ایک نجیب نوحہ

دنیا میں روزانہ لاکھوں لوگ پیدا ہوتے ہیں لاکھوں مر جاتے ہیں زیادہ تر ایسے کہ جن کا صرف ان کے اعزاء و اقارب کو ہی پتہ ہوتا ہے کچھ کے مرنے پر کچھ کے مرنے پر محلہ کچھ شہر کو سوگوار کرکے عالم ناپائیدار کا رخ کرتے ہیں لیکن ان میں کچھ ایسے دلرباء و محبوب لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے مرنے سے لاکھوں دل ملول اور شہر کے شہر سوگوار ہوجاتے ہیں اور شاید ایسے ہی لوگوں کیلئے کسی شاعر نے کہا تھا ۔
وائے گلچین اجل ! خوب تھی تیری پسند
پھول وہ توڑے کہ ویراں کردیا سارا چمن

کچھ لوگ تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں کچھ خود تاریخ ہوتے ہیں دنیا میں لوگ آتے ہیں اپنے معمولات میں مشغول ہوتے ہیں اپنے حصے کا کام کرکے رخصت ہوجاتے ہیں لیکن کچھ ناپسندیدہ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے حصے کا کام بھی کرکے جاتے ہیں وہ لوگ صرف تاریخ میں ہی زندہ نہیں رہتے اپنے چاہنے والوں کی ہر سانس دل کی ہر دھڑن خون کے ہر ہر قطر دعا کے ہر ہر لفظ میں زندہ و جاوید ہوجاتے ہیں لوگ ان کی اچھائیوں کا اپنانے اور ان کی طرح زندہ و جاوید مرنے کی دعا کرتے ہیں کہ وہ اس کی زندگی کی طرح مثال بن جائیں بقول شاعر
ایسے رہو جہاں میں کریں لوگ آرزو
ایسے چلن چلو کہ زمانہ مثال دے

جب کوئی مرتا ہے تو وہ شخص اپنے عزیز و اقارب کیلئے سوگ کا باعث ہوتا ہے لیکن جب کوئی بڑا آدمی مرتا ہے جو کردار کی بلندیوں پر ہو تو اس شخص کو ہر آدمی کسی نہ کسی طرح سے خراج تحسین پیش کرتا ہے لوگ اس کے کئے گئے کاموں خدمات کی تحسین کرتے ہیں اور اس کے غم میں مرثیے و نوحے لکھتے ہیں کبھی کسی عام آدمی کا مرثیہ و نوحہ نہیں لکھا جاتا نوحہ تکلیف درد اور محبت و سوگ کا استعارہ ہوتا ہے آج ہمیں ایک بار پھر نوحہ لکھنا پڑ رہا ہے اور یہ نوحہ اس شخصیت کا ہے جس سے واقعی لوگ محبت کرتے تھے اسے پسند کرتے تھے اس کیلئے جیتے مرتے تھے جس کا ایک جذباتی حلقہ احباب تھا خصوصاً دریاخان کے وہ لوگ جن کے آبائو اجداد قربانیاں دینے کے خوگر تھے جن کی نس نس میں قربان ہونے کا جذبہ پورے ضلع سے زیادہ بدرجہ اتم موجود ہے اس کے غم گسار تھے یہ جذبات اور فنا ہوجانے والے اس جذباتی شخصیت کے گرویدہ تھے تعلیم یافتہ حالات و واقعات اور اپنے ضلع کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والا ہمدرد اور تعاون کرنے والا عام آدمی کو ہر وقت دستیاب بے لاگ بے تکان بولنے والا محبتوں کا امین جناب نجیب اللہ نیازی تھا جو اپنے ہزاروں لاکھوں چاہنے والوں کو روتا سوگوار چھوڑتا اپنے خالق حقیقی سے جاملا
کڑے سفر کا تھا مسافر تھکا ہے ایسا کہ سوگیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے

نجیب اللہ نیازی کا سیاسی سفر 90ء کی دہائی میں شروع ہوا عروج و زوال اونچ نیچ اور نشیب و فراز کا شکار رہا لیکن جو چیز اسے سب سے ممتا ز کرتی ہے وہ اس کی عوام سے کمٹمنٹ تھی آرت بکوالڈ جو کہ ایک عظیم دانشور اور کالم نگار تھا اس نے بڑے انسان کی خوبیوں کو ایک فقرے میں کہا ہے کہ اسے ہر وقت عاجز اور دستیاب ہونا چاہیے ۔

