مسجد ضرار سے لال مسجد تک ۔۔

عہد نبوی، خیر القرون اور سلف صالحین کے دور میں مسجدیں مسلمانوں کے روحانی مراکز کی حیثیت رکھتی تھیں ،ان مسجدوں میں نمازیں قائم کی جاتی تھیں ،اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا تھا ،امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا جاتا تھا، ان میں قرآن و سنت کی تعلیم دی جاتی تھی ،اور نو خیز نسل کی صحیح اسلامی تربیت اور مسلمانوں کے تزکیہ نفس کا انتظام ہوتا تھا ،یہیں پر لوگوں کے اخلاق سنوارے جاتے تھے اور دینی خطوط پر ان کی ذہن سازی ہوتی تھی ،اور یہیں سے دعوت اسلامی کے وہ سپاہی پیدا ہوتے تھے جو صرف زبان سے نہیں بلکہ اپنے اخلاق و کردار اور اعمال صالحہ سے اسلام کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کرتے تھے ۔ مسجدسے مرادوہ جگہ ہے جہاں مسلمان اکٹھے ہوکر پانچ وقت کی نماز باجماعت اداکرتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں مسجدکو بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا مرکز ہے مسجداسلامی معاشرے میں محبت وہمدردی کاجذبہ پیداکرتی ہے مسجدایک مقدس جگہ ہے جہاں پہنچ کرانسان نہ صرف عبادت کرتاہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات میں اضافہ کرتاہے یہ عمل اللہ کوبہت پسند ہے ۔ مسجد وہ مبارک مقام ہے جو انسانی زندگی میں ایمانی، اخلاقی اورتعمیری انقلاب برپاکرتا ہے۔ سیرت واخلاق کی تعمیر میں گھر ،تعلیمی ادارے اورمعاشرتی ماحول بھی حصہ لیتے ہیں ۔ مگر مساجد اس سلسلے میں سب سے اہم کردارادا کرتی ہیں۔ہجرت کے بعدجب اسلامی ریاست کے قیام کا وقت آیاتو رسولؐ اللہ نے سب سے پہلے مساجد کی تعمیرکا اہتمام فرمایا۔ مدینہ منورہ سے باہر قبا نامی ایک بستی ہے۔آقاؐ نے مکہ سے ہجرت کے بعد چند دن قبا میں قیام فرمایا اور وہاں ایک مسجدبنائی جسے مسجد قبا کہتے ہیں ۔یہ اسلام کی پہلی مسجد ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے ۔ قرآن حکیم میں ایک اور مسجد کا ذکر ملتا ہے جسے مسجد ضرار کے نام سے جانا جاتا ہے – وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ مَسۡجِدٗا ضِرَارٗا وَكُفۡرٗا وَتَفۡرِيقَۢا بَيۡنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ وَإِرۡصَادٗا لِّمَنۡ حَارَبَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ مِن قَبۡلُۚ وَلَيَحۡلِفُنَّ إِنۡ أَرَدۡنَآ إِلَّا ٱلۡحُسۡنَىٰۖ وَٱللَّهُ يَشۡهَدُ إِنَّهُمۡ لَكَٰذِبُونَ اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے ان اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس سے پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے، اور قسمیں کھا جائیں گے کہ بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں، اور اللہ گواه ہے کہ وه بالکل جھوٹے ہیں-

اس آیت میں کئی باتیں ذکر کی ہیں جن سے جماعتی ضرر اور« تفرقه بین المؤمنین» بھی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جس مسجد کی بنیاد کا باعث آپس کی نزاع ہو۔ اُس کی بنیاد صحیح نہیں۔ وہ مسجد ضرار ہے۔ خواہ کسی جگہ بنائی جائے کیونکہ مسجد کی صحت و فساد بنانے والے کی حالت پر ہے۔ اگر آپس کی نزاع او رپھوٹ او رپارٹی بازی کی وجہ سے دوسری مسجدکی بنیاد ڈالتا ہے تو خواہ کسی جگہ بنائے وہ مسجد ضرار ہوگی کیونکہ اس کی بنیاد تقویٰ اور رضا الٰہی پر نہیں بلکہ شر اور فساد اور ضدی معاملہ ہے ۔

مسجد ضرار والوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بھی مسجد میں آنے کی دعوت دے ڈالی ۔ الله رب العزت نے فرمایا لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہوں ۔

اسلام آباد کے قلب میں واقع لال مسجد کی تاریخ بہت پرانی ہے ٨٠ کی دہائی میں پوری دنیا سے لائے گئے جہادیوں کا مرکز رہی – جہاد افغانستان کے نام پر جنرل ضیاء الحق کانٹوں کی ایسی فصل بو گئے کہ جن کو چنتے چنتے ہمارا انگ انگ زخمی ہوچکا ہے ۔ اس فصل کو ایسی کھاد ڈالی گئی جس سے کانٹوں کی یہ فصل ملک کے طول و ارض میں پھیل گئی ۔ کھاد اتنی زہریلی تھی کہ جس سے کلیاں اور پھول دو روز پہلے کملا گئے- مولانا عبدالعزیز صاحب کو ہر حکمرآن کی حمایت حاصل رہی ہے انکے مسلح ونگ طالبان اور لشکر جھنگوی وغیرہ سے حکمرآن ذرا دبکتے تھے اور دوسری وجہ یہ کہ انکی قوت بازو سے تو الیکشن جیتتے ہیں – سیاسی جماعتوں کے کالعدم جماعتوں سے اتحاد کرنے کی بیشمار مثالیں تاریخ کے پنوں پر محفوظ ہیں – خیر مشرف دور میں ملاں عبدالعزیز اپنی اوقات اور قد سے بڑے کام کرنے لگا ریاست کے اندر ریاست بنا کر اسنے شریعت نافذ کرنے کا ٹھیکہ اٹھا لیا حالانکہ یہ بیچارہ آجتک خود شریعت و طریقت اور حقیقت سے نابلد ہے – آخرکار جنرل مشرف نے مذاکرات کی حجت پوری کرنے کے بعد لال مسجد پر آپریشن کیا جس میں بیگناہ بچے بچیاں اس ملاں کی ضد کی بھینٹ چڑھ گئے مجھے بچوں کی ہلاکت پر اسوقت بھی دکھ ہوا تھا جو آجتک ہے مگر میں اسوقت کہتا تھا کہ مشرف کے پاس آپریشن کے سوا چارہ ہی نہیں اور تاریخ ثابت کرے گی مشرف کا اقدام درست تھا ۔ مگر آپریشن کی سٹرٹیجی غلط تھی بیگناہ بچیوں کو بچایا جاسکتا تھا – یہ ملاں عزیز صاحب جو بڑے ٹیپو سلطان بنے پھرتے تھے برقع پہنے فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے اور غازی بن گئے جیسے دوارکا کا قلعہ فتح کرکے لوٹے ہوں ۔ ملاں جی کی جان تو بچ گئی مگر عزت و آبرو کا جنازہ نکل گیا موصوف مولوی عبدالعزیز سے مولوی برقع بن گئے شائد یہ برقع قبر تک انکا پیچھا نہ چھوڑے ۔ حالیہ سانحہ پشاور پر موصوف طالبان کا دفاع کرتے رہے جس سے قوم کو شدید رنج پہنچا مگر مجھے ذرا تعجب نہیں ہوا مجھے ان سے یہی توقع تھی کیونکہ میں انکی رگ رگ سے واقف ہوں انھوں نے طالبان کی مذمت کیا کرنی ہے یہ آجتک یزید پلید کی مذمت نہیں کرسکے الٹا سیدنا امام حسین علیہ السلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں – سانحہ پشاور کیخلاف سول سوسائٹی کے نمائندوں اور عام شہریوں نے لال مسجد کے سامنے پُرامن مظاہرہ کیا، مظاہرین نے مسجد کے سامنے شمعیں روشن کیں اور دہشتگردی کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی۔

مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ لال مسجد کے خطیب سانحہ پشاور کی مذمت کریں، مظاہرین نے کل نماز جمعہ لال مسجد کے باہر ادا کرنے کا اعلان کیا۔

کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کیلئے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری بھی تعینات تھی، ضلعی انتظامیہ کے افسران سے مذاکرات کے بعد مظاہرین پُرامن طور پر منتشر ہوگئے – مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ میری قوم کو لال مسجد کی حقیقت تو سمجھ آئی یہ مسجد ضرار ہے – جو بات مشرف کئی سال پہلے سمجھ گیا تھا میری قوم آج سمجھی ہے – ابھی خبر آئی ہے کہ اہلسنت والجماعت جو کہ لشکر جھنگوی کا نیا نام ہے نے لال مسجد کے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی ہے – میرے ملک کا قانون بھی نرالہ ہے سنگ مقید سگ آذاد ۔ مولوی عبدالعزیز حکومت کا رشتہ دار ہے جو داعش کے اس کرائے کے پٹھو کو گرفتار نہیں کرتی ۔ اس کو فی الفور گرفتار کیا جائے ۔ یہ عبدالعزیز اور اسکی بیوی ابوبکر بغدادی کی بیعت کرچکے ہیں اس سانپ کو اژدھا بننے سے پہلے کچل دو ۔ یہی لال مسجد داعش کا پاکستان میں ہیڈ کواٹر بننے جارہی ہے حکمرآنو جاگو ابھی روک لو کہیں دیر نہ ہوجائے ۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186557 views System analyst, writer. .. View More