ہمارے ملک کے وزیراعظم نے گذشتہ عام انتخابات کے مہم کے
دوران ایک موقعہ پراپنی بلندہمتی ،بے پناہ قوتِ استمراراوربیباکی کی یوں
تمثیل بیان کی تھی کہ ان کے پاس ۵۶/انچ کا سینہ ہے اشارہ اس طرف تھاکہ وہ
بلند ہمت ،نڈر،بیباک اورجواں عزم وحوصلہ کے حامل ہیں۔مودی مہودیہ کی یہ بات
کہاں تک درست ہے اس کا اندازہ پاکستان کی طرف سے مستقل جنگ بندی کی خلاف
ورزی اور متواتر فائرنگ کے عمل شرارت سے لگایا جاسکتاہے موجودہ وزیراعظم نے
جوکچھ بھی کہا تھاکیا وہ ایک صرف لفظی کاریگری تھی یا پھراس بات کے
اندرکوئی دم خم بھی ہے۔ اس امرپرغورکیاجانا چاہیے کیونکہ پاکستان کواس وقت
منھ توڑجواب کی اشدضرورت ہے اورہماراپڑوسی بھی یہی چاہتا ہے کہ اس کو
بھرپورمن چاہی خوراک دی جائے۔ اس عمل سے یہ بھی واضح ہوجائے کہ ہم اینٹ کا
جواب پتھرسے دیناجانتے ہیں اگرکوئی ہمارے ساتھ بدنیتی کا ارادہ رکھتاہے
توہم پرلازم ہے اس کی اوقات کی عبرت انگیزتصویرکی رونمائی کرادیں اوریہ بھی
وضاحت کردیں کہ ہم ۵۶/انچ کا سینہ ایسے ہی نہیں رکھتے بلکہ اس دعوے کے اندر
صداقت بھی ہے ۔بالاتفاق یہ کارِنیک ہمارے ملک کے وزیراعظم ہی کرسکتے
ہیں؛کیونکہ ان کا سینہ۵۶/انچ کے دائرہ کا احاطہ کیے ہواہے لیکن بڑے افسوس
کیساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ۵۶/انچ سینہ والے وزیراعظم ریاست مہاراشٹر
اورہریانہ کے اسمبلی انتخابی مہم میں سرگرم ہیں۔الغرض خارجہ اموراور دفاعی
امور کے وزراء حضرات نے پاکستان کو منھ توڑ جواب اور من چاہی خوراک پیش
کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا ہے کیونکہ اب مزید چپ شاہ کا روزہ نہیں
رکھاجاسکتااور نہ ہی خاموشی اختیار کی جاسکتی ہے اور نہ ہی معصوم شہریوں کی
ہلاکت برداشت کی جاسکتی ہے۔ آخرپاکستان چاہتا کیا ہے ؟اس بزدلانہ حرکت کی
وجہ کیا ہے․؟کیا وہ امن کا دوست نہیں بلکہ امن سے ازلی دشمنی ہے؟یہ درست
اور بالکل مسلّم ہے کہ جنگ سے کسی بھی ملک کا بھلا نہیں ہواہے بلکہ
مزیدمعاشی اوراقتصادی بحران کاسامناکرناپڑتا ہے اور پھرماضی میں دونوں ملک
کے درمیان جوبھی جنگ ہوئی ہے اس کاکیا نتیجہ برآمدہوا؟اس کوپاکستان بھی
اچھی طرح سے جانتاہے کہ کارگل کے بعد پاکستان کو کس معاشی اوراقتصادی بحران
سے گذرناپڑ۔اہندوستانی حکومت اس کو اچھی طرح سمجھ رہی ہے اور یہ بھی جانتی
ہے کہ ہمارا پڑوسی خود اپنے پاؤں پرکلہاڑی مارنے کے اصرارپربضدہے،ہندوستانی
حکومت اس سے بھی باخبرہے کہ اگردونوں ملک میں جنگ ہوئی تو نقصان دونوں کا
ہوگامگرپاکستان کی ہٹ دھرمی اورپاگل پن ہے کہ وہ باربارلائن آف کنٹرول
پراپنے لیے ہوئے حلف اورقسم کی بے حرمتی اور بے توقیری کواپناشعارسمجھ رہا
ہے۔ اگرہندوستان بھی اسی کولازمی خیال کرلے توپھر خطہ کی کیا صورتحال
ہوسکتی ہے اس کربناک منظر کو تمام لوگوں نے کارگل کی جنگ کے بعد دیکھاہے
اور ادراک کیا ہے کہ جنگ سے کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتالیکن ایک
ہماراپڑوسی پاکستان ہے جوبارباراپنی عقل وخرد کی گمرہی ، ازلی عنا د
اوردشمنی کا یوں اظہارکرتاہے کہ امن وامان کے بجائے خوف وہراس اور سراسیمگی
پھیل جاتی ہے اور اس کی سرشت وجبلت سے وابستہ فطرت بھی عیاں ہوجاتی ہے ۔پاکستانی
فوج کی طرف سے یہ کوئی نیااور پہلاعمل نہیں ہے بلکہ از تقسیم تادم تحریر
