اقبال کی یادیں
(Farrukh Shahbaz, Lahore)
نومبر کے آغاز سے ہی مجھے لگا صرف ایک دن نہیں ،نومبر کا پورا مہینہ ہی
مرشد کا ہونا چاہیے۔کہیں سے روایت آئی کہ جی ایک دن مقرر کیجیے،علامہ اقبال
کی طرف دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ایک ماہ بھی تقریبات کا اہتمام کرکے ہم ان
کے احسانات کا بدلہ اتار سکتے۔نوجوان نسل مکمل طور پر علامہ سے بے نیاز نظر
آتی ہے،نہ کسی نے بتایا نا ہی کوئی زحمت کرتا۔دنیا میں ایسی عزت کسی شاعر
کے حصے میں نہیں آئی ۔آج پوری دنیا یہاں تک کے مغرب میں اقبال کو نصاب میں
شامل کیا جا رہا ہے۔عرب والے سیکھ رہے ہیں سمجھ رہے ہیں اور ہم اسی بات پر
فخر کر رہے ہیں کہ اقبال ہماری مٹی میں پیدا ہوا۔کسی معاشرے کی بدقسمتی یہ
ہوا کرتی ہے جب لوگ مفکر کی فکر سے بیگانے ہوکر بس اس کے دن منانا شروع کر
دیتے ہیں۔یہ دو ماہ پہلے کی بات ہو گی جب ان سطور کے لکھنے والے نے فرزند
اقبال ،نرم لہجے والے والے جاوید اقبال سے رابطہ کیا انہوں نے نومبر کے
آغاز میں ملاقات کے لیے بلا لیا خوشی کی کیفیت میں ،میں ملاقات کے لیے
پہنچا۔خواہش یہ تھی علامہ کے واقعات انھی کی زبانی سنوں گا،جستجو،تلاش،چاہت
لیے گھنٹوں علامہ اقبال کی تصاویر،ان کے زیر استعمال رہنے والی اشیا کو
دیکھتا رہا،چھو کر دیکھتا رہا۔محترم جاوید اقبال بھی اچھے خاصے بزرگ ہوچکے
ہیں لیکن آج بھی چاک و چوبند نوجوان کی طرح نظر آتے ہیں۔میں آپ کے اور
جاوید اقبال صاحب کے درمیان زیادہ دیر حائل نہیں ہونا چاہتا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب علامہ لاہور کے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں رہائش
پذیر تھے۔ اس کے پچھواڑے میں ایک میدان تھا۔ جس میں اکثر پانی بھرا رہتاتھا
اور مینڈک ٹراٹرا کر ساری رات سونا حرام کردیتے۔ جاوید اقبال کی والدہ نے
علامہ سے اس کی شکایت کی تو آپ ہنس پڑے اور بولے ۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔
لوگ شب بیداری کے لیے کیا جتن کرتے ہیں لیکن آپ کے لیے قدرت نے خود ہی
انتظام کردیا ہے۔ اس لیے مینڈکوں کو برا بھلاکہنے کی بجائے اﷲ اﷲ کیجیے۔
٭علامہ اقبال سے ان کے دوست نے کہا۔ آپ کی نظم پر ایک صاحب سخت تنقید کررہے
تھے ۔ اقبال نے پوچھا ۔ کیا وہ شاعر ہیں ؟ دوست نے جواب دیا نہیں۔ اقبال نے
سنجیدگی سے کہا جو لوگ کچھ کرتے ہیں وہ اکثر خاموش رہتے ہیں۔ لیکن جو کچھ
نہیں کرتے وہ صرف تنقید کرتے ہیں۔
٭عمر کے آخری حصہ میں علامہ صاحب کو شوگر کا مرض لاحق ہوگیاتھا جس کے باعث
حکیم صاحب نے آم کھانے سے منع کردیا۔ چونکہ علامہ صاحب کو آم بہت ہی پسند
