پشاور کے فوجی اسکول پر بہیمانہ
حملہ ایسی انسانیت سوز حرکت ہے کہ اس کی جتنی مذّمت کی جائے کم ہے ۔ساری
دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ ایسے مواقع پر لوگ اپنے آپسی اختلافات کو بھلا کر
ظلم کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے اندر فی الحال اس کا بہترین
نمونہ دیکھنے کو ملا ۔ اس سانحہ کے بعدفوج اورایوان سیاست کے درمیان کوئی
کشیدگی منظرعام پر نہیں آئی۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں ایک دوسرے
کے ساتھ ہم آہنگ نظر آئے۔ سب نے مل معصوم بچوں کے شہادت پر رنج وغم کا
اظہار کیا نیزان کے والدین کی ڈھارس بندھائی اور ان کے غم میں شریک
ہوئے۔کسی سیاسی یا غیر سیاسی جماعت نے اپنے مخالف کو موردِ الزام ٹھہرا
کریا باہم الزام ترشی کرکے اس سانحہ کا فائدہ اٹھا نے کی کوشش نہیں کی۔ نہ
کسی نے دیگر ممالک پر بغیر کسی ثبوت کے بے بنیاد الزام لگا کرجنگ چھیڑ دینے
کا نعرہ بلند کیا اور نہ نفرت کے جذبات کو ہوا دے کرعوام کا استحصال کیا ۔کوئی
یہ کہتے ہوئے نہیں سنا گیا کہ بڑے بڑے شہروں میں چھوٹے موٹے واقعات رونما
ہوتے رہتے ہیں ۔اس سے قطع نظر جو نقصان ہوا وہ ناقابلِ تلافی ہے اور اس کی
بہت بڑی قیمت یہ دہشت گرد نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی چکائیں
گےاس لئے کہ مظلومین کی صدا کوئی اور سنے یا نہ سنے ان کا خالق اور مالک
ضرور سنتا ہے۔
حکومتِ ہند نے بھی اس موقع پربالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سانحہ کی شدید
الفاظ میں مذمت کی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف
کوذ اتی طور پر فون کیا اورتعزیت کی نیز اپنا تعاون پیش کیا۔ ایوان
پارلیمان میں دو منٹ خاموشی اختیار کرکے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا
اور وزیر خارجہ سشما سوراج نے ارکان پارلیمان کا ظہرانہ منسوخ فرمادیا۔ اس
رویہ کا اثر ذرائع ابلاغ پر یہ اثر ہوا کہ اس نے عموماً مثبت رخ اختیار
کیا۔اس کے برعکس امت کے اندر مختلف قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا۔ ایسے لوگ
جن کو دین اسلام سے یا دینی تحریکوں سے خدا واسطے کا بیر ہے اس اندوہناک
سانحہ کے بعد بھی اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھ سکے ۔اس موقع کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے اپنے مخالفین پر اوٹ پٹانگ الزامات لگانے لگے ۔ کسی نے اس
درندگی کو دین اسلام سے جوڑ دیا ۔ کوئی اس کیلئے دینی تحریکوں کوبہتان
باندھنے لگا ۔ کسی کو کلمہ پڑھوانا کھٹکا تو کسی کو ان کی عربی بول چال پر
حیرت ہوئی اور کچھ لوگ تو ان دہشت گردوں کی داڑھی پر تبصرہ کرنے سے بھی باز
نہیں آئے۔
دہشت گردی کی ابجد سے بھی جو لوگ واقف ہیں انہیں پتہ ہے کہ اس طرح کے حملے
کرنے والوں کا اپنے مخالفین کا سا حلیہ بنا لینا یا ان کی زبان بولنا عام
سی بات ہے۔ یہ جگ ظاہر حقیقت ہے کہ ناتھورام گوڑسے نےجس کورکن پارلیمان
ساکشی مہاراج بہت بڑا دیش بھکت مانتے ہیں اور مہاراشٹر کی حکومت خراج عقیدت
پیش کرتی ہے ایک مسلمان کا بہروپ دھارکر گاندھی جی کا قتل کیا تھا۔ اجمل
قصاب نے بھی ہندوانہ حلیہ اختیار کررکھا تھا اور اس کے ساتھی نے مراٹھی میں
پانی بھی مانگا تھا اس لئے کسی کا عربی زبان یا داڑھی کو دیکھ کر مغالطہ
میں پڑجانا بچکانہ پن ہے۔ کلمہ پڑھانے
والی بات بھی عجیب ہے کہ اگر وہ کلمہ پڑھنے کی بنیاد پر لوگوں کو چھوڑ دیتے
تھے تو بھلا اسکول جانے والا کون سا بچہ ایسا ہوسکتا ہے جو کلمہ طیبہ نہ
جانتا ہو ۔ ویسے کلمہ والی ایک اور اندھا دھند گولی باری کی بے شمار
شہادتیں ملی ہیں۔
دہشت گرد دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں ۔ چندسال قبل ناروے کے عیسائی دہشت