اپنے حلقے کے ہر شخص کیلئے وہ ہر وقت دستیاب تھا گلی کوچوں کی نالیوں سے لیکر کالج اور سکولوں کی تعمیر تک ریڑھی بانوں کھوکھے والوں کے حقوق سے لیکر بڑے بڑے کاروباری لوگوں کے مسائل تک ہر وقت دستیاب مذہبی شدت پسندی لڑائیوں اور نقصانات دریاخان میں ہوئے لیکن نجیب اللہ مرحوم نے آخر وقت تک سب کی بات کی اعتدال امن اور محبت کی بات کی وہ دل سے اور اپنے عمل سے امن کا علمبردار تھا زبان و بیان سے ہر وقت اس شخص نے امن کا پرچار کیا وہ اسمبلی کا فورم ہے یا ضلع کی امن کمیٹی کا وہ فوارہ چوک کا جلسہ ہے یا کارکنوں کی میٹنگ نجیب اللہ نیازی نے ہر وقت ہر جگہ امن کی بات کی محبت پیار اور اعتدال کی بات کی جس شخص سے اس کی وابستگی تھی وہ اس کیلئے جذباتی تھا ۔اور یہی ادا لوگ متنازعہ بناد یتے تھے لیکن کیا کہیں کہ
ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جس سے ملیے اسے خفا کیجے

بہرحال اس شخص کا اپنا انداز اپنی ادا تھی وہ منافقت کا قائل نہیں تھا جو بات دل میں ہوتی تھی بلاجھجک زبان پر آجاتی تھی ایسے لوگوں کی بہت کم کسی سے بنتی ہے شاید ضلع بھکر کے سیاستدانوں سے شکر رنجیوں کا سبب یہی تھا کوئی شخص بھی اسے گرانہ سکا وہ ایک جنگ جو تھا لڑنا اس کی فطرت ہمہ قسم حالات سے مقابلہ اس کی سرشت تھی وہ اپنے قبیلے کا بلند دستار شخص تھا اسی لئے اگر اس کی کسی سے بنی تو وہ دریاخان کے زیادہ تر شہری سطح کے لوگ تھے جذباتی تھے میں نے ایک دفعہ کسی میٹنگ میں رفیق خان نیازی کے گھر کہہ دیا کہ کراچی کی ایک جماعت دریاخان میں بہت زیادہ متحرک ہونے والی ہے تو اس جنت مکانی نے کہا کہ کسی صورت دریاخان کی عوام مجھے نہیں چھوڑ سکتی اور ہوا بھی یونہی بہر حال ان کے چاہنے والے دریاخان میں ہی نہیں ضلع بھکر و میانوالی پر بھی محیط ہیں دریاخان میں خصوصاً نجیب اللہ نیازی نے کروڑوں روپوں کی حکومتی گرانٹوں سے عوام کا بھلا کیا جو سب سے بڑی خوبی اس شخص میں تھی وہ یہ کہ وہ تھڑے کی سیاست بھی کر گزرتا تھا کسی ورکر کے کسی غریب کے گھر میں ٹوٹی ہوئی چار پائی پر عام کرسی پر بیٹھنا اسے کبھی ناگوار نہیں گزرا کسی بھی وقت کہیں بھی پہنچنا اس کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا اساتذہ اور پریس کیلئے اس کے دل میں خصوصی محبت تھی ہمارے ہر دل عزیز بزرگ جناب ملک محمد یوسف چھینہ صاحب ایک واقعہ ہمیں سنا رہے تھے کہ جب میری پوسٹنگ بطور پرنسپل ہونے لگی تو انہیں نجیب اللہ خان ملے اور حسب عادت گرم جوشی سے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اب تو آپ ہمارے پاس پرنسپل بن کر آرہے ہیں تو میں نے نجیب اللہ خان کو کہا کہ خان صاحب اگر آپ چاہتے ہیں تو میں یہاں آئوں تو آپ میرے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور کالج نہیں آئیں گے تو اس شخص نے وعدہ کیا کہ پروفیسر صاحب میں نہیں آئوں گا 4/1/2 سل میں پرنسپل رہا جب چار سال مکمل ہوئے تو وہ میرے کالج کے قریب سے گاڑی پر سے گزر رہا تھا سلام دعا ہوئی تو کہنے لگا ملک صاحب ہم نے اپنی زبان پوری کی ہے آپ کے معاملات میں کسی طور دخل نہیں دیا آپ کہیں گے تو آپ کے کالج میں آئوں گا ورنہ کسی طور پر آپ کے معاملے میں کبھی دخل نہیں دوں گا نجیب اللہ نیازی ایک اعلٰی تعلیم یافتہ شخص تھا ہر شخص سے اس کی سطح پر بات کرتا تھا میں ایک دفعہ اکابرین کے ہمراہ ڈی پی او آفس تھا ڈی پی او صاحب کچھ لیٹ تھے تو میں ٹہلنے کیلئے دفتر میں ایک طرف چل پڑا نجیب اللہ کسی شخص سے محو گفتگو تھا ہم بھی فقیر لوگ ہیں بے نیازی سے گزر گئے لیکن اس شخص نے خود آواز دی گرم جوشی سے ملے اور گفتگو شروع کردی جیسے قدبت بلند تھا آواز بھی اسی قدر بلند تھی مخاطب میں تھا لیکن بیوروکریسی پر برس رہے تھے کرپشن اور رشوت ستانی کی داستانیں کھول دیں عوام جمع ہوگئے لیکن وہ ہمیشہ کی طرح بلاتکان بولتا چلا گیا صفی اللہ اور دین محمد فریدی صاحب کے آنے پر خاموش ہوئے تو میں نے کہا کہ ہم تو پہلے بھی لکھتے یہں کل آپ کی وجہ سے لکھیں گے اور میں نے اگلے دن کالم لکھا جو مختلف اخباروں میں نجیب اللہ نیازی کی تشویش کے عنوان سے چھپا ہماری بہت سی ملاقاتیں اس شخصیت سے تھیں میٹنگوں میںا جلسوں میں جلوسوں میں کیونکہ نقابت کے فرائض میں نے انجام دینے ہوتے تھے تو ہم نے ہمیشہ اس جذباتی شخص کو جذباتی انداز میں بلایا لیکن اب کیسے بلائیں گے ؟
ڈھونڈو گے ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
اور تعبیر ہے جس کی حسرت و غم
اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

