ہم پاکستانی یوم آزادی 14 اگست
کو، یوم دفاع 6 ستمبر کو اور قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم وفات 11 ستمبر
کو مناتے ہیں۔ یہ تینوں دن ہمارئے قومی تاریخی دن ہیں۔ 14 اگست 2013ء تک ہم
اس دن کو یوم آزادی کے طور پر مناتے رہے ہیں لیکن اس سال ہم نے اس دن کو
یوم مارچ کے طور پر منایا ہے، 14 اگست کو لاہور سے آزادی یا تبدیلی مارچ
اور انقلابی مارچ نکالے گے جو اسلام آباد پہنچ کر دھرنوں کی شکل اختیار
کرگے، مارچوں کی وجہ سے پاکستان میں یوم آزادی نہیں منایا گیا، سرکاری طور
پر بھی اس دن کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اُسکو ملتی رہی ہے۔ 6 ستمبر کو ہم
یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ 6 ستمبر 1965ء کو بھارت نے پاکستان پر
حملہ کیا تھا، سترہ روزہ جنگ میں ہم جیت گے تھے لیکن تاشقند جاکر ہم
مذاکرات کی میز پر سب کچھ ہار گئے، اُسکے بعد سے ہم اس دن کو یوم دفاع کے
طور پر مناتے ہیں، کافی عرصے تک 6 ستمبر کو سرکاری چھٹی بھی ہوا کرتی تھی
مگر شاید کسی نے ارباب اختیار کو 16 دسمبر 1971ء کا آئینہ دکھایا تو 6
ستمبر کی چھٹی ختم کردی گی۔ گذشتہ سال تک اس دن کو یاد کرکے ملک کے دفاع کی
قسمیں کھائی جاتی تھیں لیکن اس سال 6 ستمبر کی صبح نیوی ڈاکیارڈ کراچی پر
دہشت گردوں نے حملہ کیا، دہشت گردوں کا اصل نشانہ حساس تنصیبات تھیں،
بدقسمتی سے دہشت گردوں نے نیوی کے دو اہلکاروں کے ساتھ مل کر میزائلوں سے
لیس جنگی جہاز تک پہنچے کی کوشش کی، یعنی گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
۔ نیوی کے سکیورٹی سٹاف نے جوابی فائرنگ کی اور دو دہشت گردوں کو گرفتار
بھی کیا ہے، واقعہ کے بعد نیوی کے اہلکاروں کی سکروٹنی شروع ہو گئی۔
گیارہ ستمبر 1948ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اس دنیا سے
رخصت ہوئے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی سرکاری طور پر تقریبات کی گیں، لیکن
سوال یہ ہے کہ کیا یہ و ہی پاکستان ہے جس کو حاصل کرنے کےلیے بابائے قوم
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے رات دن انتھک محنت کی۔ حقیقت یہ
ہے کہ آج کے پاکستان سے قائد اعظم محمد علی جناح کا کوئی لینا دینا نہیں۔
قائد اعظم کی خدمات اور صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں پر یہ کہنا کے آج کا
پاکستان اُن کا تصور تھا سو فیصدغلط ہے۔ سڑسٹھ سال پہلے لوگوں نے سوچا بھی
نہ ہو گا کہ آج کا پاکستان کتنا مختلف ہوگا۔مثال کے طور پر قائد اعظم نے
کراچی کو دارلخلافہ منتخب کیا تھا لیکن اُسے بغیر کسی عوامی رضا مندی کے
اور بغیر کسی خاص وجہ کے خالص لسانی اور صوبائی تعصب کی بنیاد پر تبدیل کیا
گیا۔اسی طرح جو پاکستان قائد اعظم لینے میں کامیاب ہوئے تھے اس میں سے
آدھا1971ء میں چلا گیا، اس کی وجہ بھی لسانی اور معاشی جھگڑئے تھے اور
آزادی حاصل کرنے والا ملک بھی مسلمانوں کا ہی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں
کی پاکستان بناتے وقت صرف یہی سوچ تھی کے انگریزوں اور ہندوں سے آزادی حاصل
کر نے کے بعد سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ لیکن زمینی حقائق یہ تھے کہ
پاکستان بنتے وقت صوبائی اور لسانی تفریق بہت واضح تھی جو بڑھتی گئی۔ دنیا
بہت تیزی سے تبدیل ہو گئی ہے،آج کے پاکستان کو قائد اعظم سے جوڑنا ایسے ہی
ہے جیسے آج کے کراچی کو کل کےپارسیوں،انگریزوں اور چھوٹے سے صاف ستھرے شہر
کراچی کے ساتھ جوڑنا یا پھر مغلوں کے شہر لاہور کو آج کے لاہور سے ملانا۔
آپ ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح سو سال پہلے کا برطانیہ آج والا نہیں
ہے، ٹھیک اسی طرح سڑسٹھ سال پہلے والا پاکستان آج والا نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قائد اعظم نے ملک دیا پر قوم نہیں دی، اور قوم بنانے کےلیے
اُنکی زندگی نے وفا نہیں کی، آج کے پاکستان میں وطن اور ملک کی تشریح کیا
ہے اور پاکستان جو ایک ملک ہے لیکن کیا یہ ایک قوم ہے کوئی بھی بتانے سے
قاصر ہے۔ اگر پاکستانی قوم کی بنیاد مذہب یعنی اسلام ہے تو پوری دنیا میں
