حیات خطیب البراہین علیہ الرحمہ

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوالصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدَّاْ۔

ترجمہ : بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیاا للہ پاک مخلوق کے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرمادیتا ہے۔

اللہ رب العزت کے اس فرمان پر ہمارا ایمان و ایقان تھا، ہے اور رہے گا، لیکن اگر کوئی اپنے سرکی آنکھوں سے اس کی عمل تصویر دیکھ لے، تو پھر اس کے ایمان و ایقان کی فریادتی کا عالم کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ بندگان خدا کو اس وقت ہوا جب آفتاب شریعت، ماہتاب طریقت، مرد حق آگاہ، تاج دار ملت، فخر اہل سنت، علم ظاہر کے اتھاہ سمندر، علم باطن کے کوہ گراں ، کشور علم و عرفان کے شہنشاہ اور اقلیم حکمت و دانش کے کج کلاہ، سرتاپا جود و سخا، پیکر شرم و حیا، ناز خانقاہ مارہرہ مطہرہ، فخر علماء و الیائ، عاشق غوث و خواجہ و رضا، مقبول بارگاہ خدا و مصطفی (جل شانہ وصلی اللہ علیہ وسلم) حضرت علامہ مولانا الحاج مفتی محدث الشاہ صوفی محمد نظام الدین علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ میں شامل ہونے کے لئے مومنین کا ایک سیلاب نظر آیا۔ اس سے قبل ہم نے لوگوں کے ’’ٹھاٹھیں مارتے سمندر‘‘ کا محاورہ تو سنا تھا مگر یہاں روئے زمین پر اس کا حقیقی وجود دیکھنے کا شرف بھی حاصل ہوگیا، بے ساختہ مذکورہ آیت زبان پر جاری ہوگئی، اور دل پکار اُٹھا، جب اللہ بلائے تو کون نہ آئے۔ جب دلوں میں رب العالمین ہی محبت ڈال دے تو پھر کسی اشتہار کی ضرورت کیا، سچ کہا ہے ؎
صداقت ہوتو دل سینے سے کھینچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منواتی ہے منوائی نہیں جاتی

اسی لئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے کہ جب اللہ رب العزت اپنے کسی بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام سے فرماتا ہے فلاں میرا محبوب بندہ ہے، جبرئیل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر حضرت جبرئیل آسمانوں میں نداکرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں کو محبوب رکھتا ہے، سب اس کو محبوب رکھیں تو آسمان والے اس کو محبوب رکھتے ہیں، پھر زمین میں اس کی مقبولیت عام ہوجاتی ہے۔

ولادت : تپہ اجیار کے مشہور و معروف گائوں اگیا پوسٹ دودھارا ضلع سنت کبیر نگر یوپی کی سرزمین ۲۱؍رجب المرجب ۱۳۴۶؁ھ مطابق ۱۵؍جنوری ۱۹۲۸؁ء کو آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ والدین نے آپ کا نام محمد نظام الدین رکھا۔(علیہ الرحمہ)

وفات : یکم جمادی الاخری ۱۴۳۴؁ھ مطابق ۱۴؍مارچ ۲۰۱۳؁ء بروز جمعرات صبح آٹھ بجے آپ علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔(ان للہ وانا الیہ راجعون) ۱۵؍مارچ ۲۰۱۳؁ء بعد نماز جمعہ آپ کی نماز جنازہ آپ کے حقیقی جانشیں اور محترم صاحبزادے حضرت العلام الحاج الشاہ محمد حبیب الرحمٰن جب مدظلہ العالی نے پڑھائی۔ جنازے میں ملک و بیرون ملک کے لاکھوں افراد نے شرکت کی۔

خاندانی پس منظر : آپ کی ولادت باسعادت ایک زراعت پیشہ مگر دیندار گھرانے میں ہوئی، آپ اپنے والدین کی پہلی اولاد نرینہ تھے اس لئے آپ کی پیدائش کے حسین موقع پر اہل خانہ اور قرابت داروں کو کافی مسرت ہوئی۔ پھر انتہائی شفقت و محبت کے ماحول میں آپ کی پرورش ہوتی رہی۔ آپ نے جب ذرا ہوش سنبھالا تو اپنے ارد گرد خالص اسلامی اور دینی ماحول پایا۔

والد محترم : آپ کے والد محترم جناب نصیب اللہ مرحوم ایک دیندار اور پرہیزگار شخص تھے، اپنے گائوں اس وقت سب سے زیادہ جانکار تھے، گائوں کے لوگ اپنے بچوں کا نام آپ ہی سے رکھواتے تھے۔ انھوں نے اپنے وقت کے مروجہ نصاب پرائمری کے مطابق اپنی جماعت میں ممتاز پوزیشن حاصل کی تھی۔ جس کے اعزاز میں برٹش گورنمنٹ نے آپ کے لئے ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا تھا۔ ۱۹۵۳؁ء بروز جمعۃ المبارکہ آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور گائوں کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔

والدہ محترمہ: آپ علیہ الرحمہ کی والدہ محترمہ مرحومہ رعیونہ خاتون انتہائی پاکیزہ صفت کے مالکہ اور عابدہ و زاہدہ تھیں۔ فرائض و واجبات کے ساتھ نوافل و مستحبات کی بھی پابندی کرتی تھیں، پوری پابندی سے نماز تہجد اور دلائل الخیرات شریف پڑھتی تھیں۔ تلاوت کلام اللہ ان کی روحانی غذا تھی، آپ کی ریاضت کا ذکر کوتے ہوئے حضرت علامہ حبیب الرحمٰن صاحب مدظلہ العالی بیان فرماتے ہیں کہ ہماری دادی محترمہ نماز تہجد کے بعد روزانہ سات یا آٹھ پارہ قرآن کریم کی تلاوت اور دلائل الخیرات اور دیگر روداد و وظائف سے فارغ ہونے کے بعد ہی صبح کا ناشتہ تیار کرتیں۔ بحمدہٖ تعالیٰ دادی محترمہ تلاوت قرآن کریم کی ایسی عادی تھیں کہ ماہ ذی قعدہ ۱۴۱۰ھ؁ مطابق ماہ جون ۱۹۹۰؁ء میں جب والدمحترم (حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ) نے اپنے ضعیفہ والدہ ماجدہ کو لے کر زیارت حرمین شریفین کا ارادہ فرمایا تو دادی محترمہ کی کہہ سنی کے پیش نظر خدمت کے لئے مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ ابھی ہم لوگ مکہ معظمہ میں قیام گاہ پر پہونچے ہی تھے کہ دادی محترمہ نے تلاوت کے لئے قرآن کریم طلب کیا، چونکہ قرآن کریم ہمراہ نہیں لے جاسکے تھے اس لئے والا بزرگوار نے مجھے حکم دیا کہ جائو مکہ مکرمہ کے کسی کتب خانے سے قرآن پاک لائو۔ میں بازار مکہ میں گیا اور قرآن پاک لیا، اور محترمہ دادی کو جوں ہی پیش کیا وہ خو ش ہوگئیں اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے فوراً تلاوت قرآن کریم میں مشغورل ہوگئیں۔

مکہ مکرمہ میں ایک بار دادی محترمہ کی طبیعت خراب ہوگئی تو بعد نماز تہجد قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ہوئیں۔ ہم لوگ ناشتے کے لئے اصرار کرتے رہے، مگر تلاوت کرنا موقوف نہ کیا، بار بار کہنے سے بہ مشکل تمام تھوڑا توقف کیا۔ بعد ناشتہ پھر تلاوت میں مشغول ہوگئیں،زوال کے وقت تھوڑا توقف کیا، نماز ظہر کے بعد عصر تک تلاوت جاری رکھا۔ بعد نماز مغرب پھر تلاوت کرنے بیٹھ گئیں۔ یہ منظر وارفتگی دیکھ کر ہم لوگ محو حیرت تھے کہ انسان کی طبیعت جب خراب ہوتی ہے تو آرام کرتا ہے اور محترمہ دادی کی خراب طبیعت کو تلاوت کلام ربانی سے آرام مل رہا ہے۔ سبحان اللہ۔

کہتے ہیں کہ بچوں پر سب سے پہلا اثر والدین کا پڑتا ہے اور پڑنا بھی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ بچپن سے ہی تبع شریف ہوگئے اور آخری سانس تک اسی پر قائم و دائم رہے۔
اولاد : اللہ رب العزت نے آپ کو دو اولاد عطافرمائی ۔(۱) حضرت علامہ الحاج محمد حبیب الرحمٰن صاحب مدظلہ العالی شیخ الحدیث دارالعلوم تدریس الاسلام بسڈیلہ وسربراہ اعلیٰ جامعہ برکاتیہ حضرت صوفی محمد نظام الدین لہرولی بازار بستی۔ (۲) محترمہ شریف انساء صاحبہ۔

تعلیم سفر : مقامی مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنی تعلیمی سفر کا آغاز دارالعلوم تدریس الاسلام بسڈیلہ بستی سے فرمایا۔ ۱۹۴۷؁ء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدرسہ اسلامیہ اندکوٹ میرٹھ کا رُخ کیا، وہاں پر ایک سال رہ کر اپنے روحانی مربی حضرت علامہ حاجی مبین الدین محدث امرو ہوئی اور امام النحو حضرت علامہ غلام جیلانی میرٹھی علیھا الرحمہ سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ ۱۹۴۸؁ء میں ہندوستان کی عظیم سنی دانشگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیا اور اساتذہ اشرفیہ بالخصوص حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی بارگاہ فیض سے علم کی لازوال نعمتوں سے مالا مال ہوتے رہے اور ۱۹۵۲؁ء میں حضور حافظ و ملت علیہ الرحمہ و حضرت سید محمد صاحب کچھوچھوی علیہ الرحمہ و دیگر اکابر علماء کے ہاتھوں آپ کو الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور کی سندودستار فضیلت عطا کی گئی۔
صوفی صاحب کا لقب : چونکہ آپ کی پرورش ایک اسلامی ماحول میں ہوئی تھی۔ اور آپ فطرتاً بھی اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ثابت ہوئے تھے، اس لئے آپ کو بچپن ہی سے لہوولعب، کھیل کود، ہنسی مذاق اور پھر دیگر خرافات طفلی سے شدید نفرت تھی اور طالب علم کی لگن کے ساتھ ساتھ ذوق عبادت اور تقویٰ وپرہیزگاری کے اوصاف جمیلہ کی طرف آپ کا میلان اس قدر شدید تھا کہ اس سے سراموانحراف بھی آپ کو گوارہ تھا۔

