تھر کے لوگ بھی کتنے ’’بے چارے‘‘
ہیں۔ چند ماہ قبل جب میڈیا پر تھر کا ذکر آیا تو یہ توقع ہو چلی تھی کہ اب
وہاں کے باسیوں کے دلدر دور ہونے کا وقت آگیا ہے، مگر اب ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ تھر میں خدمت پر سیاست غالب ہوتی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ
قومی موومنٹ میں جو لڑائی کراچی کے ایشو پر شروع ہوئی تھی، وہ اب تھر میں
لڑی جارہی ہے۔ دونوں تھر کی صورت حال کا ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے
ہیں۔ حکومت پہلے بھی کوئی خاص سنجیدہ نہیں تھی، لیکن جب سے سیاست بازی شروع
ہوئی ، وہ متحرک ہونے کی بجائے صرف بیان بازی میں لگ گئی ہے۔ یہ کہنا کہ
وزارت صحت ایم کیو ایم کے پاس تھی، اس لیے صورت حال کی ذمہ دار وہ ہے، ہضم
نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تھر کے مسائل کا تعلق صرف صحت سے نہیں اور
دوسری بات یہ کہ اگر متحدہ کا وزیر نااہل تھا تو وزیر اعلیٰ نے اس کے خلاف
کارروائی کیوں نہیں کی؟ وہ کیوں آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہے؟
پہلے بھی ایک کالم میں گزارش کرچکا ہوں کہ تھر کا معاملہ صرف گورننس اور
سنجیدگی کے گرد گھومتا ہے۔ 1970ء کے بعد سے سندھ پر 18 سال پیپلز پارٹی کی
حکومت رہی، اب بھی وہی حکمران ہے ۔جبکہ باقی عرصے میں غوث علی شاہ، لیاقت
جتوئی، جام صادق، ارباب رحیم جیسے مسلم لیگی صوبے پر حکومت کرتے رہے ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ جیالے اور متوالے وزرا ئے اعلیٰ میں سے کوئی ایک بھی ایسا
نہیں ہے، جس کے دور حکومت کو عوامی خدمات کے حوالے سے مثالی قرار دیا
جاسکتا ہو۔ لیگی وزرا ئے اعلیٰ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے جوڑ توڑ اور
’’بڑوں‘‘ کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں، عوام کی طرف توجہ دینے کے لیے ان
کے پاس کوئی وقت نہیں ہوتا۔ جبکہ پیپلز پارٹی ہمیشہ بھاری مارجن سے حکومت
بناتی ہے، اس لیے اسے عوام کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی کا حکمرانی
کا اصول ’’کھلا کھاؤ، ننگا نہاؤ‘‘ ہے، اس پر یہ بڑی دل جمعی سے عمل پیرا
رہتی ہے۔ وزیر مشیر خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے نعرے بازوں کو بھی دل کھول
کر نوازتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے عوام کے لیے نہ پہلے کبھی انقلابی منصوبے
شروع کیے ہیں اور نہ اب اس کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں، وہ صرف نقد پیسا
بانٹتی ہے۔ تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر وغیرہ کو وہ کسی کھاتے میں نہیں لاتی۔
یہی کچھ تھر کے ساتھ ہوا ہے۔
تھر میں جب بھی قحط پڑتا ہے، حکمران میڈیا کی موجودگی میں گندم کی کچھ
بوریاں اور نقد امداد تقسیم کرکے چلتے بنتے ہیں۔ کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا
قحط زدہ خاندان ایک بوری گندم اور ہزار روپے میں کتنے روز زندہ رہ سکے گا؟
اب بھی یہی ہورہا ہے، حکومت اور سماجی اداروں کی ساری توجہ صرف امداد کی
تقسیم پر ہے، اس میں شبہ نہیں کہ وہاں کے لوگوں کو فوری طورپر خوراک اور
علاج معالجے کی ضرورت ہے، جو لوگ وہاں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کررہے
ہیں، عارضی میڈیکل کیمپ لگائے ہوئے ہیں، وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں، مگر یہ
مسئلے کا حل نہیں ہے۔ 15 لاکھ کے لگ بھگ لوگوں میں کب تک راشن تقسیم کیا
جاسکتا ہے؟ اور کیا لوگوں کو صرف امداد ہی پر گزارا کرنے کا عادی بنانا
درست عمل ہے؟
تھر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ذرائع معاش نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے وہاں
بیش تر لوگ انتہائی خستہ حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اسکولوں کی عمارتیں
تو جگہ جگہ نظر آئیں گی، مگر ان میں آپ کو بچے ملیں گے اور نہ ہی اساتذہ کا
