21 ویں ترمیم بدنیتی پر مبنی ہے، قومی اتفاق رائے کو نقصان پہنچا
(عابد محمود عزام, karachi)
٭.... جماعت اسلامی کے جنرل
سیکرٹری لیاقت بلوچ سے لیا گیا انٹرویو
گفتگو:عابد محمود عزام
6 جنوری 2015 کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں21ویں آئینی ترمیم کو منظور کیا
گیا۔ آئینی ترمیمی مسودے میں دہشتگردی کے ساتھ مذہب اورفرقے کے الفاظ شامل
کیے گئے ہیں، جس پر قومی اسمبلی میں موجود جمعیت علمائے اسلام اورجماعت
اسلامی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، جبکہ
پاکستان تحریک انصاف بھی ایوان سے غیر حاضر رہی۔ اس کے ساتھ پیپلز پارٹی نے
اگرچہ اس ترمیم کے حق میں ووٹ تو دیا، لیکن مطمئن وہ بھی نہیں، اسی لیے
ووٹنگ کے وقت پی پی پی کے رضا ربانی کا کہنا تھا کہ آج میں نے ضمیر کے خلاف
ووٹ دیا ہے۔ ملک کی مذہبی جماعتوں نے اکیسویں ترمیم کی منظوری کو اسلام
دشمن قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش اور مساجد، مدارس اور مذہبی طبقے کے خلاف
سازش قرار دیتے ہوئے دہشتگردی کے ساتھ مذہب اور فرقے کو شامل کرنے کی سخت
الفاظ میں مذمت اور مخالفت کی ہے، جبکہ جماعت اسلامی نے حکومت سے اس ترمیم
میں نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے اور 21ویں ترمیم میں تبدیلی کے بارے میں
ترامیم قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروادی ہیں، جن میں مطالبہ کیا گیا ہے
کہ ترمیمی بل میں مذہب اور فرقے کے الفاظ کو حذف کیا جائے۔ اسی حوالے سے
عابد محمود عزام نے جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ سے خصوصی
گفتگو کی، جو نذر قارئیں ہے۔
21ویں ترمیم کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں منظور کر لیا گیا ہے، جس کی
مذہبی جماعتوں نے مخالفت کی ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس
میں اتفاق رائے کے بعد مذہبی جماعتوں کی جانب سے 21ویں ترمیم کی منظوری کی
مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟
لیاقت بلوچ: ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ضرور ہونا چاہیے اور دہشت گردوں کا
صفایا بھی ہونا چاہیے۔ دہشت گرد انسانیت کے مجرم ہیں۔دہشتگردی کا اسلام سے
کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام ایک پرامن مذہب ہے، جبکہ دہشت گرد اسلام کی
بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، ان دہشت گردوں کو سزائیں ہونی چاہئیں اور جن
دہشتگردوں کو سزائیں سنائی جاچکی ہیں، ان سزاﺅں پر عمل درآمد بھی ضرور ہونا
چاہیے۔حکومت سے ہمارا اختلاف اس چیز میں تھا کہ ملک میں آئین موجود ہے،
جمہوریت اور پارلیمنٹ ہے۔ ملک میں ایک مکمل نظام موجود ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے
فوجی عدالتوں کولانا اور نیا نظام تشکیل دینا معمول کے نظام کو بائی پاس
کرنا ہے۔جمہوری معاشروں میں فوجی عدالتیں نہیں ہوا کرتیں، ملٹری کورٹس
جمہوری نظام حکومت سے متضاد ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں فوجی
عدالتوں کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس قانون کے تحت
فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں، اس میں بدنیتی سے مذہب اور فرقے کا نام درج
کیا گیا ہے۔ اس سے لسانیت، قوم پرستی اور علیحدگی کے نام پر جو دہشت گردی
