اس کائنات کو تخلیق کیا ۔اس کائنات کا سارانظابنایا ۔جو دن کو رات میں
اور رات کو دن میں ڈھالتا ہے۔ بادشاہ وہی ہے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت
ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں ہر کوئی بادشاہ بنا ہواہے۔ بہت سے لوگوں نے تواپنا نام
بھی بادشاہ رکھا ہوا ہے۔ موجودہ سیاسی بحران میں ہمیں ہرروز بادشاہ کا لفظ
سننا پڑتا ہے۔اب تو ایک دوسرے کو طنزیہ طو رپربھی بادشاہ کہا جارہا ہے۔میں
کسی پر ذاتی تنقید کا حق نہیں رکھتا لیکن میڈیا کے ذریعے ملنے والی خبروں
پر تبصرہ کرنا میرا حق ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان نے جب سے دھرنا دیا اس دن سے بار بار
نوازشریف کو بادشاہ سلامت بننے کے طعنے دے رہے ہیں۔ ان کے بقول میاں صاحب
کا یہ دورجمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت کادورہے۔انہوں نے ہر چیز پر قبضہ کیا
ہوا۔پورا ملک ایک شخص کے تابع ہے۔ وہ ایسے لوگوں سے ملک آزاد کرواکر نیا
پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ خان صاحب جمہوریت کے یا حکومت کے خلاف دھرنا نہیں
دے رہے بلکہ وہ تو بادشاہت سے آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔بقول سونامی
خان کہ نوازشریف اور اس کی فیملی نے پاکستان کو یرغمال بنا یا ہوا ہے۔
اگر یہ سب بات مان بھی لی جائیں کہ میاں صاحب کی جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت
قائم ہے مگر یہ تو خان صاحب بتائیں کہ وہ جس انداز میں دھرنے میں خطا ب
کررہے ہیں وہ کون سا جمہوری طریقہ ہے؟ انہوں نے کھلم کھلا سول نافرمانی کا
حکم بھی صاد ر فرمادیا۔ عوام کو حکم دے دیا کہ بجلی کے بل ادا نہ کیے جائیں
بلکہ ان کو جلا دیا جائے۔ بیرون ممالک کے لوگ ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجیں۔
پاکستانی بنکو ں سے اپنے پیسے نکلوالیے جائیں۔ پولیس والوں کو دھمکی دی
جارہی ہیں۔ اس طرح حکم کون دیتا ہے اس کا فیصلہ مجھ سے زیادہ قارئین جانتے
ہیں۔ جس انداز میں عمران خان خطاب کررہے ہیں وہ الفاظ کسی لیڈر کو زیب نہیں
دیتے۔
خان صاحب اپنی جماعت کو جمہوری جماعت کہتے ہیں اوردوسری جماعتوں کے لیے ان
کا خیال ہے کہ اس میں قبضہ گروپ ہیں۔ بقول ان کے کسی جماعت میں الیکشن نہیں
ہوئے مگر پی ٹی آئی نے اپنی جماعت میں الیکشن کرائے۔ حالانکہ جتنے شفاف اور
مسلسل انتخابات جماعت اسلامی کے ہوتے ہیں کسی اور کے نہیں ۔ پی ٹی آئی میں
تمام فیصلے جمہوری انداز میں ہوتے ہیں مگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دھرنے
کے دوران جوکچھ ہوا کیا وہ بھی جمہوری طریقہ کار تھا؟
جمہوری پارٹیوں میں اختلاف رائے رکھنا ہر ایک کا حق ہوتا ہے اور اگر کوئی
پارٹی سربراہ اپنی پارٹی کے ممبرز کو اختلاف کی بنا پر پارٹی سے نکال دے تو
اس جماعت میں جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت ہوتی ہے۔ حال ہی میں خان صاحب نے
جاوید ہاشمی (جو تحریک انصاف کے صدر ہیں) ان کو اپنی پارٹی سے فارغ
کردیاکیونکہ انہوں نے خان صاحب سے اختلاف کیا تھا۔ جاوید ہاشمی نے کوئی
پہلی بار اختلاف نہیں کیا تھا ۔ آپ کو یاد ہوگا جب عمران خان نے ٹیکنوکریٹ
حکومت بنانے کا کہا تھا تو اس وقت بھی ہاشمی صاحب اختلا ف کرکے ملتان چلے
گئے تھے تب بھی پی ٹی آئی کا وفد خان صاحب کی رضامندی سے ان کو منانے ملتا
ن گیا تھا۔ اگر اس بار پی ایم ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے پر اختلاف کیا تو
خان صاحب نے بجائے ہاشمی صاحب کو مطمئن کرنے کے ان کو بول دیا کہ میری
مجبوری ہے ۔ تم نے جانا ہے تو چلے جاؤ‘‘۔
خان صاحب کی مجبوری والی دال کالی ہے یا نہیں یہ تو وہ جانتے ہیں مگر جس
طریقہ سے انہوں نے ہاشمی کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا تو ایسا کام ایک
بادشاہ ہی کرسکتا ہے کیونکہ جمہوری پارٹیوں میں پارٹی صدر کو فارغ کرنے کے
لیے اجلاس بلاکرکاروائی کی جاتی ہے جلسوں میں اعلان نہیں۔ |