بسنے والے مسلمان پاکستانی ہونگے اور پاکستان کے دروازے خصوصی طور پر
ہندوستان اور بنگلادیش کے مسلمانوں کے لیے کھلے ہونے چاہیں کیوں کہ پاکستان
برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بنا تھا۔ اگر ملک زبان کی بنیاد پر ہونا چا ہیے
تو ہمارا ملک کئی زبانوں میں بٹاہوا ہے بلکہ ایک زبان بولنے والے لوگ دو
حصوں میں بٹے ہوئے ہیں مثلا پنجابی اور سندھی انڈیا اور پاکستان میں بٹے
ہوئے ہیں، بلوچ ایران، پاکستان اور اومان میں بٹے ہوئے ہیں، پختون
افغانستان اور پاکستان میں بٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کو ایک زبان کی
چھتری میں لینے کی اچھی کوشش کی گئی اور اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا
جو یقینا ایک رابطے کی اور پاکستانی قومی زبان بنی پر اس پوری اور مخلصانہ
کوششوں کے باوجود آج بھی پاکستان میں لسانی بنیادوں پر تفریق میں ایک
فیصدبھی کمی نہیں ہوئی، سڑسٹھ سال بعد بھی سندھی آج بھی سندھی ہے، پنجابی
بھی پنجابی ہی ہے اور اردو سپیکنگ وہی کہلاتا ہے جس کی زبان پاکستان بنے سے
پہلے اردو ہی تھی۔
آج پاکستان کا نام دینا میں دہشت گردی اور کرپشن کے حوالے سے پہچانا جاتا
ہے۔ سڑسٹھ سالوں کی سیاست میں اسلام کو بےدریغ طریقے سے استمال کیا گیا،
مثلا 1970ء کے انتخابات میں کہا گیا کہ اسلام خطرئے میں اور 1977ء میں
انتخابات میں ہوئی دھاندلی کی تحریک کو نظام مصطفی تحریک میں بدل دیا گیا
جسکے نتیجے میں گیارہ سال تک جنرل ضیاالحق اسلام کے نام پر حکمراں بنا
بیٹھا رہا، آج پاکستان میں جسقدر دہشت گردی ہورہی ہے، اُسکا ذمیدار ضیا
الحق ہے، اسی کے نتیجے میں ہم آج خودکش دھماکوں اور دہشتگردی کا شکار
ہیں۔اور یہ ہی وجہ ہے کہ سوات کے دہشت گرد مولویوں فضل الله اور صوفی محمد
کے لائے ہوئے اسلامی نظام اور شریعت پرساری مذہبی جماعتیں متفق ہوگیں تھیں۔
بہت زیادہ افسوس جب ہوا جب گذشتہ سال جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن
نے امریکی ڈرون حملے میں مارئے گے ہزاروں انسانوں کے قاتل اور دہشت گرد
طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی موت پر اُسکو شہید کہااور مولانا فضل
الرحمان نے تو امریکی ڈرون حملے میں مارئے گے کتے کو بھی شہید کا درجہ دئے
ڈالا۔
دہشت گردی کے بعد پاکستان کو جو سب سے زیادہ نقصان ہورہا ہے اُسکی وجہ
کرپشن ہے۔ پاکستانی سیاستدان، سیاست کاروبار کے طورپرکرتے ہیں اورکروڑوں
لگاکراربوں کماتے ہیں، یقینا اس پاکستان کا قائداعظم سے تعلق جوڑنا اُنکے
ساتھ زیادتی ہوگی۔صورتحال یہ ہے کہ ہمارے کرپٹ سیاستدان جو عوام کے بنیادی
حقوق روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ غربت کا خاتمہ، لوڈ شیڈنگ، پانی اور صحت
جیسے عوامی مسائل پر روتے رہتے ہیں عملی طور پر کرپشن اور لوٹ مارسے اثاثے
بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔اگر ایسا کہا جائے کہ ہم بحثیت قوم کرپٹ ہو چکے
ہیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ ہمارا ہر ادارہ اور لوگ کرپٹ ہو چکے ہیں۔ ریلوے،
پی آئی ائے، اسٹیل مل، واپڈا ، پولیس، عدلیہ، پٹواری ،تحصیل دار وغیرہ سب
کے سب کرپٹ ہیں اور رشوت دیئے بغیر جائز کام بھی نہیں ہو سکتے۔ پاکستان میں
ہروہ شخص لوٹ مار کررہا ہےجس کو موقع مل رہا ہے۔جیلیں مجرموں کی پناہ گاہیں
بن چکی ہیں، تھانوں میں پولیس اور عدالتوں میں انصاف بکتا ہے۔ہم ایک دوسرئے
کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں کھانے پینے کی اشیا کی ذخیرہ اندوزی کرتے
ہیں اور ناجائز منافع خوری کر تے ہیں۔ اگر پاکستان کا یہ ہی حال رہا تو
یقینا یہ ہماری آیندہ نسلوں کی بربادی ہوگی۔قائد اعظم محمد علی جناح کی
برسی کے موقعے پر ہمیں لازمی یہ سوچنا چاہیے کہ مستقبل کا پاکستان ہم کیسا
بنائیں جس میں ہماری مذہبی، اخلاقی اقدار بھی ہوں اور انسانی اور سماجی
حقوق بھی حاصل ہوں، جس کےلیے محمد علی جناح نے انتھک جہدوجہد کی تھی۔ برحال
یہ حقیقت ہے کہ "موجودہ پاکستان جناح نے نہیں بنایا "۔
|