سانحہ پشاور: پوری دنیا ورطہ حیرت میں....!
(عابد محمود عزام, karachi)
16دسمبر کو پشاور میں قیامت
صغریٰ برپا ہونے کے بعد پوری قوم دکھ، درد، تکلیف، غم اور پریشانی سے نڈھال
ہے۔ اس دہشتگردی کے سامنے جارحیت، درندگی، سفاکیت اور حیوانیت جیسے الفاظ
بھی بہت چھوٹ معلوم ہوتے ہیں۔ پوری دنیا ورطہ حیرت میں ڈوبی ہوئی ہے کہ
اٹھانوے فیصد مسلمانوں کا ملک پاکستان کیسی دھرتی ہے، جہاں بغیر کسی جرم کے
کھلنے سے پہلے ہی پھولوں کو مسل دیا گیا۔ اس انہونی پر ہر ذی شعور غم،
غصّہ، نفرت اور بیچارگی کے امڈتے جذبات کے ساتھ سرتاپا شرمندگی کے عالم میں
ہے کہ کس طرح پھولوں کی مانند معصوم بچوں کے قتل عام پر ان کے والدین کو
ضبط اور صبر کی تلقین کرے، جن کے جگر گوشے چھین لیے گئے ۔ یہ بچے تو ابھی
ان کھلی کلیوں کی مانند تھے، جو ابھی پوری طرح کھلی بھی نا تھیں۔ روشنی کے
ننھے چراغوں کو اپنی روشنی پھیلانے سے پہلے ہی گل کردیا گیا۔ قاتل ان
معصوموں کے خون کی ہولی کھیلتے رہے اور ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اتارتے
رہے، پہلے ایک بچے پر گن تانی، پھر دوسرے پر اور پھر تیسرے پر اور اس طرح
درندگی کا یہ کھیل تب تک جاری رہا، جب تک قاتلوں کا بس چلا۔ پشاور میں آرمی
پبلک اسکول پر حملے میں فائرنگ سے زخمی ہوجانے والے ایک طالبعلم سلمان
(فرضی نام) نے میڈیا کو بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی اسکول کے آڈیٹوریم میں
کیرئیر گائیڈنس سیشن میں شریک تھے، جب سیکورٹی اہلکاروں کی وردیوں میں
ملبوس چار افراد وہاں گھس آئے۔ کسی نے چیخ کر ہمیں ڈیسک کے نیچے چھپ جانے
کا کہا، جس کے بعد مسلح افراد نے فائرنگ کھول دی۔ ایک حملہ آور نے چیخ کر
کہا کہ متعدد بچے بینچوں کے نیچے چھپے ہوئے ہیں، وہاں جاﺅ اور انہیں مار
دو۔ مجھے اس وقت تک دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگ چکی تھیں اور میں نے بڑے
سیاہ جوتوں کو اپنی طرف آتے دیکھا، جو چھپے ہوئے طالبعلموں کو ڈھونڈ کر مار
رہا تھا۔ زخم کی وجہ سے شدید تکلیف ہورہی تھی، مگر میں نے بچنے کے لیے مرنے
کی اداکاری کا فیصلہ کیا اور اپنی ٹائی کھول کر منہ میں ڈال لی تاکہ تکلیف
سے چیخ نہ سکے۔جبکہ مسلح شخص طالبعلموں کو ڈھونڈ کر ان پر گولیاں برسا رہا
تھا۔ تاہم سلمان نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور خود پر فائرنگ کا انتظار
کرنے لگا۔ سلمان کے مطابق میرا جسم کانپ رہا تھا، میں نے موت کو بہت قریب
سے دیکھا تھا اور میں کبھی ان سیاہ جوتوں کو نہیں بھول سکتا، جو میری جانب
بڑھ رہے تھے اور مجھے لگ رہا تھا کہ موت میری جانب آرہی ہے۔ وہ مسلح افراد
کچھ دیر بعد وہاں سے چلے گئے، جس کے بعد میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو
زخموں کی وجہ سے پھر گیا، اس کے بعد میں اگلے کمرے میں رینگتا ہوا پہنچا۔
پشاور میں پیش آنے والے المناک سانحے کے بعد ہر پاکستانی، ہر مسلمان اور ہر
انسان کربناک کیفیت کا شکار ہے۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں کے
حملے میں 132 بچوں سمیت 144 افراد کی شہادت پر ملک بھر کی فضا انتہائی
سوگوار ہے۔ ملک بھر میں 3 روزہ سوگ منایا جارہا ہے۔ ملک بھر میں شہدا کے
ایصال ثواب کے لیے خصوصی دعائیہ تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔ اہم سرکاری، نیم
سرکاری اور خودمختار قومی و صوبائی اداروں کی عمارات پر قومی پرچم سرنگوں
ہے۔ پشاور سمیت ملک کے بیشتر چھوٹے بڑے شہروں میں تاجر برادری نے قوم کے
جگر گوشوں کے بچھڑ جانے پر کاروباری سرگرمیاں بند کی ہیں، جبکہ پاکستان بار
کونسل کی اپیل پر ملک بھر میں وکلا برادری نے بھی احتجاج کیا ہے۔ خیبر
پختونخوا کا ہر گھر نوحہ کناں ہے۔ صوبے بھر کے تمام سرکاری ، نیم سرکاری
اور نجی تعلیمی ادارے بند رہے۔ پشاور میں تمام کاروباری اور تجارتی
سرگرمیاں بھی مکمل طورپربند رہیں۔کور ہیڈکوارٹرپشاور میں اسکول سانحہ کے
شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف
سمیت گورنر خیبرپختونخوا سردار مہتاب عباسی، وزیراعلی پرویز خٹک، اسپیکر
اسد قیصر، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، آئی جی
خیبرپختونخوا ناصر درانی سمیت دیگر اہم سیاسی و عسکری شخصیات نے شرکت کی۔ان
کے علاوہ بھی ملک بھر کے مختلف شہروں میں شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ ادا
کی گئیں۔ پشاور کے کاونٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پولیس اسٹیشن میں پولیس کی جانب
سے آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں کے بےہیمانہ حملے کا مقدمہ درج کر لیا گیا
ہے۔
دوسری جانب سانحہ پشاور کی وجہ سے پوری قوم ایک صفحے پر متحد نظر آرہی ہے۔
تمام حریف و حلیف سیاسی جماعتیں بھی فی الحال اپنے تمام اختلافات بھلا کر
ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی ہیں۔ بدھ کے روز وزیراعظم کی زیرصدارت
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بھی پشاور میں ہوا، جس میں پاکستان تحریک انصاف
کے چیئرمین عمران خان، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ،
اعتزاز احسن، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان، قومی وطن
پارٹی کے آفتاب شیر پاؤ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور رکن قومی
اسمبلی طارق اللہ ،جے یو آئی (ف) کے مولاناعبد الغفور حیدری اور اکرم
درانی، ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ،
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان، وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید اور
وزیراعظم کے مشیر امیر مقام شریک ہوئے۔پوری قومی قیادت نے مل کر آخری دہشت
گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ پشاور کے اسکول میں معصوم
طلبہ کو نشانہ بنانے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے سزائے موت پر عاید
پابندی اٹھانے کی منظوری دے دی ہے،اس سے قبل سابق حکومت نے عالمی دباؤ پر
پھانسی کی سزا پر پابندی عاید کی تھی۔ جبکہ صدر ممنون حسین نے 55 مجرموں
سمیت 8 دہشت گردوں کی رحم کی اپیلیں مسترد کردی ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان
میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہے کہ دہشتگردوں کی جانب سے اسکول پر حملہ
انسانیت اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ آج پوری قوم غم میں ڈوبی ہوئی ہے۔
یہ حملہ کرنے والے انسان کہلانے کے حق دار نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق سانحہ
پشاور کا منصوبہ افغانستان میں بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے،جس کے بعد آرمی