دیدار ہوگا۔ دراصل اسکولوں کی یہ عمارتیں عوام کو جہالت کے اندھیروں سے
نکالنے کے لیے نہیں بنائی گئیں، بلکہ یہ ایک طرح کی سیاسی رشوت ہے۔ ہر گاؤں
کے بااثر شخص کو خوش کرنے کے لیے اسے ایک اسکول بنا کر دے دیا گیا ہے، جسے
وہ اوطاق کے طورپر استعمال کرتا ہے۔ اساتذہ کی بھرتیاں بھی خالصتاً سیاسی
بنیادوں پر کی گئیں، بیش تر اساتذہ ڈیوٹی پر آنے کا تکلف نہیں کرتے اور کسی
میں ہمت نہیں کہ ان سے باز پرس کرلے۔ محکمہ صحت بھی کب کا ’’مرحوم‘‘ ہوچکا
۔ ایسا نہیں ہے کہ تھر میں سرکاری ہسپتالوں کی کمی ہے، جگہ جگہ ہسپتال بنے
ہوئے ہیں، مگر وہاں عملہ ہے نہ ادویہ۔ ڈاکٹر وہاں ڈیوٹی دینے کی بجائے شہری
علاقوں میں اپنے نجی کلینک چلاتے ہیں۔ تھر کے طلبہ کے لیے سندھ کے میڈیکل
کالجوں میں باقاعدہ نشستیں مختص ہیں ،لیکن یہ بھی ایک الگ کہانی ہے۔ مٹھی
اور ڈیپلو میں رہنے والے لوگ مالی طورپر خوش حال ہیں، ان لوگوں نے حیدر
آباد اور کراچی میں اپنے کاروبار پھیلائے ہوئے ہیں، ان کے بچے بڑے شہروں کے
بڑے اسکولوں میں پڑھتے ہیں، لازمی بات ہے ان کا تعلیمی معیار تھر کے دور
دراز علاقے میں زیر تعلیم طلبہ سے بہت بلند ہوگا۔ جب میڈیکل یا انجینئرنگ
یونی ورسٹی میں داخلے کا مرحلہ آتا ہے تو شہروں میں رہنے والے لوگوں کے بچے
تھر کے ڈومیسائل کی بنیاد پر اس علاقے کی مختص نشستوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔
یہ طلبہ ڈاکٹر بننے کے بعد بھی تھر کا رخ نہیں کرتے، بلکہ اپنے والدین کی
طرح کراچی، حیدر آباد یا کسی اور شہر میں جا بستے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں،
تھر کے ڈومیسائل پر ڈاکٹر بننے والوں سے تھر کے لوگوں کو کیا فائدہ ہوا؟ یہ
ایک سنجیدہ معاملہ ہے، باہر سے کوئی ڈاکٹر صحرائی علاقے میں جانے کو تیار
نہیں اور صحرائی علاقے سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر اپنے علاقے میں آتا نہیں،
اب عوام کو طبی سہولیات کیسے ملیں؟ حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کرنا
چاہیے۔کوئی ایسا قانون بنایا جاسکتا ہے جس کے تحت تھر کے ڈومیسائل کی بنیاد
پر ڈاکٹر بننے والوں کو کم از کم 10 سال تھر میں خدمات انجام دینا لازم ہو۔
تھر کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ ایک تو زیر زمین پانی انتہائی نمکین ہے
اور دوسرا یہ ملتا بھی بہت گہرائی میں ہے۔ اس علاقے میں سب سے قیمتی چیز
میٹھا پانی ہے، جو کہیں کہیں دستیاب ہے۔ ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی تک تو کسی نہ
کسی طرح میٹھا پانی پہنچ جاتا ہے، کیوں کہ وہاں افسران رہتے ہیں اور کراچی
میں بزنس کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی یہیں رہتی ہے۔ یہ لوگ منرل واٹر خرید
سکتے ہیں اور خریدتے ہیں۔ مگر مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو دیہی علاقوں میں
رہتے ہیں۔ اگر آپ آج بھی غور کریں تو تھر کے شہری علاقوں مٹھی، ڈیپلو اور
اسلام کوٹ وغیرہ میں قحط جیسی کوئی صورت حال نہیں ، وہاں کے لوگ علاج
معالجہ بھی کرالیتے ہیں۔ اصل مسئلہ بے چارے دیہاتیوں کا ہے، جو لاکھوں کی
تعداد میں ہیں۔ حکومت اور سماجی اداروں کو منرل واٹر کی بوتلیں تقسیم کرنے
کے ساتھ ساتھ پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کرنے پر بھی سوچنا چاہیے۔
یہ کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔ بارڈر کے اس پار بھی صحرا ہے ،لیکن بھارت نے
اپنے علاقے میں میٹھا پانی پہنچادیا ہے۔ جب بھارت اپنے صحرائی علاقے میں
بجلی، سڑکوں اور میٹھے پانی کی پائپ لائنوں کا جال بچھا سکتا ہے تو یہ کام
ہماری حکومت کیوں نہیں کرسکتی؟ بات یہی ہے کہ تھر کا معاملہ صرف گورننس اور
سنجیدگی کا ہے، اگر آج حکومت وہاں اداروں کی سمت درست کردے اور تہیہ کرلے
کہ اسے اگلے چند برسوں میں تھر کو بدلنا ہے، تو یقین جانئیے بہت کچھ بدل
جائے گا۔ |