حضرت مولانا احمد علی صاحب مبارکپوری علیہ الرحمہ جوالجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں دارالاقامہ کے نگراں تھے، کا بیان ہے کہ ’’میں جب فجر کی نماز کے لئے طلبہ کو بیدار کرنے جاتا تو مولانا نظام الدین (علیہ الرحمہ) کو ہمیشہ وضو کرتے یا وضو سے فارغ پاتا۔

آپ کی اتباع شریعت کا یہ جذبہ دیکھ کر آپ کے ہم سبق ساتھ اور علماء اساتذہ آپ کو صوفی کے لقب سے پکارنے لگے۔(اور آہستہ آہستہ یہ لقب اتنا مشہور ہوگیا کہ آپ کے نام کا جزء لایننک بن گیا۔)

جس وقت آپ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں زیر تعلیم تھے اس وقت آپ نے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں یہ عریفہ پیش کیا کہ حضور میرے ساتھ مجھے صوفی کہتے ہیں جبکہ میں اپنے کو اس کا مصداق نہیں سمجھتا۔ آپ ان لوگوں کو سمجھا دیں کہ اس طرح نہ کہیں، حافظ ملت علیہ الرحمہ نے آپ کو بغور دیکھا اور پرزور انداز میں ارشاد فرمایا :
’’جی ہاں ہم بھی آپ کو صوفی صاحب کہتے ہیں اور آپ ہیں اس لئے تو کہتے ہیں۔‘‘
(ماہنامہ اشرفیہ/محمد بستوی سنت ہوں کے آئینے میں، مئی ۲۰۱۳ء ،ص ۶)
سچ ہے :
وی راولی می شناشد

علم تفسیر کے تاجدار شیخ القرآن حضرت علامہ عبداللہ خاں عزیزی ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مولانا نظام صاحب کی رفاقت و مصاحیت کا مجھ کو کچھ دنوں تک شرف حاصل رہا وہ خاموش طبیعت کے انسان ہیں اور کاروبار دنیا اور اس کے مشاغل سے دور رہنے کے عادی نظر آئے وہ اسی وقت متکلم شیریں کلام ہوتے ہیں، جب کوئی شخص ان سے گفتگو کرنے کے لئے اصرار کرنے ورنہ ان کی زبان مبارک پر سکوت طاری رہتا ہے ۔ یہ ایک ایسا وصف خصوصی ہے جو ان کی ذات کو دوسرے سے ممتاز کرکے صوفیائے کرام کی گروہ میں ان کو داخل کردیتا ہے۔ وہ دین و دیانت کے پابند ہیں وہ اپنی زبان سے بڑے بڑے مخالف و معاند کے لئے بھی نازیبا لفظ استعمال کرنا گوارہ نہیں کرتے ، بلکہ نپے تلے الفاظ میں گفتگو کرنے کے عادی ہیں اور اگر صوفیاء کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یقین کامل پیدا ہوگا کہ وہ بھی ہرزہ سرائی، لایعنی بات چیت، غیبت و حسد، حرص و طمع، جیسے اوصاف ذمیمہ سے پاک ہوتے ہیں، ہمارے ممدوح مکرم بھی ان خصائل مذمومہ سے بالکل عادی ہیں۔ وہ اپنی زبان مبارک کو دوسرے لوگوں کے متعلق حاسدانہ جذبہ کے اظہار کے لئے استعمال نہیں کرتے ہیں، اور غیبت سے آلودہ کرنے سے بھی پاک و صاف رکھتے ہیں، اس لئے میرے نزدیک اس خصوصیت کی وجہ سے بھی صوفی کا لفظ ان کی ذات پر زیادہ چسپاں ہے۔‘‘
(خطیب البراھین نمبرص۵۱)
کوئی سنت کسی لمحہ نہ ان سے چھوٹتے دیکھی
خدا جانے ان کا مرتبہ کیا ہے؟ کہاں وہ ہیں

خطیب البراہین کا لقب

آپ نے طالب علمی کے زمانے سے ہی خطاب فرمانا شروع کر دیا تھا، اور زندگی کی آخری سانس لینے سے تقریباً ۲؍۳ سال قبل تک تبلیغ کا یہ انداز جاری رہا، آپ کے بیان کا انداز اس اعتبار سے نرالا تھا کہ آپ عام مقرروں کی طرح صرف لفاظی، اور بیانی اور چیخ و پکار سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی ہر بات قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے اقوال اور امام احمد رضا علیہ الرحمہ کے اشعار سے مزین کرکے بڑے لطیف پیرائے میں پیش فرماتے تھے۔ اس طرح کہ قرآن کا حوالہ ہے تو آیت نمبر ، پارہ ، رکوع اور حدیث کا حوالہ ہے، تو کتاب کا نام، باب، صفحہ وغیرہ بیان کرنے کا التزام فرماتے تھے، ایک دعویٰ پر کئی کئی دلیلیں پیش کرتے، کبھی بھی بلا دلیل کوئی بات نہیں کہتے۔