ہورہی ہے، اس کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔یہ مذہب، فرقے، مدارس، مساجد اور
منبر و محراب کے خلاف ایک گھناﺅنی سازش ہے۔ اس لیے ہمارا دینی جماعتوں کا
موقف ہے کہ مذہب اور فرقے کو امتیازی بنیادوں پر شامل کیا گیا ہے، یہ
بدنیتی ہے اور قومی اتفاق رائے کو اس کے ذریعے نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کو جب پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی حمایت
حاصل ہوگئی تو انہوں نے مل کر ایسا اقدام کیا ہے، جس سے قومی اتفاق رائے کو
نقصان پہنچا ہے، اس سب کچھ کے باوجود بھی ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے
خاتمے کے لیے حکومت اقدام کرے اور دہشت گردی چاہیے مذہب کے نام پر ہو، فرقے
کے نام پر ہو، لسانیت کے نام پر ہو، قومیت کے نام پر ہو ٹارگٹ کلنگ ہو یا
بوری بند لاشیں ہوں، یہ سب کچھ دہشت گردی ہے، ان کے خلاف اقدام میں کوئی
امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ دہشت گرد تو دہشت گرد ہوتا ہے، چاہے وہ کسی
مذہب و فرقے کی بنیاد پر دہشت گردی کرے، یا قومیت و لسانیت کی بنیاد پر
دہشت گردی کرے، لیکن حکومت نے دہشت گردی کو مذہب و فرقے کے ساتھ نتھی کر کے
استعماری ایجنڈے کی تکمیل کی ہے اور اسلام دشمن قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش
کی ہے۔
اکیسویں آئینی ترمیم میں مذہب کو شامل کرنے کی آپ کے خیال میں کیا وجوہات
ہوسکتی ہیں اور حکومت اس ترمیم سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟
لیاقت بلوچ: پاکستان اس وقت جو امریکی غلامی کی طرف دھکیلا گیا ہے، اس کی
وجہ سے سیکولر قوتیں منہ زور ہوئی ہیں۔ ریاستی اور حکومتی سرپرستی میں وہ
ہر چیز کو بائی پاس کرکے پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی سازشیں
کررہی ہیں۔ یہ سب اسی کا شاخسانہ ہے اور انہی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔
پاکستان میں اس قسم کی سازشین کی کئی بار کی گئیں ہیں۔ پاکستان کو سیکولر
ریاست بنانے کی کوشش کافی عرصے سے جاری ہے۔ اسی لیے ترمیم میں مذہب کی شق
کو شامل کیا گیا ہے۔ حالانکہ دہشت گردی تو لسانیت و قومیت کی بنیاد پر بھی
ہوتی ہے، ملک میں سیاست کے نام پر بھی دہشت گردی ہورہی ہے، لیکن ان کو شامل
نہیں کیا گیا ہے، صرف مذہب اور فرقے کے الفاظ کو شامل کیا گیا ہے، جس سے
ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ مذہبی طبقے کے خلاف سازش ہے۔
21ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ملک کی مذہبی جماعتوں نے اس ترمیم کو
مستردکیاہے اور کھل کر مخالفت کی ہے، کیا یہ رویہ حکومت اور مذہبی طبقے کے
درمیان محاذ آرائی اور تصادم جنم لینے کا باعث نہیں بنے گا؟
لیاقت بلوچ: ملک انتہائی گھمبیر حالات سے گزر رہا ہے، مختلف قسم کے مسائل
نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، ان حالات میں حکومت کو عقل مندی کا
مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سمجھ داری سے کام لینا چاہیے۔ ملک میں مدارس کے جو 30
لاکھ طلبہ ہیں اور ملک میں لاکھوں مساجد ہیں اور ملک کی اکثریت کے دینی
جذبات ان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اگر اس کچھ کے باوجود حکومت ملک کے دینی طبقے
کے ساتھ محاذ آرائی اختیار کرتی ہے تو یہ حکومت کی کم عقلی، کم فہمی اور
