چوہدری صاحب میں پہلے بھی لکھ
چکا ہوں کہ میں آپکا مکمل کالم نہیں پڑھتا بلکہ عنوان دیکھ کر سمجھ جاتا
ہوں کہ آپ نے کیا لکھا ہوگا ؟ کیونکہ ہر شخص کو قدرت نے خاص ذہنیت سے نوازا
ہے اور آپکی ذہنی پرواز کی بھی ایک حد ہے۔ ہم ایک جذباتی قوم ہیں جسے دانش
کی ہوا نہ لگی ہو اسے دانشور سمجھ بیٹھتے ہیں، جسے سوال کرنے کا ڈھنگ نہ
آتا ہو اسے اینکر بنا دیتے ہیں ۔ الغرض تمام شعبہ جات کا یہی حال ہے کہ
نااہل لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہیں ۔ اب آپ اپنے آپ کو دیکھ لیں ایک قصہ گو سے
زیادہ آپکی قابلیت نہیں مگر آپ سنئیر تجزیہ کار، کالم نگار اور اینکر بن
گئے۔ یہی ہماری تنزلی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے کہ وزیرآعظم سے لیکر
چپڑاسی تک سب نااہل لوگ ہیں ۔ آج جاوید چوہدری صاحب آپکے کالم کا عنوان
دیکھا جو کہ مولانا کے لئیے تھا۔ عنوان دیکھ کر سابقہ روش پر چلتے ہوئے
مجھے خیال آیا کہ آپ نے مولانا فضل الرحمان صاحب کی جمہوری کاوشوں کو سلام
عقیدت پیش کیا ہوگا اور انکی جمہوریت کے لئیے جدوجہد اور قربانیوں کو خراج
تحسین پیش کیا ہوگا۔ اچانک میرے مغز میں سرسراہٹ ہوئی اور ذہن کے کسی کونے
سے یہ خیال ابھرا کہ آپ نے یہ کالم مولانا طاہر اشرفی صاحب کی خدمات کے
اعتراف میں لکھا ہوگا ؟ کیونکہ اشرفی صاحب بھی آپکے چینل پر وسیع تر قومی
مفاد کے تحت جمہوریت کی ترویج کے لئیے انتھک محنت فرما رہے ہیں۔ اب میں شش
وپنج کا شکار ہوگیا کہ آپ نے کس کے بارے میں لکھا ہوگا، آپ سے مؤدبانہ
درخواست ہے کہ مبہم قسم کے عنوان نہ رکھا کریں کیونکہ اسکی وجہ سے مجھے
پورا کالم پڑھنا پڑتا ہے۔ جب مولانا کے لئیے کے عنوان کے تحت آپکا کالم
پڑھا تو مجھ پر عیاں ہوا کہ آپ نے میسنے انداز میں ڈاکٹر طاہر القادری کو
لتاڑا ہے اور جمہوریت کے حق میں وہی گھسے پٹے جملے لکھے۔ آپ نے فرمایا کہ
پاکستان ایک جمہوری عمل کے ذریعے معرض وجود میں آیا تھا ، بجا فرمایا آپ نے
مگر جناب وہ جمہوری عمل اگر نواز ، زرداری ، ڈیزل اور اچکزئی لمیٹڈ ہوتا تو
خدا کی قسم پاکستان کبھی نہ بنتا کیونکہ یہ جگاڑی کوئی نہ کوئی جگاڑ لگا کر
اکھنڈ بھارت کے نظریے کو جتوا دیتے کیونکہ ان جگاڑیوں نے اپنے مفادات کا
نام جمہوریت رکھا ہے۔ جاوید چوہدری صاحب آپ نے ایک اور بچگانہ بات لکھ دی
کہ پاکستانی لوگ جمہوریت پسند ہیں، آپ سے پہلے تو جمہوریت کی تعریف پوچھنا
چاہوں گا دوسرا یہ کہ اگر پاکستانی جمہوریت پسند ہیں تو ہر مارشلاء کی آمد
پر مٹھائیاں کیوں بانٹتے تھے؟ اگر یقین نہ آئے تو آج بھی مارشلاء لگوا کر
دیکھ لیں مٹھائیوں کی دکانیں خالی نہ ہوجائیں تو پھر کہنا۔ آپکے ان جمہوری
جگاڑیوں نے عوام کو روٹی روزی ، بتی آگئی بتی چلی گئی کے اس کوہلو میں جوت
دیا ہے کہ وہ اسی مدار و دائرے میں گھوم کے رہ گئے ہیں، نہ اب انھیں
جمہوریت سے غرض ہے نہ آمریت سے سروکار ہے انھیں غرض ہے تو صرف اپنے حقوق و
ضروریات سےغرض ہے۔ ویسے میرے مشاہدے کے مطابق آمریت کے ادوار میں عوام کی
حالت قدرے بہتر تھی ، آپ نے ہی کہیں لکھا تھا کہ اگر پاکستان کی تاریخ سے
ایوب خان کا دور نکال دیں تو پاکستان کے پلے رہتا ہی کچھ نہیں۔ زیر بحث
کالم میں طاہرالقادری سے آپ نے کہا ہے کہ وہ پہلے کسی ایک خطہ میں طیب
اردگان جیسی پرفامنس دکھائیں پھر انقلاب کی بات کریں، کاش یہ مطالبہ آپ نے
اسمبلی میں بیٹھے جمہوریت کے ٹھیکداروں سے کیا ہوتا جو اپنے مفادات کے لئیے
تو اکٹھے ہوجاتے ہیں مگر کالا باغ ڈیم پر متحد نہیں ہوتے۔ دہائیوں سے شریف
پنچاب اور زرداری سندھ کے مطلق العنان حکمرآن ہیں انکی کیا کارکردگی ہے ؟
جب کارکردگی پوچھیں تو وہی رٹا رٹایا جواب کہ ابھی جمہوریت کی عمر ہی کتنی
ہے؟ ابھی یہ جمہوریت نابالغ تھی تو ملک تباہ ہوگیا سوچیں اگر یہ جمہوریت
جوان ہوجاتی تو کیا ہوتا لازمی طور پر یہ مداری اس ملک کی اینٹیں تک بیچ
کھاتے۔ الله کرے یہ جمہوریت نابالغ ہی مر جائے کیونکہ اس جمہوریت کو سو سال
بھی مل جائے تو نتیجہ صفر ہوگا، کیونکہ نہ یہ جمہوریت ہے نہ یہ مداری
جمہوری ، ہر ڈاکو نے اپنے مفاد کا نام جمہوریت رکھا ہے۔
جاوید چوہدری صاحب مبارک ہو لوگ سیلاب میں بہہ کرمرگئے کیونکہ غریب تھے ،
اور آپکی جمہوریت آج بچ گئی کیونکہ یہ امیروں کی لونڈی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ |