کوکرا جھار شہر سے ۸ کلومیٹر دور پکری گرُی گاؤں میں ۷
سالہ کالو ٹوڈواپنے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا اور اس کی ماں نہانے کے
بعداپنے بال سکھا رہی تھی کہ اچانک بوڈودہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ قدرت کا
کرنا یہ ہوا کہ کالو کی ماں کا انتقال ہو گیا اور باوجود اس کے کہ ننھے
کالوکے چہرے ، ہاتھ،کہنی اور کمر پر گولی لگی وہ بچ گیا۔ کالو کا باپ سوم
اسے گوہاٹی علاج کیلئے لے آیا۔ اسپتال کے اندر کالو کا علاج کرانے میں
مصروف سوم اپنی زوجہ کی آخری رسومات میں شریک نہیں ہو سکا۔ کالو کے بھائی
نے اپنی ماں کی چتا کو اگنی دی ۔ وزیر اعظم نے مرنے والوں کے پسماندگان کو
۲ لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان
دولاکھ روپیوں میں سوم کو اپنی چاند سی بیوی اور کالو اپنی دیوی سمان ماں
مل جائیگی ؟
جلد بازی میں ہرجانے کا اعلان کرنے والے مودی جی کو نہیں معلوم کہ مہنگائی
کس قدر بڑھ چکی ہے۔ نکسل وادی حملوں میں مارے جانے والوں کے ہرجانے کی رقم
کو ۳ لاکھ سے بڑھاکر۵ لاکھ کر دیا گیا ہے۔ ہریانہ میں تو ان کی سرکار نے
سڑک حادثے میں ہلاک ہونے والے ٹی وی کے ایک صحافی کے پسماندگان کو۵ لاکھ
روپئےدےدئیے جبکہ ست پال آشرم سے لوٹتے ہوئے اس کی گاڑی آوارہ جانور
کےٹکرانے سے حادثہ کا شکار ہوگئی تھی۔ آسامی مظلوموں کے لئے وزیراعظم نے
تو۲ لاکھ پر اکتفا کرلیا لیکن بعد میں مرکزی حکومت نے اسے بڑھا کر ۳ لاکھ
کردیااس میں ریاستی حکومت نے ۳ لاکھ ملا کر اس کو ۶ لاکھ تک پہنچا دیا
مگریہ خطیر رقم بھی بیچارے سوم اور کالو کیلئے کس کام کی جبکہ ایک کا گھر
اور دوسرے کی دنیا ویران ہو گئی ؟
وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے آسام کا دورہ کرنے کے بعدواضح اعلان کیا کہ جو
جنگجو ۵ ماہ کے بچہ کے منہ میں گولی ماردے وہ دہشت گرد ہے اور اس سے بات
چیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن کوکرا جھار میں جس بربریت کا
مظاہرہ کیا گیا وہ داعش کو بھی شرمندہ کرنے والی ہے۔ سابق فوجی پرن
باسماتری کے مطابق اس کے بھائی کو پہلے تیر سے زخمی کیا گیا اور پھر بھالے
سے ہلاک کرنے کے بعد اس کا سر کاٹ دیا گیا ۔ اس پر حملہ آوروں کا دل ٹھنڈا
نہیں ہوا تو ان کا گھر نذر آتش کردیا گیا۔ ایسی خبریں بھی ہیں کہ اس حملے
کی بہت تفصیلی اطلاعات قومی خفیہ ایجنسی کو مل چکی تھی اور اگر ان کو
سنجیدگی سے لیا جاتا اور روک تھام کے مناسب اقادامات کئے جاتے تو یہ سانحہ
ٹل سکتا تھا۔ وزیر داخلہ کو اپنے اہلکاروں سے اس بابت پوچھنا ہوگا اور قوم
کو بتانا ہوگا کہ اس کوتاہی کی کیا وجوہات تھیں اور جو لوگ اس کے ذمہ دار
ہیں ان کو کیا سزا دی گئی ۔
آسام کے حالیہ تشدد کے نتیجے میں تقریباً ۷۰ ہزار متاثرین کو اپنا گھر بار
چھوڑ کر مہاجرین کیمپ میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ حالات اس قدر سنگین
ہو گئے تھے بھوٹان، چین اور میامنار کی سرحدوں کو سیل کردینا پڑا۔ اس کے
باوجودمریخ پر کمند ڈالنے والے عظیم بھارت کے دلیروزیر داخلہ کسی طرح دہلی
سے سونت پور تک توپہنچپائے مگر شورش زدہ علاقوں کا دورہ کئے بغیر اور راحت
کیمپ میں جاکرمتاثرین سے ملے بنا بشواناتھ چیرالی میں واقع ڈاک بنگلے میں