ہزاربار فائرنگ اور وحشیانہ عمل کا ارتکاب کیا ہے کارگل یاپھراس جیسی دوسری
جنگ کا آخر کیا نتیجہ نکلا؟سوائے نقصان اور معاشی بحران کے کچھ بھی ہاتھ نہ
آیاادھر کے بھی لوگ مارے گئے اورادھر کے بھی کچھ لوگ اپنے کیے کی سزاپائے
کیونکہ جنگ کایہی ایک نتیجہ برآمدہوتاہے تمام سوالات اپنی جگہ سب سے اہم
نقطہ فکر یہ ہے کہ پاکستانی حکومت کی طرف اس بزدلانہ حرکت سے کیاچاہتی ہے
آیاوہ امن چاہتی ہے یاپھراپنے ملک کی طرح اس ملک کوبھی آتش نمرود میں
جھلستادیکھناچاہتی ہے؟واضح ہوکہ پاکستان اپنے روزازل سے ہی قتل وخون، خانہ
جنگی اورمارکاٹ نیزمقدس اسلام کے نام کی تقدیس وتحریم کی پامالی نیز مسلکی
نزاع کابدترین مثالی ملک بن گیا ہے اور یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی
ہے کہ مملکت خداداد کاشایدہی کوئی ایسادن گذرتاہوگاجس میں کسی معصوم کابیجا
خون نہ بہا ہولوٹ کھسوٹ اور ڈکیتی کے واقعات روزکی کہانی بن گئے ہوں اورحب
جاہ اورطول امل نے اپنی ایک نئی دنیابسی رکھی ہو وہ ملک پاکستان کہلاتاہے
جب اس پاکستان کی یہ صورتحال ہے تو پھراس نازک اورسنگین لمحہ میں کسی ملک
سے جنگ کیلئے آمادگی کا اظہارکرنا ’’آبیل مجھے مار‘‘کے مصداق نہیں
ہے؟پاکستان پہلے اپنے خارجہ پالیسیوں اورداخلی امورکی طرف نظر کرے کہ اس
کاملک خود اس وقت کسی دوسری ’’آتشِ حرص‘‘میں جل رہا ہے اس کو ٹھنڈاکرے
داخلی اورخارجی امور کی ازسرنوتجدیدکرے پھرکسی ملک سے اپنی اس
حماقت(جنگ)کااعلان کرے۔یہی کارِخوداحتسابی پاک کیلئے سودمند ہے ۔
۷/دن سے مستقل فائرنگ اورتابڑتوڑگولہ باری سے پاکستانی حرکتوں اور اس کی
ناپاک سازشوں کایہ اظہارہورہا ہے کہ وہ امن اورخطہ میں خوشحالی سے کوئی
دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ اسے صرف جنگ وجدال اور معصوم شہریوں کی ہلاکت سے
خداواسطے دلچسپی ہے اوریہی نہیں بلکہ اس حماقت پرحیرانی ہوتی ہے کہ ایک طرف
خودپاکستان داخلی سازشوں اورفتنوں سے برسرِپیکارہے تو وہیں دوسری طرف اپنے
زخم کے کرب ِمسلسل کے باوجودخطہ میں دوملک کی جنگ کی آگ کوبھڑکارہا ہے جب
کہ پاکستان کی یہ مجموعی کیفیت ہے کہ عمران خان اورطاہرالقادری موجودہ
حکومت سے دودوہاتھ کیلئے تیارہیں بلکہ۱۴/اگست سے ہی میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں
اور’’انقلاب و آزادی ‘‘کے خواہاں ہیں وہاں کی عوام مکمل طورسے عمران
فوبیاکاشکارہوچکی ہے اورہرطرف ’’گونوازگو‘‘کے نعرے لگ رہے ہیں،ہرایک
دیوارپر’’گونوازگو‘‘کانعرہ تحریرہے حتی کہ سوشل سائٹس اور قومی کرنسی پربھی
عوامی غیظ وغضب کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں کہ لوگوں نے وہاں کی کرنسی کی
کیادرگت بنارکھی ہے ،عوام تبدیلی اقتداراورانقلاب چاہتے ہیں تاہم نواز
حکومت کی دلیری کہ وہ ان چیزوں کوخاطرمیں ہی نہیں لاتی وہیں پاکستان کیلئے
ایک سب سے بری خبر ہے کہ پاکستانی تحریک طالبان نے داعش جنگجوؤں کی امداد
وحمایت کااعلان کرکے نواز حکومت کے منھ پرزوردارطمانچہ رسید کیاہے جس سے
صاف ظاہر ہوتاہے کہ ’’ضربِ عضب ‘‘مہم مکمل طورپرناکام اورفلاپ ہوگئی اوراس
کے خاتمہ اور قلع قمع کے مزید اس کی طاقتوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔اس اعلان
سے نواز حکومت کی بے چینیوں میں بھی اضطراب پھیل گیاہے کہ ایک طرف توعمران
اورقادری کے طوفان سے نبردآزمائی کرنی پڑرہی تھی اب ایک نئے طوفان سے
آشناہوناپڑرہاہے ۔الغرض مجموعی تاثریہ ہے کہ پاکستان اس وقت سخت بدترین
داخلی اورخارجی انتشارکا شکارہے اوریہ کیفیت اورمثبت خیزنتیجہ برآمدہوتاہے
کہ پاکستان کیلئے جنگ کسی بھی صورت میں بہتر نہیں بلکہ ہلاکت آفرینی کی سمت
دعوت ہے۔اصل واقعہ اور ان تمام احوال کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نواز حکومت
اپنی متذکرہ ناکامی اور خفت کوچھپاناچاہتی ہے اور عوامی توجہ جوسونامی
یاانقلابی شکل میں پاکستان کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہے اس کواس جانب سے
ہٹاکر اس طرف مبذول کرائیں تاکہ اس کے خلاف ہونے والے ملک گیرہڑتال ،تحریکیں
اوربغاوتی اقدامات تھم جائیں اورکچھ لمحے آرام کے حاصل کیے جائیں یہی وجہ
ہے کہ پاکستان داخلی وخارجی انتشارکے باوجودمسلسل ہفتہ بھرسے جنگ بندی
معاہدہ کی خلاف ورزی نیزبھارت کیساتھ اپنی بزدلانہ حرکتوں کابھی اعادہ
کررہا ہے اگرنوازحکومت اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کومحسوس نہیں کرتی تواس
نازک وقت میں جنگ کیلئے اپنی آمادگی اوردلچسپیوں کایوں اظہارنہیں کرتی اور
نہ ہی فائرنگ کرکے ملک کے عوام کی توجہ اس طرف مبذول کراتی ۔
مودی مہودیہ اورموصوف کے ماتحت وزیرباتدبیر کے ’’منھ توڑجواب‘‘کے اعلانات
کسی حدتک درست بھی ہیں توکسی حدتک عدم جوازکابھی احاطہ کیے ہوئے ہیں یہ
وقتی مصلحت ہے کہ منھ توڑجواب دینے کا حکم دیا ہے لیکن اس وقت تک جوخبریں
موصول ہورہی ہیں اس سے یہی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ کسی بھی وقت دونوں ملک
میں ایک بارپھرکارگل جیسی جنگ ہونے کاخدشہ ہے۔اگرہندوستان مصلحتاَاقدام سے
گریزاں ہے تو یہ عمل ہندوستان کیلئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کیلئے بھی
سودمندہے کیونکہ جنگ کاکچھ بھی حاصل نہیں۔یہ تونوازحکومت اوراس کی خارجہ
پالیسیوں کے بدترین مضمرات ہیں کہ وہ اپنی حماقت کاسرِعام مظاہرہ کررہی ہے
’’کہ آبیل مجھے مار‘‘۔ہندوستانی حکومت صرف اورصرف اس جگہ دفاعی اقدامات
کوہی اپنی ترجیحات بنایاہے اورکسی بھی اقدامی کاروائی سے کلی اجتناب کیاہے
اورپھریہی نہیں بلکہ اس امر کوضروری خیال کیاہے کہ ان خطوط کونوازحکومت کے
سامنے رکھے جائیں جوخطہ میں امن وامان کوبرقراررکھنے میں معاون ثابت ہوں۔
کاش خطہ میں امن وامان کی صورتحال برقراررہے لیکن ایسالگتانہیں ہے کہ
پاکستان امن کواپناشعاراورانسانی فریضہ خیال کرے گااور اس کی فطرت میں
خودقدرت نے ایسی شی ودیعت کی ہے کہ لاکھ عہدوپیمان کے باوجوداس امر کوموجب
ِحق وصواب تصورکیاجاتا ہے جوکسی بھی طرح سے نہ انسانیت کاتقاضاہے اورنہ ہی
مقدس اسلام اس کی اجازت دیتاہے بلکہ یہ اپنی دھن میں بقول امجداسلام
امجدجواتفاق سے پاکستان کے ہی مشہورکالم نگاراوربلندپایہ شاعرہیں اوریہ بھی
اتفاق ہے کہ وہ کچھ دن قبل ہندوستانی دورہ پرتھے
جستجوئے جاں کوامجد میں براکیسے کہوں
جب بھی سامنے آیاتو،وہ بے وفااچھالگا
یہ پاکستان کی اپنی ستم شعاری ہے کہ وہ اسی ’’جستجوئے جاں‘‘کواپنافریضہ
خیال کرتا ہے جس کی تلاش ماضی میں لاکھوں افرادکرچکے ہیں لیکن ان کواس سے
کچھ بھی منفعت حاصل نہ ہوسکی ہے ۔اگرجنگ نہ ہو تو یہ دونوں ملک کے حق میں
بہتر ہے کیونکہ اس سے سراسرنقصان ہی ہے۔ |