ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ....جان لیوا حادثات کا سبب

شہر قائد میں میمن گوٹھ تھانے کی حدوداسٹیل ٹاﺅن کے قریب لنک روڈ پرہفتے اور اتوار کی درمیانی شب آئل ٹینکر اور مسافر کوچ کے درمیان ہونے والے خوفناک تصادم کے نتیجے میں 67افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ جاںبحق ہو نے والوں میں42 مرد، 11بچے اور 9خواتین شامل ہیں۔حادثے کے نتیجے میں بہت تیز آگ بھڑک اٹھی، جس سے تمام لاشیں جھلس کر ناقابل شناخت ہوگئیں۔ اس انتہائی خطرناک و المناک حادثے کا سبب غیر قانونی طور پر اسمگل ہونے والے پیٹرول کو قرار دیا جارہا ہے، کیونکہ پیٹرول ٹینکر سے ٹکرانے کی وجہ سے شدید آگ نے اپنی لپیٹ میں لے کر مسافروں کو اس قدر جھلسادیا کہ وہ اپنی زندگی بچانے میں ناکام رہے۔ آئل ٹینکرز کی وجہ سے ہونے والا یہ سانحہ پہلا نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی آئل ٹینکر سے تصادم کے نتیجے میں متعدد حادثات رونما ہوچکے ہیں، جن میں سیکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یومیہ ڈیڑھ لاکھ تا ایک لاکھ اسی ہزار لیٹر پیٹرول وڈیزل کراچی اسمگل کیا جاتاہے، جبکہ ٹینکرز اور ٹرکوں کے ذریعے یومیہ 5تا6لاکھ لیٹر ڈیزل کراچی اور اندرون سندھ اورجنوبی پنجاب تک اسمگل کیا جاتاہے، جبکہ مجموعی طورپر 8تا 9لاکھ لیٹر ڈیزل اور پیٹرول ایران سے اسمگل کیا جاتاہے۔ ذرائع کے مطابق سمندری راستے سے بھی ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کراچی اسمگل کیا جاتاہے۔ جبکہ ماضی کی بعض رپورٹس کے مطابق جیکب آباد چیک پوسٹ سے روزانہ 40 سے 50 ٹینکرز گزرتے ہیں، جن میں 15 سے 30 ہزار لیٹر فی ٹینکرز تیل ہوتا ہے۔ کراچی میں آئل ٹینکر حادثے کے بعد سکھر کسٹم پولیس کے افسران اور اہلکاروں نے جیکب آباد ضلع کے ٹھل تعلقہ کے نزدیک گڑھی حسن لنک روڈ پر پنجاب جانے والے ایرانی پیٹرول سے بھرے 3 ٹرکوں کو روک کر ایک لاکھ 10 ہزار لیٹر ایرانی اعلیٰ کوالٹی کا پیٹرول جس کی مالیت 2کروڑ بتائی جاتی ہے، اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بناکر 5 افراد کو گرفتار کرکے عدالت سے 3 تین روزہ ریمانڈ لے کر کراچی جیل منتقل کردیا۔ اس ضمن میں کسٹم سپرنٹینڈنٹ آفیسر سکھر کا کہنا تھا کہ ہم نے رینجرز کی مدد سے کچھ دن قبل جیکب آباد ضلع کے ٹھل تعلقہ نزد گڑھی حسن لنک روڈ پر مخفی اطلاع ملنے کے بعد پنجاب جانے والے 3آئل ٹینکروں کو روک کر تلاشی لی تو ایک لاکھ لیٹر سے زاید اعلیٰ کوالٹی کا پیٹرول برآمد ہوا۔ واضح رہے کہ ماضی میں کراچی کے راستے اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں اسمگلرز نے روٹ بدل کر تافتان پنجگور مند کے راستے جیکب آباد پہنچنا شروع کردیا تھا، جہاں پر کسٹمز اہلکاروں کی ملی بھگتے سے ٹینکرز کلیئر کیے جاتے رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق بلوچستان پیٹرولیم کی اسمگلنگ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ صوبے سے ایران کی سرحدیں قریب ہیں، جہاں سے یہ پیٹرول اسمگل ہوتا ہے۔ بعد میں یہ کوئٹہ اور جیکب آباد کے راستے اندرون سندھ پہنچتا ہے۔ ایران میں پیٹرول اصل قیمت میں فروخت ہونے کے باوجود پاکستان کے مقابلے میں کافی سستا ہے۔اسی لیے اسمگلرز ایران سے پیٹرول لاتے اور پاکستان میں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، لیکن مہنگے داموں خرید کے باوجود ایرانی پیٹرول عوام کے لیے پاکستانی پیٹرول کے مقابلے میں سستا ہے۔ ڈیزل کی اسمگلنگ دوسرے غیر قانونی کاروبار کی نسبت بہت زیادہ منافع بخش ہو چکی ہے۔ ماضی میں یہاں پر افیون کے کاروبار سے منسلک لوگوں کا کہنا ہے کہ ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ افیون کے کاروبار سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ اس طرح سے پیٹرول لانا انتہائی سستا اور زیادہ منافع بخش ہے، یہاں تمام سرحدی علاقوں میں سیکورٹی چیک پوسٹیں موجود ہیں، لیکن ہمیں کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا تو ہم یہ کام کیوں نہ کریں؟ ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والے راستے تو بہت ہیں، لیکن محفوظ ترین پانچ راستے باندی بلو، ابسار، کلاتور، پنچگور، جیوانی ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں، جہاں سے گزرنا آسان نہیں، لیکن اس کے باوجود یومیہ لاکھوں گیلن پیٹرول پاکستان اسمگل کیا جاتا ہے۔ اگر ان علاقوں کو سکیورٹی اداروں کی نظروں سے دور مان لیا جائے تو کیا اداروں کو وہ مرکزی شاہرائیں اور ہائی ویز بھی دیکھائی نہیں دیتے جہاں سے گزر کر یہ پیٹرول صوبوں اور شہروں میں پہنچ کر کھلے عام فروخت کیا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمگلنگ ڈھکے چھپے انداز میں نہیں ہوتی، بلکہ مسافرکوچز اور بڑے بڑے ٹینکروں کے ذریعے کھلے عام ہورہی ہے۔ مقامی میڈیا میں بھی پیٹرولیم کی اسمگلنگ سے متعلق خبریں مسلسل شائع ہورہی ہیں، لیکن اسے روکنے کے لیے ابھی تک کوئی باقاعدہ مہم نا تو شروع ہوسکی ہے اور نہ اسے اب تک روکا جاسکا ہے۔ ذرائع کے مطابق روزانہ ایک لاکھ لیٹر ایرانی پیٹرول غیرقانونی طور پر اسمگل ہوکر نیو کراچی، سرجانی ٹاو ¿ن ، بلدیہ ٹاو ¿ن ، منگھو پیر ، اورنگی ٹاو ¿ن ، ملیر ، بن قاسم ، گلشن اقبال ، کورنگی ، لانڈھی، لیاقت آباد، لیاری، سائٹ ایریا، ماڑی پور، ہاکس بے روڈ، کیماڑی، گڈاپ، شرافی گوٹھ اور کراچی کے دیگر علاقوں میں میں آٹھ سو سے زاید غیرقانونی ڈمپنگ اسٹیشنوں پر بکتا ہے، جن میں سے ساڑھے پانچ سو سے زاید غیرقانونی ڈمپنگ اسٹیشن چلانے میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بااثر شخصیات ملوث ہیں۔

کراچی کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے علاقوں میں اسے اس قدر کھلے انداز میں فروخت کیا جارہا ہے کہ لوگ جگہ جگہ پان کے کھوکھوں کی طرح اسے پلاسٹک کی بوتلوں میں کم داموں خرید رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سرکار کی ملی بھگت اور بھتا وصولی کے بعد ایران سے کراچی آنے والے راستوں میں پولیس اور قانون نافذکرنے والے دیگر اداروں کی اہم چیک پوسٹیں قائم ہونے کے باوجود ایک بھی چیک پوسٹ پر ان گاڑیوں کو روکا نہیں جاتا۔ ذرائع کے مطابق سی پی او سے ایرانی پیٹرول اورڈیزل کی 50سے70گاڑیاں کراچی لانے کی اجازت ہے، اس سے زیادہ گاڑیاں لانے کی اجازت نہیں ہے۔ ایران کے علاقے ”چاہ بہار “اور ”بندر عباس روڈ “کے قریب علاقوں سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل لایا جاتا ہے، ان علاقوں سے کراچی کے ایرانی پٹرول اور ڈیزل کے ڈیلروں کے نمائندے مسافربسوں کے خفیہ خانو ں، ٹریلروں، پانی کے ٹینکروں اور دیگر ہیوی گاڑیوں میں رکھ کر کراچی اسمگل کرتے ہیں، یہ گاڑیاں ایران سے مند بلو وہاں سے تربت اور حب پہنچائی جاتی ہیں، حب میں پولیس اور قانون نافذکرنے والے اداروں کی تین چیک پوسٹوں پر تعینات پولیس اہلکاروں اورایندھن اسمگل کرنے والوں میں زبانی کوڈ اور ڈی کوڈ کا تبادلہ ہوتا ہے، جس کے بعد ایرانی پیٹرول یا ڈیزل سے بھری گاڑی، ٹینکر یا ٹریلر کو کراچی میں داخلے کی اجازت دے دی جاتی ہے، جہاں سے یہ گاڑیاں ماڑی پورروڈ اور ناردرن بائی پاس روڈ سے شہر کے مختلف علاقوں میں بنائے گئے ڈمپنگ اسٹیشنوں میں جاتی ہیں، ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی گاڑیاں جب ان سڑکوں پر آتی ہیں تو ان کا سامنا ماڑی پور، شیرشاہ، منگھوپیر، بغدادی، ڈاکس اورجیکسن تھانوں کی پولیس سے پڑتا ہے، ان گاڑیوں کے ڈرائیور یہاں بھی پولیس اہلکاروں کے ساتھ خفیہ کوڈ کا تبادلہ کرتے ہیں، یہاں ایک پرچی پولیس اہلکاروں کو پیش کی جاتی ہے اور پولیس اہلکار ا س پرچی پر لکھے نمبر اپنے ریکارڈ میں چیک کرکے اطمینان کے بعد گاڑی کو آگے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں، تھانے کا موبائل افسر ایس ایچ اوز سے رابطہ کرکے آگاہ کر تا ہے کہ مذکورہ گاڑی اس نے اپنے علاقے سے کلیئر کروادی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ روزانہ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی 50 گاڑیاں کراچی آتی ہیں، مبینہ طور پر فی گاڑی 5ہزار روپے بھتا وصول کیا جاتاہے، ایک ہفتے میں 350 گاڑیاں کراچی آتی ہیں، اس طرح ایک ہفتے میں مبینہ طور پر ایک کروڑ75لاکھ روپے اور ماہانہ 7کروڑ روپے بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ ہر علاقے میں قائم کیے گئے ڈمپنگ اسٹیشنوں سے بھی پولیس علیحدہ لاکھوں روپے بھتہ وصول کرتی ہے اور بھتے کے عوض ان کے ڈمپنگ اسٹیشنوں کی نگرانی بھی کرتی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایندھن کی یہ اسمگلنگ ملک کو دوہرا نقصان پہنچ رہی ہے۔ پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کے مطابق شہر میں 500 سے زاید غیر قانونی دھابے اور دکانوں پر اسمگل شدہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات فروخت کی جارہی ہیں، جس سے قومی خزانے کو یومیہ 40.50 ملین روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو دوسری جانب قیمتی انسانی جانوں کا رسک بڑھ گیا ہے۔ ایران سے پیٹرول، ڈیزل اور پیٹرولیم کی دیگر مصنوعات کی اسمگلنگ کئی سال سے جاری ہے، لیکن آئل ٹینکرز سے ہونے والے حادثات نے اسے مزید عیاں کردیا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700908 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.