آپ کے ہمعصر علماء و صلحا اور ادباء نے آپ کے خطاب میں دلائل و براہین کے انھیں امتیاز کو دیکھ کر آپ کو خطیب البراھین (یعنی دلیلوں کے ساتھ اپنی بات پیش کرنے والا مقرر) کے لقب سے ملقب کیا۔ یہ لقب بھی آپ کے نام کے ساتھ ایسا وابستہ ہوا کہ اب اگر یہ لقب کسی اور کے ساتھ لگایا جاتا ہے تو صاف معلوم ہوتا کہے کہ اسے حضرت کے نام سے سرقہ کرکے زبردستی چسپاں کیا گیا ہے۔

ویسے آج کل تو القابات اس قدر عام ہوگئے ہیں کہ جس کو چاہا دے مارا، جلسوں کا پوسٹر دیکھ لیجئے ایسے ایسے القابات و خطابات کی اللہ کی پناہ۔ کوئی علامہ سے کم نہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ پوسٹر دیکھ کر ہمارے بڑے علماء سوچتے ہونگے۔ کاش ہمیں یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے!! خٰر یہ تو بس یوں ہی بات آگئی کہنا یہ ہے کہ آج لوگوں نے تقریر کو بہت آسان سمجھ لیا ہے اور عام طور پر آج کل جس طرح تقریر کرنے اور سننے کا رواج بن گی اہے وہ آسان ہے بھی۔ کیونکہ اس میں صرف یہ ہنر چاہئے۔ بلند آواز، چیخ و پکار، شور شرابا، چلا چلی وغیرہ ، لیکن جس اہتمام کے ساتھ حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ خطاب فرماتے تھے وہ کل بھی مشکل تھا اور آج بھی مشکل ہے۔ ظاہر سی بات ہے اپنی باتوں کو دلائل و براہین کے ساتھ مزین کرنا اسی کے بس کی بات ہے ان پر مضبوط گرفت رکھتا ہو۔ اور حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمۃ نہ یہ کہ صرف ان پر مضبوط گرفت رکھتے تھے بلکہ دلائل و براہین کے اسرار و رموز پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کی تقریر عوام تو عوام بڑے بڑے علماء بھی پسند فرماتے تھے اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور جیسی عظیم المرتبت شخصیت کی زبان بھی آپ کی تقریر کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان تھی۔

ایک بار امرڈوبھا کے اجلاس میں حافظ ملت علیہ الرحمہ مدعو تھے، جلسہ شروع ہوا تو حضرت اپنی قیام گاہ پر آرام فرماتھے، جب صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی تقریر شروع ہوئی تو آپ بیدار ہوگئے۔ اسٹیض پر تشریف لے گئے، اور پیٹھ ٹھونک کر حیرت انگیز مسرت کا اظہار فرمایا اور بے پناہ دعائوں سے نوازا۔(ماہنامہ اشرفیہ مئی ۲۰۱۳ئ، ص ۷)

تدریسی خدمات

۱۹۵۲ء سے ۲۰۰۸ء تک کل چھپن سال تک آپ نے مندرجہ ذیل اداروں میں تدریسی خدمات انجام دی۔
(۱) دارالعلوم اہلسنت فیض الاسلام ہنداول ضلع بستی
(۲) دارالعلوم اہلسنت شاہ عالم احمدآباد، گجرات
(۳) دارالعلوم اہلسنت فضل رحمانیہ پچپیڑوا گونڈہ
(۴) دارالعلوم اہلسنت تنویرالاسلام امرڈوبھا، بکھرہ بستی
آخرالذکرادارہ دارالعلوم اہل سنت تنویرالاسلام امرڈوبھا میں آپ ۱۹۶۳؁ء تا ۲۰۰۸؁ء کل پیتالیس سال تک بہ حیثیت شیخ الحدیث طالبان علوم نبویہ کو اپنا علمی و روحانی فیض پہنچاتے رہے۔ ۳۰؍جون ۱۹۸۷؁ء کو آپ ریٹائر ہوگئے اور اس کے بعد بلا معاوضہ ۲۱؍سال تک بخاری شریف کا درس دیتے رہے۔

طرز تدریس و تعلیم

مدرس اور استاذ بننا تو آسان ہے، مگر طلبہ کو اپنی باتیں سمجھاکر ان کے دل میں اترجانا، بڑا مشکل کام ہے۔ حضور خطیب البراھین علیہ الرحمہ کے درس دینے اور پڑھانے کا انداز اتنا انوکھا اور نرالا ہوتا تھا کہ کمزور سے کمزور طالب علم آپ کی گفتگو آسانی سے سمجھ لیتا، درسگاہ میں آپ ہمشہ باوضو ہوکر بیٹھتے، یہ التزام صرف احادیث کی کتابوں کے ساتھ خاص نہیں تھا، بلکہ جملہ اوقات تدیرس آپ اس کا لحاظ فرماتے۔ آپ کے شاگرد درشید حضرت علامہ مقبول احمد سالک مصباحی بانی جامعہ خواجہ قطب الدین بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پڑھانے کا انداز استاذ العلی جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مبارکپور علیہ الرحمہ سے کافی ملتا جلتا تھا۔ کیونکہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ لمبی چوڑی تقریر کرکے طلبہ کا وقت ضائع نہ کرتے تھے۔ عموماً حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ ضروری مقامات کی تشریح کردیتے۔ اگر کوئی اعتراض پیدا ہونے والا ہوتا، تو اسے پہلے ہی دفع کردیتے، طلبہ سے عبارت ضرور سنتے، الفاظ و اعراب کی غلطی پر سخت تنبیہ کرتے۔

خشیت الٰہی

اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا اِنْ اَولیاؤہٗ اِلّاَ الْمتّقون۔اللہ کے ولی وہ ہیں جو اس سے ڈرتے ہیں۔ انما یخشی اللہ من عبادہٖ العلمائ۔

ان دونوں آیات کی روشنی میں جب ہم حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی حیات کا ہر لمحہ خوف خداوندی سے لبریز تھا۔ بلاشبہ آپ اللہ رب العزت کے سچے ولی ہیں۔ اور عالمِ ایسے کہ بڑے بڑے علماء آپ پر قربان ہونا اپنے لئے باعث فخر تصور کرتے، آپ صحیح معنوں میں علماء کی اس صف میں تھے جن کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ ولسم نے ارشاد فرمایا، العلمائُ ورثۃ الانبیائ۔ علماء نبیوں کے وارث ہیں، سو آپ کے اندر خوف خداوندی کا پایا جانا فرمان خداوندی کی تصدیق تھی۔ آئیے مندرجہ ذیل واقعات کے ذریعہ اپنے دل کو جلا بخشتے ہیں۔
(۱) علامہ اوریس بستوی نائب ناظم الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور بیان کرتے ہیں:
صدر مدرس کا سرکاری عہدہ بساوقات مشکل پیدا کردیتا ہے ، مگرصوفی صاحب علیہ الرحمہ نے اپنے اس عہدہ کو اپنی صداقت، تقویٰ و طہارت میں حائل نہ ہونے دیا اور نہ ہی کسی ایسے کاغذ پر دستخط کیا جس کی سچائی میں ذرہ برابر بھی شک رہا ہو۔

بڑا ہی مشہور واقعہ ہے کہ آپ کے دور صدات میں انسپکٹر مدارس عربیہ اترپردیش کی آمد بغرض معائنہ دارالعلوم تنویرالاسلام امرڈوبھا میں ہوئی۔چونکہ وہ ایک خاتون تھیں اور حضرت صوفی صاحب کا کسی نامحرم عورت سے سامنا کرنا اور ہم کلام ہونا ناممکن تھا ارکان ادارہ اور سرکاری دفتروں میں آنے جانے والے حضرات کی زبردست کوشش تھی کہ حضرت ان سے بات کرلیں۔ مگر حضرت اس پر راضی نہ ہوئے، لوگوں نے کہا حضرت آپ کی ملاقات اور آنے والی افسر کی دل جوئی سے ادارہ کو بہت فائدہ ہوگا۔ تو حضرت نے فرمایا :
’’دین کو دے کر دنیا حاصل کرنے کی کوشش کرنا سب سے بڑا خسارہ ہے، اس لئے میں اس خسارہ کو منظور نہیں کرسکتا۔‘‘

یقینا یہ بڑی دشوار منزل تھی۔ اس مقام پر جہاں کسی افسر کی دل جوئی کا معاملہ ہو بڑے بڑے لوگوں کے حوصلہ پست ہوجاتے ہیں،لیکن ایسے عالم میں بھی حضرت صوفی صاحب کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ اور آپ نے شرعی قانون پر پورے اطمینان سے عمل کیا۔

(۲) ایک بار آ پ علیہ الرحمہ اپنی زمانہ طالب علمی میں اپنی کھیت گئے۔ اس وقت مٹر کی فصل تیار تھی۔ آپ ایک کھیت سے مٹر کی پھلیاں توڑنے لگے، اسی درمیان گائوں کے ایک شخص کا ادھر سے گذر ہوا، اس نے حضرت کو دیکھ کر کہا صوفی صاحب یہ آپ کا کھیت نہیں یہ تو تجمل حسین صاحب کا کھیت ہے، اتنا سننا تھاکہ خوف الٰہی سے آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا اور آپ کے ہاتھ رک گئے، فوراً آپ گھر واپس آئے اور مالک کھیت کے گھر پہونچے، اس سے واقعہ بتاکر معافی مانگی اور بچی ہوئی مٹر کی پھلیاں واپس کردیں۔ کھیت کا مالک حضرت صوفی جو ابھی ایک چھوٹے بچے تھے کی خشیت الٰہی اور خوف خداوندی دیکھ کر حد درجہ متاثر ہوا اور بہت ساری دعائیں دی۔

اللہ رب العزت حضرت کے اس واقعے سے ہمیں نصیحت و عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آج تو معاملہ یہ ہے کہ پوری پوری جائداد غصب کرجاتے ہیں اور بدن کا ایک رونگٹا بھی خوف الٰہی سے نہیں کھڑا ہوتا۔

(۳) بکھرہ میں ایک بار آپ کچھ علماء کے ساتھ بھونو بھائی سلائی ماسٹر کی دکان پر تشریف لے گئے اور ان سے کہا کہ میرا یہ پوری آستین والا سوئٹر ہے، اسے پہن کر وضو بنانے میں دشواری ہوتی ہے، آپ اس میں چین لگا دو۔ حضرت انھیں سوئٹر دے کر علماء کے ساتھ دین کی باتوں سے مشغول ہوگئے، ادھر ماسٹر موصوف نے آستین چاک کیا اور اپنے کترن سے ایک سفید کپڑا نکال کر چین کے ساتھ سل دیا۔ کچھ دیر بعد حضرت نے فرمایا آستین بنادیجئے اب ہم چلیں گے ٹیلر ماسٹر صاحب نے کہا حضرت بن کر تیار ہے، اور سوئٹر آگے بڑھادیا۔ حضرت نے آستین دیکھا تو فرمایا یہ سفید کپڑا آپ نے کہاں سے لگادیا۔ عرض کیا! حضور کترن سے نکال کر لگا دیا؟ یہ سن کر حضرت کا چہرہ متغیر ہوگیا اور فرمایا، یہ تو بہت غلط ہوا آپ اسے فوراً نکال دیں۔ دوسرے کا کترن بلا اجازت میرے لئے کیسے جائز ہوسکتا ہے، اور پھر آپ نے کیڑے کی دکان سے ایک گرہ کپڑا خریدوا کر منگوایا پھر اسے لگا کر سوئٹر میں چین سلی گئی۔

ولی کامل

حضرت کا یہ کمال احتیاط اور تقویٰ دیکھ کر حاضرین حیران وششدر رہ گئے ، جی ہاں!تقویٰ کے یہی وہ انوکھے انداز ہیں کہ جب بندہ اس منزل پر فائض ہوجاتا ہے بندہ ہر کام میں اللہ و رسول کی رضا اور خوشنودی کا طالب ہو تو پروردگار دونوں عالم میں اس کا چرچا عام فرمادیتا ہے۔ اور اسے اپنا ولی اور محبوب بنا لیتا ہے۔ جیسا کہ خود اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا انّ اولیاؤہ الا المتقون۔اللہ کے اولیاء وہ ہیں جو تقویٰ والے ہیں۔
اور متقی وہی ہوسکتا ہے جو صاحب ایمان ہو۔ گویا ولایت کی دو بنیادی شرطیں ہیں:
(۱) ایمان (۲) تقویٰ

مومن

حقیقی مومن وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت کرتا ہو صرف زبانی دعویٰ اور بعض احکام پر عمل کرنے سے کوئی کامل مومن نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میںجو چیز مطلوب ہے وہ صرف اعمال کی ظاہری صورت نہیں بلکہ اس کے ساتھ اخلاص و للہیت اصل مقصود ہے کیونکہ حقیقی ایمان یہ ہے کہ جو ظاہر سے ہوکر دل کی گہرائیوں میں اترجائے اخلاق و عادات میں ادائے مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہو، قانون خداوندی کی اطاعت میں دلی جذبات و کیفیات کی جلوہ نمائی ہو، ہر ہر عمل خالصۃً خدا کی خوشنودی اور رضا مندی کے لئے ہو، کیونکہ خدا ترسی اور اخلاص سے خالی اعمال کی کوئی قیمت نہیں ۔ مومن کامل وہ ہے جو سراپا تقدس و پاکیزگی کا شاہکار بن جاے۔ اس کے قول و عمل میں یکسانیت ہو، اس کی پیشانی انور ایمان کی کرنوں سے درخشاں ہو۔ اس کی رگ رگ میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تجلیاں ہوں، آسمان کے فرشتے اس کی عظمتوں پر قربان ہوں، اس کے لب کھائیں تو ذکر خدا عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آیدار موتی بکھیریں، وہ خاموش رہے تو شریعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی سراپا تصویر بن جائے اور یہ مقام کسی بندے کو اس وقت ملتا ہے۔ جب وہ فنافی اللہ ہوجاتا ہے، محبت رسول میں غرق ہوجاتا ہے، قرآن وحدیث کے پیغام کو اپنے دل کی دھڑکن بنا لیتا ہے۔