ہم ایک دھرنا کیس میں جو کہ ہم نے ڈی پی او آفس میں ڈی پی او کے دفتر کے سامنے بیٹھ کر دیا سب نے تقاریر کیں لیکن نجیب اللہ نیازی نے دھجیاں اڑا کے رکھ دیں وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا یہ اس کا مضبوط پہلو تھا یہ کمزور اس پر بہت سی آراء ہوسکتی ہیں لیکن جہاں اس کے ناقدین کی تعداد ہے وہاں اس کے معترف لوگ بھی کچھ کم نہیں بہر حال اس وقت سبھی افسردہ و ملول ہیں
ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دُکھا گیا
کہ شام غم تو کاٹ لی سحر ہوئی چلا گیا

نجیب اللہ کی ایک صفت جو بہت بڑی خوبی ہے ی ہتھی کہ وہ کسی سے الفاظ مستعار نہیں لیتا تھا اپنے الفاظ بولتا تھا جب بولتا تو الفاظ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے وہ الفاظ کا محتاج نہیں تھا الفاظ کی خوش بختی کہ وہ انہیں استعمال کرتا مگر بہت زیادہ محنت بہت کم وقت میں اس شخص کو خود کو منوانے کیلئے کرنا پڑ گئی ایک طویل جدوجہد کے بعد عوام کو ریلیف دینے لگاتو عوام کی قسمت نے ساتھ نہ دیا عوام اس شخص کو اپنا ترجمان سمجھتے تھے بھکر میں سابقہ پی پی پی کے دور میں شہباز شریف کا طلسم توڑنے کیلئے پنجاب میں ایک لسانی تحریک چلائی گئی جس میں بھکر سے کچھ خود ساختہ خود پسند لیڈر بلند آواز میں اپنے قد سے بڑی گفتگو کرنے لگے اور وقتی طور پر یوں محسوس ہوا کہ پنجاب لسانی طور پر تقسیم ہوجائے گا اس مسئلے بارے مقامی ہوٹل میں ایک قومی مذہبی جماعت نے ایک سیمینار کرایا لسانی تحریک کے ترجمانوں نے بھی گفتگو کی مگر پھر جب محبت امن اور اتفاق والے لیڈروں نے گفتگو کی تو یار لوگوں کے ہوش ٹھکانے آگئے مگر اس تقریب کا سہرا نجیب اللہ نیازی کے سر رہا اور اس نے دھوکے رکھ دیا آج بھی ان کی تقریر ہمارے ذہن و دل پر نقش ہے نجیب اللہ نیازی نے اپنی ذات کو ایک سائیڈ پر رکھ کر محبتوں اور قربانیاں دینے والوں کی وہ مثالیں پیش کیں کہ تمام ہال نے جس میں سیاسی سماجی شخصیات دانشور وکلاء ہمہ قسم مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے ان کی شخصیت کو کھل کر داد دی ان کی گفتگو کو خراج تحسین پیش کیا اور اس مجلس کے مہمان خصوصی کو جو خود اس تحریک کے بہت بڑے علمبردار تھے پسپائی اختیار کرنا پڑی اور نجیب اللہ نیازی کی تائید کرنا پڑ گئی ایک فقرے جو کہ روشنیوں سے بھرا تھا نجیب اللہ نیازی کی تائید کرنا پڑگئی ایک فقرے جو کہ روشنیوں سے بھرا تھا نجیب اللہ نیازی نے کہا کہ قربانیاں دینے والے عظیم لوگ ہوتے ہیں اس مملکت کی زیادہ قدر انہی کو ہے جس نے اس کیلئے قربانیاں دی ہیں اور میں انہیں سلام عقیدت پیش کرتا ہوں میں ہمیشہ ان کا معترف رہا ہوں اور رہوں گا ۔وہ کہا کرتے تھے
حق بات تہہ تیغ سردار کروں گا
یہ جرم گر بنتا ہے تو سو بار کروں گا