غلط حکمت عملی ہوگی۔ حکومت کو غلط حکمت عملی کی بجائے بہتر اور عمدہ حکومت
عملی سے کام لینا چاہیے۔ ہم لوگ تو شدت کے قائل نہیں ہیں، پر امن لوگ ہیں،
ہمیشہ سے امن کا درس دیا ہے اور پر امن ہی رہے ہیں۔ ہم تو آئین اور قانون
کے اندر رہتے ہوئے سب کام کریں گے۔ اگر شدت ہوئی تو حکومت کی طرف سے ہوگی۔
ہمارا تو حکومت سے کوئی محاذ آرائی اورتصادم کا ارادہ نہیں ہے۔
اس متنازع ترمیم کو مسترد کرنے کے بعد مذہبی جماعتیں اس کے خلاف کیا کوئی
بڑی تحریک چلانے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں؟
لیاقت بلوچ: فی الحال تو تحریک کی ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر تحریک
چلانے کی ضرورت پیش آئی تو ضرور چلائیں گے۔ مدارس کے تحفظ کے لیے ہم ہر
اقدام کریں گے۔ مدارس کا تحفظ ہمیں انتہائی عزیز ہے۔ مدارس، مساجد اور منبر
و محراب کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لیے جو اقدام کرنا پڑا کریں گے۔
اگر مدارس اور مذہبی طبقے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو ہم تحریک
چلائیں گے۔ مدارس کا تحفظ تو ضروری ہے۔مساجد اور مدارس جہاں مسلمانوں کے
ایمان کے محافظ ہیں، وہیں پاکستان کی سرحدوں کے بھی محافظ ہیں۔مساجد اور
مدارس میں امن و امان اور بھائی چارے اور اخوت کا درس دیا جاتا ہے۔ اگرچہ
یہ ترمیم قانون کا حصہ بن گیا ہے۔ ہم نے اس سے اختلاف رائے کیا ہے۔ ہمیں اس
بل میں مذہب اور فرقے کو شامل کرنے کے حوالے سے اعتراض ہے۔ ڈاڑھی اور ٹوپی
والے اس بل سے اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کریں گے۔ مذہب اور فرقے کو متعیں
کرکے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ دہشت گردی مذہب کے نام پر ہورہی ہے، حالانکہ
ایسا نہیں ہے۔ مذہب اور فرقے کو متعین کرکے معاملہ خراب ہوگیا ہے۔ ہم مذہبی
جماعتوں نے اس سے اختلاف رائے کیا ہے، یہ ہمارا حق ہے۔ دہشت گردی ختم
کرناحکومت کا کام ہے۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ دہشت گردی چاہے سیاست کی
بنیاد پر ہو یا لسانیت کی بنیاد پر، قومیت کی بنیاد پر ہو یا مذہب کی بنیاد
پر ہر قسم کی دہشت گردی کا خاتمہ کرنا حکومت پر لازم ہے۔ ملک میں ہونے والی
دہشتگردی میں غیر ملکی عناصر ملوث ہیں، جو پاکستان کے خلاف سازش کرتے
ہیں۔ملک دشمن غیر ملکی ایجنٹ پورے ملک میں موجود ہیں، اس بات کا اعتراف کئی
بار اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات بھی کر چکی ہیں، بلوچستان سے بھی کئی بار
غیر ملکی اسلحہ پکڑا گیا ہے اور متعدد بار غیر ملکی ایجنٹ بھی پکڑے گئے
ہیں۔ ان تمام دہشتگردیوں سے چھٹکارہ دلانا حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومت کو
چاہیے کہ ملک میں ملوث غیر ملکی عناصر کا بھی قلع قمع کرے، لیکن حکومت ان
عناصر کو نظر انداز کر کے صرف مدارس اور مذہب کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔
آپ کے خیال میں حکومت دینی مدارس میں کیا اصلاحات کرنا چاہتی ہے؟
لیاقت بلوچ: اس سلسلے میں حکومت کا کوئی ایجنڈا واضح نہیں ہے۔ حکومت کا
ایجنڈا مبہم ہے، حکومت کبھی کچھ کہتی ہے اور کبھی کچھ کہتی ہے، جب حکومت کا
ایجنڈا واضح ہو تبھی بتایا جاسکتا ہے کہ حکومت مدارس میں کون سی اصلاحات کی
خواہاں ہے۔حکومت کا ایجنڈا ہی واضح نہیں ہے۔ |
|