گرد کا واقعہ روشنی میں آیا۔ امریکہ میں قتل و غارتگری کے واقعات آئے دن
رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کے اندر رام پال بابا کے ۳۰۰ کمانڈوز کی خبر
ابھی حال میں آچکی ہے۔ برما کے اندر بودھ بھکشو قتل وغارتگری کرتے نظر
آتے ہیں اور اسرائیل میں انتہا پسند یہودیوں کا ظلم کس نے نہیں دیکھا لیکن
کہیں بھی ان افراد کی دہشت گردی کو ان کے دین سے نہیں جوڑا جاتا۔ اس دہشت
گردی کی بنیاد پر ان مذاہب کی تبلیغ و اشاعت کیلئے کام کرنے والی مذہبی
جماعتوں کو معتوب نہیں کیا جاتا۔ یہ صرف اسلام کے ساتھ ہوتا ہے کہ جیسے ہی
کوئی مسلم دہشت گردسفاکیت کا مظاہرہ کرےتو اس کی آڑ میں دین اسلام اور اس
کی شریعت کو بدنام کیا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں میں
خود مسلمان پیش پیش ہوتے ہیں حد تو یہ کہ جب بے دین عناصر مسلم تحریکوں پر
مظالم کے پہڑ توڑتی ہیں تب بھی یہ لوگ ظالم کی مذّمت کرنے کے بجائے مظلوم
کو قصوروار ٹھہراتے ہیں ۔
دہشت گردی فی زمانہ ایک نہایت پیچیدہ سیاسی حکمت عملی ہے اس کو صرف دو اور
دوچار کی طرح نہیں دیکھا جاسکتا ۔ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ کسی زمانے میں
اجمیر دھماکہ ، مکہ مسجد کادھماکہ ، مالیگاؤں بلاسٹ اور سمجھوتہ ایکسپریس
میں ہونے والے بم دھماکوں کیلئے لشکر طیبہ اور جیش محمد کو ذمہ دار ٹھہرایا
گیا تھا اور کئی مسلم نوجوانوں کو اس کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا
تھالیکن آگے چل کر خود قومی خفیہ ایجنسی نے اعلان کیا کہ ان کیلئے ہندو
دہشت گرد ذمہ دار تھےجو فی الحال زیر حراست ہیں۔ عشرت جہاں کو بھی لشکر کا
ایجنٹ کہہ کر انکاؤنٹر کردیا گیا جبکہ یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے وہ بے
قصور تھی اورسیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے اس کا ناحق قتل کیا گیا تھا۔ سہراب
الدین کے متعلق ابھی دوروز قبل قومی خفیہ ایجنسی کے وکیل نے عدالت میں کہا
کہ وہ ایک مجرم پیشہ آدمی تھا ۔ امیت شاہ اور ونجارہ نے پرجا پتی کے ساتھ
مل کر سازش رچی اور اسے گرفتار کرواکر موت کے گھاٹ اتار دیا اس کے بعد اسے
بھی لشکر کا دہشت گرد بھی قراردے دیا گیا حالانکہ وزیرداخلہ اور پولس کا
کام اسے گرفتار کرکےعدالت میں پیش کرنے کا تھا۔ اس کی اہلیہ کے ساتھ جو
سلوک ہوا اس کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایسے میں کسی مجرم کے کسی
تنظیم سے جوڑ دیے جانےپر جلد بازی دکھانے کے بجائے احتیاط سے کام لینابہتر
ہے اور سطحی گفتگو کے بجائے معروضی مطالعہ ضروری ہے۔
اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے حکومتیں بھی سرگرمِ عمل
ہوتی ہیں اور وہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اس کام
کےلئے کچھ لوگ تو میدانِ عمل میں قتل و غارتگری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور
کچھ پسِ پردہ اپنےاغراض و مقاصد حاصل کرتے ہیں ایسے میں صرف ایک فریق پر
نظر رکھنا اور دوسرے کو نظرانداز کردینا مناسب نہیں ہے بلکہ دونوں کو شناخت
کے بغیر مسئلہ کی جڑ تک پہنچنا ناممکن ہے ۔ افغانستان کی طالبان اور تحریک
طالبان پاکستان کی زبان ، لباس ، طریقہ کار ایک جیسا ہے اس کے باوجودان کے
درمیان ایک ایسا بنیادی فرق ہے جس نے انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے
اس لئے یہ کہہ دینا کہ سب ایک ہی ہیں ایسا ہے جیسے کہ کوئی کہہ دے کہ
ہندوستان کے اندر پائے جانے والے سارے اشتراکی ایک سے ہیں ۔ اشتراکیوں کے
اندر کو ئی روس نواز تو کوئی چین نواز ہے۔ اس کے علاوہ کوئی مسلح جدوجہد
میں یقین رکھتا ہے تو کوئی انتخابی حکمتِ عملی کا قائل ہے۔ محض ان کے
اشتراکی ہونے کے سبب اور کسی ایک کی حرکت کیلئے دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا
دینا یا اس کے ڈانڈے نظریہ سے جوڑکر اپنی بھڑاس نکالنا درست رویہ نہیں ہے۔
افغانی مجاہدین کی لڑائی پہلے تو سوویت یونین سے تھی اس لئے کہ سوویت فوج
نے انہیں طاقت کے بل پر انہیں غلام بنانے کی کوشش کی تھی۔ سوویت یونین کے
خلاف پہلے تو ان کی مدد کیلئے پاکستان آگے آیا اس لئے کہ اسے اندیشہ تھا
اگر سوویت بھالو کوآج افغانستان میں نہیں روکا گیا تو کل وہ پاکستان کے
اندر پیر پسارے گا۔ ویسے پورے مشرقی یوروپ کو وہ اپنا باجگذار بنا ہی چکا
تھا ۔ بعد میں امریکہ نے سوچا سوویت یونین سے ویتنام کا بدلہ لینے کا یہ
نادر موقع ہے اس لئے وہ بھی مجاہدین کی مدد کیلئے آگیا۔ اس طرح ایک مثلث
بن گیا۔ سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکہ نے خانہ جنگی لگا کر بانٹو اور
کاٹو کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کیا دیگر قبائل کو پختونوں سے لڑا کر ان
کی مدد کرنے لگا۔ اس صورتحال کو پاکستان کی مدد سے طالبان نے قابو میں کیا
اور خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا لیکن پھر ۱۱ ستمبر کا بہانہ بنا کر امریکہ نے
طالبان کو اقتدار سے بے دخل کردیا اور فوج کشی کی ۔ اس کے بعد طالبان اور
امریکہ کے درمیان اسی طرح کی جنگ چھڑ گئی جیسے کہ سوویت یونین کے ساتھ تھی۔
بالآخر افغانستان میں امریکہ کو وہتنام سے طویل جنگ کے باوجود شکست کا منہ
دیکھنا پڑا اس کا اعتراف حال میں امریکی جنرل دانیال بولگر نے اپنی کتاب
میں کیا ہے اور اس کی وجوہات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
امریکہ کی مجبوری یہ تھی کہ اس کی فوج کیلئے خوردونوش سے لے کر جنگ و جدال
تک کا سارا سامان پاکستان سے ہو کر آتا تھا اس لئے وہ پاکستان سے دشمنی
مول نہیں لے سکا۔ اس لئے ایک طرف طالبان سے لڑتا رہا اور دوسری جانب
پاکستان کا دوست بنا رہا۔ پاکستان کی فوج امریکہ کی دوستی کے باوجود طالبان
کی حمایت کرتی رہی ۔ اس پیچیدہ سیاسی صورتحال میں امریکہ نے حامد کرزئی کو
اپنا پٹھو بنا کر اقتدار سونپ دیا تو طالبان کی لڑائی امریکہ اور کرزئی
دونوں سے ہو گئی۔پاکستانی فوج چونکہ طالبان کی حامی تھی اس لئے حامد کرزئی
اسے بھی اپنا دشمن سمجھنے لگا ۔ ایسے میں حامد کرزئی کیلئے امریکہ بہت
زیادہ قابلِ اعتماد ساجھی دار نہیں تھا اس لئے کہ اس کی دوستی پاکستان سے
تھی ۔ حامد کرزئی نے اس صورتحال میں ہندوستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا
اس لئے کہ دونوں کا مشترکہ دشمن پاکستان تھا ۔ حامد کرزئی کے دور میں ایک
حیرت انگیز صورتحال تھی کہ ہندوستان سے افغانستان کی سرحد وں میں فاصلہ کے
باوجود دونوں ممالک کے تعلقات بہت خوشگوارتھے جبکہ ہند پاک اور پاک افغان
سرحدیں مشترک ہیں اس مگر ہند پاک اور پاک افغان تعلقات میں کشیدگی پائی
جاتی تھی ۔
ایسے میں تحریک طالبان پاکستان عالم وجود میں آئی ۔ پاکستان طالبان اور
افغان طالبان دونوں امریکہ کے دشمن توہیں مگر ایک پاکستان کا دوست اور
دوسراپاکستان کا دشمن ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جس نے دونوں کو ایک دوسرے
کا مخالف بنا دیا ہے ۔ اسی لئے سانحہ پشاور کو انجام دینے کی ذمہ داری ٹی
ٹی پی قبول کر لیتی ہے اور افغان طالبان اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے
کہ حامد کرزئی اور ہندوستان کی حکومت پر ٹی ٹی پی کی مدد کرنے کا الزام
لگتا ہے لیکن افغانی طالبان کی مدد کا الزام نہیں لگایا جاتا۔۔ ویسے
پاکستانی فوج پر دباوڈالنے کیلئے امریکہ نے بھی ٹی ٹی پی کا تعاون کیا ہے۔
ٹی ٹی پی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ زیر زمین مجرموں کا ایک بہت
بڑاگروہ بن چکا ہے جو اپنے آقاوں کے اشارے پر قتل وغارتگری وارداتیں کرتا
رہتا ہے اور سانحہ پشاور بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔
حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی کے اقتدار میں آجانے سے یہ ہوا ہے کہ افغان
اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کا آغاز ہوگیا۔ اس سے ٹی ٹی پی کا پریشان
ہوجانا فطری رد عمل ہے اس لئے کہ وہ اپنے ایک سرپرست سے محروم ہوگئی ۔
افغانستان کی نئی حکومت اگرپاکستان سے تعاون پر آمادہ ہوجائے تو ٹی ٹی پی
کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔اسی گھبراہٹ کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ ماہ جنرل
راحیل شریف کے پہلے افغان دورے سے ۵ روز قبل واگھہ سرحد کے پاس زبردست
دھماکہ ہوا جس میں ۶۰ افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری
جنداللہ نامی تنظیم نے قبول کی جو ٹی ٹی پی کا حصہ ہے۔ جنرل راحیل اشرف نے
افغانی صدر کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران ٹی ٹی پی کی بیخ کنی کیلئے تعاون
طلب کیا تھا اور اشرف غنی نے اس کا یقین بھی دلایا تھا لیکن اس ملاقات ۴۰
روز بعدعین سقوط پاکستان کےدن فوجی اسکول پر حملہ ہوگیا۔ اس سانحہ کے فوراً
بعد پاکستان کے فوجی سربراہ راحیل اشرف نے کابل کا دوسرا دورہ کیااورصدر
اشرف غنی سے ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ۔
اشرف غنی نے راحیل شریف کے درمیان تعاون واشتراک کے چلتے ٹی ٹی پی کیلئے
دہشت گردی کی کارروائیوں کو جاری رکھنا مشکل ہو جائیگا۔
پاکستان کے حوالے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ اسلامی دنیا کی سب بڑی فوجی
طاقت ہے جس کو جوہری اسلحہ سے لیس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاکستان غذا کے
معاملے میں خودکفیل ہے ۔ اس کے پاس معدنیات اور گیس کے ذخائر ہیں جغرافیائی
اعتبار سے اس کا محل و وقوع زبردست اہمیت کا حامل ہے نیز چین سے اس کے
بہترین سیاسی تعلقات ہیں ۔ ان وجوہات کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں سے
پرخاش رکھنے والے مغرب کو مملکت خداداد ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ یہی وجہ ہے
کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنےکی بین الاقوامی سازشیں چلتی
رہتی ہیں ۔ داخلی امن و امان کو غارت کرنے کیلئے بھی دنیا بھرکے ممالک کی
خفیہ ایجنسیاں سر گرمِ کار رہتی ہیں اور وہ مقامی مجرم پیشہ لوگوں کو مختلف
ناموں سے منظم کرکے اپنا آلۂ کار بنانے کی سعی کرتی ہیں ۔ پاکستان کے
اندر رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا اس پس منظر میں جائزہ لے کر
ہی سانحہ پشاور کے مضمرات کی حقیقت تک رسائی ممکن ہے ورنہ ہیجانی کیفیت میں
مبتلا ہو کر گریہ وزاری کرنے کا رویہ بے سود ہے ۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کا اِس بات پر اِتفاق ہے کہ پشاور براعظم ایشیاء کا
قدیم ترین زندہ تاریخی شہر ہے۔ لیکن افغانستان پر استعماری قوتوں کے قبضے
کے بعد اس شہر نے دو ادوار میں بم دھماکے اور آگ و خون کے کئی مناظر دیکھے
ہیں لیکن سانحہ ۱۶ دسمبر نے تو امن و آشتی کا گہوارا اور پھولوں کا شہر
کہلانے والے پشاور میں معصوم پھولوں کا جنازہ اٹھادیا اور سارے عالم کو
سوگوار کرگیا۔ جنازوں پر پھول تو عام طور پر نظر آتے ہیں پھولوں کا جنازہ
دیکھ کر وہ کون سی آنکھ ہوگی جو نم نہ ہوئی ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو
جنت کا سدا بہار پھول بنائے اور ان کے والدین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ نوع
انسانیت کو اس طرح کی بہیمیت و درندگی سے نجات دلائے۔
پھول دیکھے تھے جنازوں پہ ہمیشہ شوکت کل میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے
دیکھے |