کتنی ہی باتیں ہیں کتنی ملاقاتیں ہیں جب تک ہم زندہ ہیں یاد رکھیں گے بھکر کی سیاست میں وہ شخص طوفان کی طرح آیا بگولے کی طرح چلا گی مگر بقول حکیم نبی خان وہ ہر دردمند دل میں نقش رہے گا کہ
راہ ہستی کا یہ دستور مقدر ہے جمال
نقش رہ جاتے ہیں انسان گزر جاتا ہے

نجیب اللہ نیازی نے ضلع بھکرکی سیاست کو عوامی رنگ دیا وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے عام آدمی کے در پر جاگیردار سرمایہ دار اور وڈیروں کو لاکر کھڑا کردیا ہے وہ ووٹ مانگنے پر مجبور ہیں انہیں غریب کے در کا فقیر بنادیا ہے بالکل صحیح بات ہے ہم قریب سے یہ بات جانتے ہیں پہلے ہم پسماندہ علاقہ کے غریب لوگوں پر ان کا حکم چلتا تھا مگر آج وہ غریبوں سے ووٹ کی خیر مانگنے پر مجبور ہیں اگر 5 سال میں پانچ لاکھ غریب ان کی کوٹھی کی حاضری دیتا ہے تو جاگیردار بھی چالیس دن الیکشن میں پانچ لاکھ غریبوں کی چوکھٹ پر دستک دیتا ہے جاگیردار کو فقیروں سے بھی ووٹ مانگنے پر مجبور ہونا پڑا ہے در حقیقت نجیب اللہ نیازی نے اس ضلع میں حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کیا اب ہمیں اس لہجے میں للکارنے والا کوئی نظر نہیں آتا کیونکہ جس گروپ کی وہ مخالفت کرتا تھادوسرے سوچ بھی نہیں سکتے وہ تو اپنے ساتھیوں کو بھی غلط بات پر برسرعام رگڑا لگا دیتا تھا اس کا کہنا تھا کہ
اپنے بھی خفاء مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ھلا ھل کو کبھی کہ نہ سکا قند

بہر کیف ایک اچھا انسان ہم سے رخصت ہوگیا ہماری بدبختی لیکن وہ ہر محفل میں ہر زبان پر ہمیشہ موجود رہے گا ہم ہمیشہ ان کی بلندی درجات کیلئے دعا گو رہیں گے ان کے پسماندگان کیلئے صبر دائمی کی دعا کرتے ہیں ان کے چاہنے والوں سے یہ ضرور التجا کریں گے کہ عظیم قومیں اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتیں اس کے جانیکے بعد ایصال ثواب کی محافل منعقد کریں ختم شریف پڑھوائیں اور لنگر تقسیم کریں ان کے باقی رہ جانے والے کام مکمل کریں خصوصاً انہوں نے جو غریب بچیوں کی شادی والا سلسلہ جاری رکھا اسے کبھی نہ رکنے دیں بیوائوں ، یتیموں اور غریب عوام کے وارث بنیں یاد رکھیں وہ ہم سے کبھی جدا نہ ہوگا اگر ہم نے جدا نہ کیا بقول مرشد کریم علامہ محمدا قبال
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

اللہ عزوجل اپنے محبوب پاک ۖ کے صدقے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین بحرمت سید المرسلین ۖ ۔
Syed Ali Husnain Chishti
About the Author: Syed Ali Husnain Chishti Read More Articles by Syed Ali Husnain Chishti: 23 Articles with 28803 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.