میر ے خیال میں یہ ایک اچھی اور
خوبصورت خبر ہے ۔ سب سے بڑھ کر بہت خوش آئند بھی ہے۔ واقعی اگر ایسا ہو
جائے تو کمال ہو جائے۔ اس ملک کا مستقبل سنور جائے۔ پارلیمنٹ کے ممبران کی
اپنی بھی بھلائی اسی میں ہے۔ یہ شاید انہوں نے پہلی دفعہ محسوس کیا اور اسی
احساس کی بنا پر بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ خبر کی سرخی کچھ یوں ہے ’’پارلیمنٹ
کی جہالت کے اندھیرے دور کرنے کے لئے ،مشترکہ قرارداد‘‘۔ حیران ہوں کہ
پارلیمنٹ کے معزز ممبران کو اپنی جہالت کا احساس یکایک کیسے ہو گیا۔ اس خبر
کی تفصیل بھی آگے تھی مگر میں تفصیل کے چکر میں نہیں پڑا کہ کہیں تفصیل
بتاتے پارلیمنٹ والے مجھے چکر دے کر جس کے وہ ماہر ہیں کہیں پارلیمنٹ سے
باہر نہ نکل جائیں۔ میرے نزدیک تو سب سے اہم کام پارلیمنٹ سے جہالت کا
اندھیرا دور کرناہے کیونکہ یہی ملک سے جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کی
ابتدا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کا کوئی ایک آدھ ممبر میری با ت کا برا مان جائے
مگر کیا کروں اگر پارلیمنٹ میں جہالت نہ ہوتی تو اس کے ممبران میں سمجھ
بوجھ ہوتی، فہم و فراست ہوتی، غیرت اور حمیت ہوتی، عزت اور بے عزتی کا
احساس ہوتا، جھوٹ پر نادم ہونے کا جذبہ ہوتا، سچ کے معاملے میں کھڑے ہونے
کا حوصلہ ہوتا اور اگر ایسا ہوتا تو اعتزاز احسن کے بارے چوہدری نثار کے
الزامات کہ اعتزاز احسن کا تعلق گیس مافیہ سے ہے، لینڈ مافیہ سے ہے پر
چوہدری اعتزاز احسن برا منانے کی بجائے اپنے صاف ہاتھ کھڑے کر دیتے اور غصہ
کرنے کی بجائے اطمینان سے ہر الزام کا ٹھوس ثبوت کے ساتھ جواب دیتے۔ چوہدری
نثار بھی اعتزاز احسن سے اس قدر بے عزتی کروانے کے بعد خون کے گھونٹوں کے
ساتھ سب کچھ پی کر بڑی سادہ دلی سے یہ اظہار نہ کرتے کہ میں نے اپنی عزت
جمہوریت پر قربان کر دی ہے۔
پتہ نہیں پارلیمنٹ کی حدود میں کیا ایسی چیز ہے کہ اچھے بھلے لوگ وہاں پہنچ
کر اپنا انداز تکلم بدل لیتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق اور
جماعت کے سیکرٹری برادرم لیاقت بلوچ جمہوریت کی بات کو جہالت سے منسوب کر
دیتے ہیں۔ جرگہ میں شمولیت کے بعد ان کی پھرتیاں دیکھ کر اور گفتگو سن کر
مجھے یہ احساس ہوا کہ جمہوریت سچ اور دیانتداری سے بھی افضل چیز ہے۔ گو
جماعت کے لوگ سمجھتے اور مانتے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی مگر جمہوریت
کی خاطر سچ اور ایمانداری کو بھی قربان کر رہے ہیں۔ گو جماعت کے بہت سے
ہمدردوں کو افسوس تو ہو گا مگر انکو اپنے لیڈروں کی مخلصی سے انکار ممکن
نہیں۔ یہ پارلیمنٹ کے جمہوری مزاج اورجہلِ بے پناہ کا اثر ہے کہ اچھا بھلا
آدمی بھی اپنا بہت کچھ گنوا لیتا ہے اور اسے ا حساس بھی نہیں ہوتا۔
جناب خورشید شاہ لیڈر آف اپوزیشن ہیں۔ پرانے پارلیمنٹرین ہیں اچھے بھلے شخص
ہونے کے باوجود کسی وجہ سے نیب کو بہت سے مقدمات میں مطلوب ہیں۔ اپنی ذات
کو بچانے کے لئے انہیں میاں نواز شریف کا ساتھ دینا ہے۔ اسی مجبوری کے تحت
انہوں نے علامہ طاہر القادری کے خلاف چند باتیں کر دیں مگر طاہر القادری
کچھ زیادہ ہی برا مان گئے۔ اور لگے تاریخ کے اوراق کو پلٹنے۔ انہوں نے بھٹو
کو پاکستان دو لخت کرنے کا ذمہ دار قرار دے کر ایک کڑوہ سچ اگل دیا۔ انہوں
نے ببانگ دہل سر عام کہا کہ بھٹو کے نعرے ’ادھر ہم، اُدھر تم‘‘ کا واحد
مقصد یہی تھا کہ مجیب الرحمن کو بتا دیا جائے کہ وہ یعنی بھٹو صاحب اقتدار
کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس لئے ادھر تم سنبھال لو اور ادھر والا حصہ میرے
لئے چھوڑ دو۔ اس سے پہلے اس تاریخی حقیقت کو جو بھی آشکار کرنے کی کوشش
کرتا جیالے اس کا حلیہ بگاڑ دیتے تھے ۔ مگر جمہوریت کی خاطر جیالوں کی ساری
جماعت یہ بے عزتی برداشت کر گئی۔شاید اس لئے کہ ان کے لیڈروں ذوالفقار علی
بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے انہیں برداشت کا درس دیا ہے۔خاص طور پر ایسے
موقعوں پر کہ زیادہ بے عزتی کرانے سے چپ رہنا بہتر ہوتا ہے۔ خورشید شاہ نے
خود غرضی دکھائی اور جواباً اپنے لیڈر کی خود غرضی کو بے نقاب کروا دیا۔
خود غرضی بھی بہت بڑی جہالت ہے۔
عمران خان ہر روز شریف برادران کی کرپشن کے نئے نئے قصے بڑی خوبصورتی سے
ثبوتوں کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے شریف برادران کو عوام میں ننگا کر
کے رکھ دیا ہے۔ کوئی اور موقع ہوتا تو ان سے بہت اچھی طرح نپٹا جا سکتا تھا
مگر اس قدر زیادہ سچ سے ٹکر لینا وہ بھی جب قتل جیسے کیس کا سامنا بھی ہو،
ممکن نہیں۔ایسے حالات میں پہلے کچھ سنبھلنا زیادہ ضروری ہے۔ دوسرا کچھ
زیادہ کرنے سے جمہوریت کو بھی خطرہ ہے۔ پہلے ہی پندرہ سال بعد وہ شریف
برادران کے پاس آئی ہے۔ اب چلی گئی تو شاید کبھی واپس نہ آئے۔ خصوصاً شریف
برادران کے پاس۔ اس لئے ڈھٹائی سے حالات سے سمجھوتا کیے رہو پتہ نہیں ایسی
ڈھٹائی عظیم جہالت ہے یا عظیم جمہوریت۔لیکن لگتا ہے کہ ڈھٹائی کے معاملے
میں جمہوریت اور جہالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ذہنی جہالت ختم ہو جائے تو یہ جیتی جاگتی ہستی انسان کہلاتی ہے جس میں سوچ
ہوتی ہے، فہم و فراست ہوتی ہے، جذبے ہوتے ہیں، اچھائی، برائی کی تمیز ہوتی
ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ٹیلی ویژن پر دکھایا جا رہا تھا۔ میں اس
اجلاس میں انسان تلاش کر رہا تھا مگر شیر بہت تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے سبھی
ممبران کاتو خود دعویٰ ہے کہ وہ شیر ہیں۔ واقعی ہیں۔ دو سال پہلے جب سینٹ
کے الیکشن ہوئے تو اخبارات میں آیا تھا کہ بہت سے گھوڑوں کی خرید و فروخت
ہوئی ہے اور بہت سے گھوڑے سینٹ میں پہنچ گئے ہیں۔ یقینا ہوں گے۔ انسان ہوتے
تو کچھ جذبات کا اظہار نہ کرتے۔ قاتلوں کو تحفظ تو نہ دیتے۔ یاد آیا۔ روم
کے شہنشاہ کیلی گولا نے ۴۱ سے ۳۷ صدی قبل مسیح تک چار سال روم پر حکومت کی۔
اپنے چار سالہ دور حکومت میں اس نے اپنے محبوب گھوڑے انکا ٹاٹس (Incitatus)
کو سینٹ کاممبر نامزد کیا۔ یہ گھوڑا سینٹ کے اجلاس میں بھی شرکت کرتا۔ چپ
چاپ بیٹھا رہتا مگر دعوتوں میں شریک ہوتا اور امرا کو دعوتیں بھی دیتا تھا۔
اس گھوڑے کے بارے تفصیلی مطالعے سے لگتا ہے کہ اس کی عادتیں بھی ہمارے
ممبران سینٹ سے ملتی جلتی تھیں یا ہمارے ممبران کی عادتیں اُس سے ملتی جلتی
ہیں۔ بہرحال کچھ مماثلت ضرور ہے الو مشرقی لوگوں میں سستی اورکاہلی کی
نشانی ہے یہ ناکارہ پرندہ ہے مگر مغرب کے لوگ اسے انتہائی زیرک اور سوچ
بچار کا حامل سمجھتے ہیں۔ وہاں پارلیمنٹ کے ممبران کو الو سے تشبیہ دی جاتی
ہے اس لئے کہ وہ بھی سوچتے ہیں سمجھتے ہیں بولتے بھی ہیں۔ ویسے ہر پارلیمنٹ
میں الو ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مغرب کی پارلیمان میں مغربی الو اور مشرق
کی پارلیمان میں مشرقی الو پائے جاتے ہیں۔ |