چیف جنرل راحیل شریف پشاور حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کی حوالگی کا مطالبہ
کرنے کے لیے فوری طور پر کابل گئے اور افغان صدر سے اس حوالے سے ملاقات کی۔
سانحہ پشاور پر پاکستان کے ساتھ عالمی سطح پر بھی گہرے دکھ کا اظہار کیا
گیا اور پاکستان کے علاوہ بھی کئی ممالک میں سوگ کا سماں ہے۔ عالمی رہنماؤں
نے پشاور میں دہشتگردوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل عام کی شدید الفاظ میں مذمت
کی ہے۔ ترکی میں سانحہ پشاور پر بدھ کے روز یوم سوگ منایا گیا، جبکہ ترکی
کے صدر رجب طیب اردگان نے سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان
میں بھی سانحہ پشاور پر سوگ منایا گیا۔ افغان صدر اشرف غنی نے اس حملے کو
”وحشیانہ“ قرار دیتے ہوئے معصوم بچوں کو قتل کرنا مکمل طور پر غیر اسلامی
اور غیر انسانی عمل قرار دیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اوربھارتی
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس حملے کو بے
حس افراد کا ناقابل بیان وحشت پر مبنی حملہ قرار دیا۔ جبکہ بھارت کے بیشتر
اسکولوں میں 2 منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور بھارت میں لوک سبھا کے
اجلاس کے دوران 2 منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، اس موقع پر مذمتی قرار داد
بھی منظور کی گئی۔ فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ نے اس حملے کو ”گھٹیا“
کارروائی قرار دیا ہے۔ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے اس
حملے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان
کی مون،برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون،امریکی وزیر خارجہ جان کیری، آسٹریلیا
کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ، جرمنی کی جانب سے چانسلر میرکل، جرمن وزیر خارجہ
فرانک والٹر شٹائن مائر، کینیڈا کے وزیر خارجہ جان بیئرڈ،اقوام متحدہ میں
ترکی کے مستقل مندوب حالت جاویک نے بھی اس دہشت گردانہ حملے کو بزدلانہ
قرار دیا ہے۔ جبکہ امریکا کے صدر باراک اوباما نے وزیراعظم نوازشریف کو
ٹیلی فون کر کے پشاور میں دہشت گردوں کی بہیمانہ کارروائی کی مذمت کی
ہے۔جبکہ افغان طالبان نے بھی پشاور میں ہونے والے حملے کو غیر اسلامی فعل
قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ دوسری جانب پشاور میں ہونے والی
درندگی پر نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر کا میڈیا بے چین ہوگیا اور دنیا
بھر کے اخبارات، نیوز ویب سائٹس، ٹیلی وژن چینلز اور دیگر ذارائع ابلاغ
پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ہونے والے قتل عام پر چیخ اٹھے ہےں۔ برطانیہ
کے روز نامہ ٹیلیگراف،روز نامہ گارڈین ، روز نامہ انڈیپینڈنٹ، واشنگٹن پوسٹ
، امریکا کے جریدے نیویارک ٹائمز نے اپنی سرخی میں اس حملے کو معصوموں کا
قتل عام قرار دیا ہے۔ اپنی ویب سائٹس پر عالمی اخبارات نے حملے میں زخمی و
شہید بچوں کی تصاویر بھی شائع کی ہیں۔ اخبارات اور ویب سائٹس کے علاوہ
عالمی نیوز چینلز نے بھی اس خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر کور کیا۔
الجزیرہ، سکائی نیوز، سی این این اور دیگر مغربی و عرب چینلز نے بھی اپنی
خبر میں اس واقعے کو بچوں کا قتل عام قرار دیا۔ |
|