متقی

ولایت کی دوسری شرط تقویٰ ہے، متقی کیلئے ضروری ہے کہ وہ جملہ امور دینیہ اور احکام شرعیہ میں اس قدر محتاط ہوکہ ممنوعات و منہیات سے بچنے کے ساتھ ساتھ مکروہات و شبہات سے بھی دور ہوجائے۔ اللہ رب العزت سے غفلت پیدا کرنے والی تمام چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔ نفسانی خواہشات کی پیروی چھوڑکر صرف رضائے الٰہی کا طالب بن جائے۔ تقویٰ تمام اعمال صالحہ کی حقیقی روح ہے، جو تقویٰ والے وہی کامیاب ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ التقویٰ ھٰھنا واشارالی صدرہٖ۔ تقویٰ یہاں ہے اور آپ کا اشارہ دل کی طرف تھا۔ کیونکہ تقویٰ کا معنی صرف ڈرنا نہیں۔ بلکہ ڈرکر جملہ کبائر و صغائر سے احتراز کا نام ہے۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محبت زیادہ

ان مذکورہ صفات کی روشنی میں جب ہم حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ولایت کی تمام صفات آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود ملتی ہیں۔ جن کی عوام تو عوام علمائے کرام اور پیران عظام نے بھی گواہیاں دی ہیں، یہی تو وجہ ہے کہ ان کی زندگی میں ہی مخلوق خدا نے لبیک زبان انھیں زندہ ولی کا لقب دے دیا تھا۔
زفرق تابہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامن دل می کشد کی جاں ایں جااست

تبلیغی سفر

تدریس و تصنیفی خدمات کے علاوہ آپ ہندو نیپال کے مختلف گوشوں میں تبلیغی دورے فرما کر خطابات و بیعت اور ہندونصائح سے تاریک دلوں کو روشن کرتے رہے، دن میں طبلہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے اور رات میں جلسوں میں شرکت فرماکر اپنے پاکیزہ لب و لہجہ سے انوروتجلیات کی برسات کرے، آپ کی تبلیغ و تقریر کا اندازہ بڑا موثر اور انوکھا تھا بدزبانی، صاحب و ائمہ دین و بزرگان سلف صالحین کے اقوال سے اپنی باتوں کو مزین کرتے آپ کی محفل میں شریک ہونے والا آپ کا غلام بے دام بن جاتا ۔کیونکہ آپ تقیریر نذرکرنے اور نام و نمود کے لئے نہیں کرتے، بلکہ اس سے آپ کا مقصد صرف تبلیغ اسلام تھا۔ ایک عالم گواہ ہے کہ آپ نے نہ کسی جلسوں کے لئے نزرانہ طے کیا، نہ اس کے لئے ناراض ہوئے جہاں جانے کا وعدہ کرتے۔ ہر حال میں وہاں پہونچتے، کسی جلسوں کے منتظمین پر رعب جمانے کی کوشش نہیں کرتے جو جہاں بیٹھاتا، بیٹھ جائے جو کھلاتا کہا لیتے، البتہ آپ عام طور سے سادہ کھانے کی خواہش کرتے، جبکہ آپ (اللہ معاف فرمائے) آج اکثروبیشتر مقررین کا یہ حال ہے کہ اول تو موٹے موٹے تقرار نے طے کرتے ہیں، پھر جب تک آنہ جائیں۔ دل دھک دھک کرتا رہتا ہے جناب کہیں دھوکہ نہ دے جائیں۔ اور جب پہونچ جاتے ہیہں تو وہ رعب و تمکنت، وہ جلال کہ پوچھئے مت، نذرانہ کم ہوا، عزت میں کچھ کمی آئی، تو آسمان سرپر اٹھا لیتے ہیں، بعضوں کو ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اگرذرا برابر بھی ان کی شان میں کوئی گستاخی ہوئی تو بغیر تقریر یئے نذرانہ لے کر فرار ہوجاتے ہیں۔(اللہ رب العزت انھیں دین کی خدمت کا سچا جذبہ عطا فرمائے۔)

تصنیفی خدمات

آپ نے شب و روز کی ہزارہا مصروفیتوں کے باوجود تصنیف و تالیف کے میدان کو بھی خالی نہ چھوڑا، مندرجہ ذیل کتابیںجنھیں آپ نے بہت ہی سادہ اور سلیس انداز میں تحریر فرمائی ہیں چھپ کر مقبول عوام و خواص ہوچکی ہیں۔ (۱)فضائل تلاوت قرآن مبین (۲) اختیارات امام النبین(۳) خطبات خطیب البراہین (۴) فضائل مدینہ(۵) کھانے پینے کا اسلامی طریقہ (۶) برکات روزہ (۷) فلسفہ قربانی (۸) حقوق والدین (۹) برکات مسواک (۱۰) داڑھی کی اہمیت (۱۱) احوال الصالحین۔

بیعت

حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ جن دنوں الجامعۃ الاشرفیہ میں زیر تعلیم تھے انہیں ایام میں مورخہ ۷؍ربیع الآخر ۱۳۷۰؁ھ مطابق ۱۶؍جنوری ۱۹۵۶؁ء بروز منگل آپ نے حضور مفتی اعظم ہند آل رحمٰن مصطفی رضا خان نوری برکاتی شہزادہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا اور سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ نوریہ میں داخل ہوئے۔