ادیباسیوں کے نمائندوں سے ملاقات کر کے لوٹ آئے۔اپنی کوتاہی پر پردہ ڈالنے
کیلئے انتظامیہ نے وہاںتک رسائی کیلئے سڑک کی عدم موجودگی کا بہانہ بنایا ۔
تعجب اس بات پر ہے کہآج کل معمولی رہنماوں کو انتخابی مہم چلانے کیلئے نجی
ہیلی کاپٹر مل جاتا ہے لیکن ملک کے وزیرداخلہ کوغریبوں کے دکھ درد بانٹنے
کی خاطر سرکاری ہیلی کاپٹر نہیں مل پاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ جب نیت ہی میں
کھوٹ ہو تو کچھ بھی نہیں ملتا۔ مگر مچھ کے آنسو بہانے والے ہمارے ان
رہنماوں پر افتخار راغب کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ؎
حقیقت کھل کے تیری سامنے جس دن سے آئی ہے
دکھاوا سب تری ہمدردیاں معلوم ہوتی ہیں
تشدد کے حالیہ واقعات میں اب تک ۷۸ لوگ لقمۂ اجل بن چکے ہیں ان میں ۷۱
دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ۴ بدلے کی کارروائی میں مارے گئے اور ۳مظاہرہ
کرنے کے جرم میں پولس کی بربریت کا شکار ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ
حملہ این ڈی ایف بی (ایس) نے کیا ہے۔ طالبان ہم سے دور دراز علاقوں
میںسرگرم عمل ہے اس کے باوجود اس کے بارے بہت کم جانتے ہوئے بھی ہم لوگ بہت
کچھ جانتے ہیں لیکنکم ہی افراد ایسے ہوں گے جو ہماری اپنی سرزمین پر کام
کرنے والی مذکورہ تنظیم کا پورا نام بھی بتا سکیں۔ یہ دراصل نیشنل
ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ کا سونگبی جیت دھڑاہے۔ ۱۹۸۶ میں بوڈو علاقوں
کو آزاد کرانے کی غرض سے بوڈو سیکیورٹی فورس نامی ایک مسلح تنظیم کا قیام
عمل میں آیا تھا جس نے عظیم تر مصالح کے پیش نظر ۱۹۹۴ میں اپنا نام بدل
کرنیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ رکھ لیا۔ اس لئے کہ آج کل بس نام
میں ڈیموکریسی کا لفظ ڈال دینے سے سارے پاپ دھل جاتے ہیں۔
اس علٰحیدگی پسند باغی گروہ میں دومرتبہ پھوٹ پڑی پہلی مرتبہ اس کے بطن سے
این ڈی ایف بی (ترقی پذیر) نے الگ ہوکر حکومت سے مصالحت کرلی لیکن اس
کابانی رنجن ڈائیماری اپنی این ڈی ایف بی کے ساتھ سرکار سے برسر پیکار
رہا۔کون جانے آگے چل کر رنجن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا یا فوج کا دباؤ
اس کیلئے ناقابلِ برداشت ہو گیا خیر وجہ جو بھی ہو اس نے بھی حکومت وقت سے
ہاتھ ملا لینے میں بھلائی سمجھی۔یہ دوسری تقسیم تھی جس میں اپنے نام کا
مخفف لگا کررنجن نے ایک اور این ڈی ایف بی بنا ڈالی اور مادرِ تنظیم سے الگ
ہو گیا۔ رنجن ڈائیماری کے ساتھ سرگرم عمل فوجی کمانڈر آئی کے سونگبی جیت
کو اپنے رہنما کا یہ اقدام ناگوار گزراتو اس نے ۲۰۱۲ میں این ڈی ایف بی (آر)
سے الگ اپنا گروہ تشکیل دے دیا اور اسلحہ کا سارا زخیرہ اپنے ساتھ لے گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ اس کے حواری دہشت گردوں کی کل تعداد صرف ۲۷۰ ہے جن میں سے
۱۵۰ میامنار یعنی برمامیں رہتے ہیں ۔
اس موقع پر چند دلچسپ باتوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ اول تو یہ کہ این ڈی ایف
بی کے تین میں سے دو دھڑے حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ایک برسرِ بغاوت
تینوں کا نام ایک ہی ہے بس آگے بریکیٹ میں یو یا آر یا ایس لگ جاتا ہے اس