تھے لہٰذا بحث کے بعد حکیم صاحب نے صرف ایک آم روزانہ کھانے کی اجازت دے دی۔
کچھ دنوں بعد حکیم صاحب اپنے مریض کے طبی معائنہ کے لیے آئے تو علامہ صاحب
کے تکیہ کے پاس طشتری میں ایک بڑا سا سیر (کلو) کے لگ بھگ آم پڑا پایا ۔
حکیم صاحب نے آم کی طرف اشارہ کرکے غصے سے پوچھا’’کیوں صاحب یہ سب کیا ہے؟
‘‘ علامہ صاحب نے نہایت معصومیت سے جواب دیا ’’یہ صرف ایک ہی آم ہے۔ ‘‘
جس دن میں زمین پر سوتا تھا ،اس دن علامہ بہت خوش ہوتے۔انہیں میرا زمین پر
سونا بہت پسند تھا۔
میں والد محترم کی زندگی کی آخری رات ۲۰ اپریل ۱۹۳۸ء کو رات کے ۹ بجے میں
علامہ صاحب کی خدمت میں حاضرہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا ’’کون ‘‘میں نے
جواب دیا ’’میں جاوید ہوں ۔‘‘ ہنس پڑے اور بولے ’’جاوید بن کر دکھاؤ تو
جانیں ۔ ‘‘ پھر قریب بیٹھے ہوئے چودھری محمد حسین سے مخاطب ہوئے چودھری
صاحب اسے میرے ’’جاوید نامہ ‘‘ کے آخیر میں وہ دعا ’’خطاب جاوید ‘‘ ضرور
پڑھوا دیجیے گا۔ بیسویں صدی کے عظیم انسان کی زندگی کے آخری لمحات میں وصیت
کے رنگ میں اپنے بیٹے کے ساتھ یہ آخری شگفتہ مزاجی تھی۔
یہ بچہ بچپن ہی سے شوخ طبیعت واقع ہواتھا۔ ایک روز جب اس بچے کی عمرابھی
صرف گیارہ سال ہی تھی ۔ یہ بچہ کسی وجہ سے سکول سے لیٹ ہو گیا۔عام طورپریہ
بچہ وقت کی پابندی کا قائل تھا۔ سکول پہنچنے پر سکول کے ماسٹر صاحب جو بچے
کے دیر سے آنے پر غصہ میں تھے۔ ناراضگی کے تاثرات چہرے پر سجائے ماسٹر صاحب
نے پوچھا اقبال تم دیرسے کیوں آئے ہو؟اس کم عمربچے جس کانام اقبال تھا۔ اس
بچے نے بے ساختہ جواب دیا۔ جی ہاں اقبال ہمیشہ دیر سے آتاہے۔ استاد ایک دن
بازار سے گزر رہے تھے اور گود میں ایک بچہ اٹھا رکھاتھا ، جس کا نام احسان
تھا۔ اقبال نے استاد کو بازار سے گزر تے دیکھا تو آگے بڑھ کر سلام کیا ۔
استاد نے سلام کا جواب دیتے ہوئے بچے، احسان کو اقبال کی گود میں دے دیا۔
بچہ موٹا تازہ تھا ، اس لیے اقبال تھوڑی دور چلنے کے بعد تھک گئے تو سستانے
کے لیے رک گئے۔ استاد نے مڑ کر دیکھا تو اقبال سے مسکراتے ہوئے کہنے لگے :اس
کی برداشت بھی دشواری ہے ۔ اس پر اقبال نے فوراً جواب دیا : تیرا احسان بہت
بھاری ہے۔ یہ سن کراستاد مولوی میر حسن نے اقبال کو شاباش دی ۔ ‘‘اس ذہین و
فطین بچے نے اپنی سوچ اور علم کی بدولت اتنی بلندی حاصل کی۔آج ہم اس بچے کو
علامہ اقبال کے نام سے جانتے ہیں۔ہم ہر سال نومبر میں علامہ اقبال کے حوالے
سے مختلف سیمینار اور پروگرامز منعقد کرتے ہیں۔لیکن اس مرتبہ ہم نے ان سب
سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مفکر پاکستان کی سوچ اور فکر پر عمل بھی کر کے
دکھانا ہے۔ |
|