سلسلہ برکاتیہ کی اجازت و خلافت

خانقاہ مارہرہ مطہرہ ہندوستان کی وہ عظیم خانقاہ ہے جہاں سے ایک ادنیٰ سی نسبت بھی انسان کو اعلیٰ بنادیتی ہے، یہاں نہ کسی کی دولت و ثروت دیکھی جاتی ہے نہ دنیاوی جاہ و حشمت، یہاں صرف دل دیکھا جاتا ہے اور وہ بھی ایسا دل جس کی ہر دھڑکن سے اللہ کی صدائیں آتی ہوں۔ جس میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا چراغ روشن ہو، جوا لحب فی اللہ والبعض للہ کا سراپا ہون۔ جو اپنے محبوب کے دشمنوں کو دودھ سے مکھی کی طرح باہر نکال کر پھینکنے پر سختی سے کاربند ہو، اور اپنے محبوب کے محبوبوں کی بارگاہ میں الفت و محبت کی سوغات پیش کرنا اپنا فرض منصبی تصور کرے۔
عشق جس دل میں نہیں وہ دل نہیں
یار کے رہنے کہ وہ منزل نہیں
میرے سرکار پیرو مرشد حضور خطیب البراھین علیہ الرحمہ کو خاندان برکات سے دیوانگی کی حد تک لگائو تھا۔ مارہرہ مطہرہ کی حاضری سے آپ کے بیقراروں کو حقیقی سکون حاصل ہوتا تھا، مورخہ ۲۰؍صفرالمظفر ۱۴۰۵؁ھ مطابق ۱۵؍نومبر ۱۹۸۴؁ء بروز پنجشنبہ آپ عرس قاسمی کے موقع پر مارہرہ شریف حاضر تھے، اس وقت مجمع عام میں خانقاہ برکاتیہ کے عظیم چشم و چراغ پیشوائے اہل طریقت، واقف اسرار شریعت مقتدائے کے ملت، سراج اللساکین، شمس العارفین، زمدۃ الاصفیاء احسن العلماء حضور علامہ سید مصطفی حیدر حسن میاں علیہ الرحمہ والرضوان صاحب سجادہ خانقاہ مارہرہ مطہرہ علماء و مشائخ کی موجودگی میں حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ کو سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ کی خلافت و اجازت سے شرفیات سرفراز فرمایا۔
اس موقع پر حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ نے اپنی دلی کیفیت یوں بیان فرمائی کہ جس وقت حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ نے میری خلافت کا اعلان فرمایا اور میرے سرپر سنددستار باندھی، اس وقت میرے اوپر فیضان برکات اور انوار و تجلیات کی ایسی برسات ہوئی کہ میرا باطنی خلا پر ہوگیا اور میری کیفیت کیا ہوئی اسے الفاظ میں نہیں بیان کیا جاسکتا ۔
احسن العلماء نے ان کو کر دیا اتنا حسیں
ہوگئی رشید و ہدایت صوفی ملت کی ذات

سلسلہ رضویہ کی اجازت و خلافت

مورخہ ۵؍محرم الحرام ۱۴۰۷؁ھ مطابق ۱۹۸۶؁ء کو دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف شیخ الحدیث ولی کامل حضور رئیس الاختیار علامہ الحاج الشاہ مبین الدین امروہوی خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے آپ کو سلسلہ رضویہ نوریہ کی اجازت و خلات عطا فرمائی۔ اس طرح آپ کی ذات بابرکت سے دو سلسلوں کا فیض جاری ہونے لگا اور مجمع البحرین ہوگئے۔

خانہ کعبہ اور روضہ ٔ رسول ﷺ کی زیارت

ماہ ذی قعدہ ۱۴۱۰ھ؁ مطابق ماہ جون ۱۹۹۰؁ء میں آپ نے اپنی والدہ محترمہ اور صاحبزادہ علامہ حبیب الرحمٰن رضوی وغیرہ کے ساتھ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے شرفیابی حاصل کی اور خانہ کعبہ کے دیدار پر انور سے مشرف ہوئے۔ اسی موقع پر آپ نے ریاض الجنۃ میں اپنے عزیز صاحبزادے حضرت علامہ حبیب الرحمٰن صاحب مدظلہ العالی کو سلسلہ عالیہ، قادریہ، رضویہ، برکاتیہ، نوریہ، نظامیہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔ دوبارہ حج نفل کیلئے مریدوں نے بہت پیش کش کی جس پر آپ نے علماء سے رجوع کیا۔ علماء نے حج نفل کیلئے تصویر کشی سے احتراز کیا مشورہ دیا۔ تو آپ نے اسباب کے فراہمی کے باوجود تقویٰ کو ترجیح دیا اور حج نفل نہ کیا۔
غیاث الدین احمد مصباحی نظامی
About the Author: غیاث الدین احمد مصباحی نظامی Read More Articles by غیاث الدین احمد مصباحی نظامی: 2 Articles with 2280 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.