کے باوجود کوئی دانشمند یہ نہیں کہتا کہ یہ سارے ایک ہیں ، ان میں کوئی
اچھا یا برا بوڈو مجاہد نہیں ہے۔ ان سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہئے بلکہ
ان کے درمیان فرق کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پرمختلف رویہ اختیار کیا
جاتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ہے کہ ایک مختصر سےجنگجو
گروہ کو بھی قابو میں کرنا کس قدر مشکل کام ہوتا ہے اور وہ کس طرح کی تباہی
مچا سکتا ہے ۔ اس کیلئے نہ کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ حکومت کی ناکامی ہے نہ
خفیہ اداروں کی اس کے ساتھ ساز باز یا اس کی سرپرستی کے اوٹ پٹانگ الزامات
لگاتا ہے۔
تیسراقابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ ان دہشت گروں کی پناہ گاہیں بھی بیرون ملک
میامنار اور بھوٹان میں ہیں ۔ وزیر خارجہ سشما سوراج ان دونوں ممالک سے
تعاون کی مؤدبانہ درخواست کی ہے۔ اس میں کہیں الزام تراشی اور دھونس دھمکی
کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ اس کے برعکسپاکستان میں بیٹھا ہوا کوئی دہشت گرد اگر
تخریب کاری میں ملوث پایا جاتا ہے تو حکومت کا لب و لہجہ یکسر بدل جاتا ہے
۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا صرف عوام کو ورغلانے اور اپنی
سیاسی روٹیاں سینکنے کیلئے کیا جاتا ہے؟ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ بات بھی
منظر عام پر آئی کہ این ڈی ایف بی کے زیادہ تر کارکن عیسائی ہیں لیکن ان
کیدہشت گردی کو بجا طور پر ان کے دین سے نہیں جوڑا لیکن مسلمان دہشت گرد کی
آڑکے سامنے آتے ہی دین اسلام زیر بحث آجاتا ہے کیونکہ عصر حاضر میں کسی
بھی مذہب کے ماننے والے کو دہشت گردی کے جال میں پھنسا لینا اور اس کو اپنا
آلہ ٔ کار بنا لینا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے ۔ یہ بات دنیا بھر میں آئے
دن رونما ہوتی رہتی ہے ؟ آج تخریب کاری کے کام میں لوگوں کو اس صفائی کے
ساتھ ملوث کرلیا جاتا ہے کہ دوسروں کو تو کجا خود ان کو بھی اس کی خبر بہت
دیر سے ہوتی ہے یا کبھی کبھار نہیں بھی ہوتی بقول شاعر ؎
ہمارے ہاتھوں وہ ہم کو تباہ کرتے ہیں
یہ اور بات کہ اس کی ہمیں خبر بھی نہیں
این ڈی ایف بی جیسی تحریکیں سیاسی سر پرستی کے بغیر پھل پھول نہیں سکتیں
۔آسام کی صورتحال سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ کانگریس اور بی جےپی
دونوں نے ان کی آبیاری کی ہے ۔ پارلیمانی انتخاب کے دوران مئی کے اندر
کوکرا جھار میں مسلمانوں پر حملہ ہوا تھا ۔ اس حملے کیلئے بوڈو پیوپلس فرنٹ
(بی پی ایف ) کی رکن اسمبلی پرمیلا رانی برہما کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔
انہوں نے ۳۰ اپریل کو کہا تھا چونکہ مسلمان رائے دہندگا ن سابق یو ڈی ایف
رکن اور آزاد امیدوار بابا کمار سرانیہ کی حمایت کررہے ہیں اس لئےبی پی
ایف کےریاستی وزیر چندن برہما لوک سبھا کا انتخاب نہیں جیت پائیں گے ۔
پرمیلا نے آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ اس صورتحال میں بی پی ایف کو بی
جے پی کے امیدوار کی حمایت کرنی چاہئے ۔
اس اشتعال انگیز بیان کے فوراً بعد دھننجئے ناتھ نامی صحافی پر حملہ ہوااور
اس کے بعد نرسنگھ پارہ میں ۳ لوگ ہلاک کردیئے گئے۔ اس رات دہشت گردوں
نےحملہ کرکے ۸ لوگوں کو ہلاک اور۴ کو زخمی کردیا۔دوسرے دن یعنی ۲ مئی کو
گمپارہ میں ۲۱ لوگوں کو قتل کیا گیا ۔ بی پی ایف کے سربراہ ہنگراما
موہیلاری پرمسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی غرض سے تشدد بھڑکانے کا الزام لگا ۔
تشدد کی ان وارداتوں کے بعد آسام کی صوبائی حکومت کےوزیر صدیق احمد نے
شورش زدہ علاقوں کا دور ہ کرکےتشدد میں بی پی ایف کے ارکان کےملوث ہونے کی
تصدیق کی اور یہ انکشاف بھی کیا کہ دہشت گردوں کو محکمہ جنگلات کے افسران
نے بندوقیں فراہم کی تھیں ۔ اس علاقہ میں چونکہ انتظامیہ کی باگ ڈور
کانگریس کی شراکت سے بی پی ایف کے ہاتھوں میں ہے اس لئے اس کے ڈپٹی چیٖف
کھمپا بوروگویاری پر شک کا اظہار کیا گیا اس لئے کہ وہ محکمہ ٔ جنگلات کی
انتظامیہ کا رکن ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آسام کی سیاست میں بی پی ایف بی جے پی کی حلیف جماعت
نہیں بلکہ کانگریس کی ریاستی حکومت میں شامل ہے اور کانگریس کے رہنما
عبدالخالق نے پرمیلا رانی کی گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا تھا اورالزام
لگایاتھاچونکہ مسلمان دہشت زدہ نہیں ہوئے اور انہوں نے بی پی ایف کو ہرا کر
سرانیہ کو کامیاب کردیا اس لئے بدلہ لینے کی خاطر یہ قتل وغارتگری کی
کارروائی کی گئی۔ اس واقعہ کی روشنی میں انتخابی سیاست کے پس پردہ پنپنے
والی دہشت گردی کاکردار نمایاں ہوجاتا ہے اور کانگریس کی ساز باز بھی بے
نقاب ہوجاتی ہے۔ دہشت گردی کی نشوونما میں ویسےبی جے پی بھی کانگریس سے
پیچھے نہیں بلکہ دو قدم آگےہے ۔ ان دونوں قومی جماعتوں کے رویہ پر یہ شعر
صادق آتا ہے کہ ؎
یک جا ہیں سارے فہم و فراست میں پست لوگ
قبلہ بنے ہوئے ہیں قبیلہ پرست لوگ
سونت پور کا علاقہ تیزپور پارلیمانی حلقہ میں آتا ہے۔ اس بار پارلیمانی
انتخاب سے ایک ماہ قبل ۳۰ مارچ کوسونت پور کےبی جے پی رہنما بھابا دیو
گوسوامی نے ببانگ دہل یہ اعلان کردیا کہ این ڈی ایف بی کے سونیبی جیت اور
رنجن دیو نامی دو دھڑےآئندہ انتخاب میں بی جے پی کی حمایت کر رہے ہیں ۔ یہ
انکشاف ٹیلی ویژن کے ایک نامہ نگار کی موجودگی میں کیمرے کے سامنے کیا گیا
تھا۔ بھابا نےصاف گوئی کے ساتھ آسام اروناچل کی سرحد پر بھاکلپونگ گاوں
میں این ڈی ایف بی کے رہنماوں سے ملاقات کی تفصیل بھی پیش کردیں اور بتلایا
کہ یہ دنوں دھڑے کانگریس پارٹی کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں اس لئے بی جے
پی کی حمایت کررہے ہیں۔
بھاباگوسوامی کا یہ اعتراف وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی بسواناتھ
چیرالی میں منعقدہ عوامی جلسے کے موقع پر کیا گیا تھا اس نے کہا تھا کہ
سامنے جلسہ گاہ میں دونوں باغی گروہوں کے علاوہ کچھ ہتھیار ڈالنے والے سابق
جنگجو بھی موجود ہیں۔ تیز پور سے انتخاب لڑنے والے بی جے پی کے امیدوار آر
پی سرما نے بھی ٹی وی چینل پر گوسوامی کے بیان کو درست ٹھہرایا لیکن بعد
میں جب اس پر تنقید شروع ہوگئی بی جے پی کےمقامی صدر نے اس کی تردید کردی
اور گوسوامی کے بے بنیاد بیانات پر کارروائی کرنے کا اعلان کیا۔ اس تردید و
تائید سے قطع نظر این ڈی ایف بی کا عمل حقیقت کا ترجمان تھا۔ این ڈی ایف بی
نے راہل گاندھی کے دورے والے دن یعنی ۲۷ مارچ کو تو ۱۲ گھنٹے کے بند کا
اعلان کرکے اس کو ناکام کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن دو دن بعد جب مودی جی
نے دورہ کیا تو نہ صرف کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی بلکہ خود بھی اس میں
شریکہوکر غالب کے شعر کی عملی تفسیر بن گئے ؎
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
آسام کے وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی نے گوسوامی کے بیان کے بعد بی جے پی پر
دہشت گردوں سے ساز باز کا الزام لگاکرکے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا تھااور اسی
کے ساتھ ٹی وی چینلس پر سیاستدانوں اور دہشت گردوں کے درمیان اشتراک عمل کی
بحث چھڑی گئی تھی ایسے میں آسام کی سب سے بڑی جنگجو تنظیم الفا کے رہنما
جتن دتہ ّنے ٹی وی کے پردے پر اعتراف کرلیا کہ ان لوگوں نےبھی ماضی میں
سیاسی جماعتوں کا تعاون کیا ہے۔ کوکراجھار میں نہ سہی مگرتیز پور میں بی جے
پی دہشت گردوں کی مدد انتخاب جیت گئی اورآر پی سرما رکن پارلیمان بن گئے ۔
اب وہ کس منہ سے اپنے کرم فرما ؤں کے خلاف اقدام کریں گے اور ایسے میں
وزیر داخلہ کے بلند بانگ دعووں کا کیا حشر ہوگا یہ جاننا کوئی مشکل کام
نہیں ہے۔تشدد کے ان قابل مذمت واقعات کے بعداگر وزیراعظم گوہاٹی میں بیٹھے
ہوئے ترون گوگوئی کے بجائے اپنے تیز پور کے رکن پارلیمان رام پرساد سرما سے
گفتگو کرتے اور پتہ لگانے کی کوشش کرتے کہ حملہ آور کون ہیں ؟ کہاں سے
آئے ہیں؟ اور کیا چاہتے ہیں تو انہیں حقیقت حال کا پتہ چل جاتا لیکن جب
سیاست کا دامن مہرووفا اور خلوص و محبت کے اعلیٰ اقدار سےخالی ہو جائے تو
بھلا اس کی توقع چہ معنیٰ دارد بقول افتخار راغب ؎
کیسے بنے گا حلقۂ سالم خلوص کا
جب جھک رہا ہے آپ کا پرکار اک طرف
شہر ہوس میں مہر ووفا کے ستار کا
اک تار اک طرف ہے تو اک تار اک طرف
وزیرا اعظم نے تو حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی مگر قارئین کو چاہئے کہ وہ
آسام کے متعلق مودی جی کا نظریہ جان لیں جس کا اظہار انہوں نے ماہِ فروری
میں سلچرکے اندر وزیراعظم کے امیدوار کی حیثیت سے کیا تھا ۔ انہوں نے کہا
تھا ’’دو طرح کے لوگ بنگلہ دیش سے آسام آئے ہیں۔ وہ جو سیاسی سازش کے طور
پر ایک خاص سیاسی جماعت کا ووٹ بنک بڑھانے کیلئے یہاں لائے گئے (یعنی
مسلمان) اور دوسرے وہ جن کو پڑوسی ملک میں خوفزدہ کیا گیا (یعنی ہندو)۔ جو
ووٹ بنک بڑھانے کی خاطر لائے گئے یا اسمگلرس ہیں انہیں دھکا دے کر بھگا دیا
جانا چاہئےجبکہ دوسری قسم کے لوگوں کو اپنے اندرجذب کر لینا چاہئے۔ ‘‘ ممکن
ہے مودی جی کو وزیراعظم بن جانے کے بعد یہ بیان یادنہ ہو لیکن رام پرشاد
سرما کو ضرور یاد ہوگا اورمسلمان بھی اسےکیسے بھول سکتے ہیں؟ اسی منفی
طرزِفکر کو ہوا دے کر بی جے پی نےآسام میں اپنی کامیابی کو ۴ سے ۷ تک
پہنچایا ہے۔ دہشت گرد جانتے ہیں کہ دونوں سیاسی جماعتیں کانگریس اور بی جے
پی ان کی محتاج ہیں اس لئے جو من میں آئے کرتے پھرتے ہیں اور غریب عوام
کواس کی قیمت چکانی پڑتی ہے ۔ آسام کی دہشتگردی صرف اورصرف مذہبی منافرت،
نسلی عصبیت اور سیاسی منافقت کا نتیجہ ہے ۔ جب تک ان عوامل کی بیخ کنی نہیں
کی جاتی اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ |