جان لیوا ٹریفک حادثات.... لمحہ فکریہ!

شہر قائد میں میمن گوٹھ تھانے کی حدوداسٹیل ٹاﺅن کے قریب لنک روڈ پرہفتے اور اتوار کی درمیانی شب آئل ٹینکر اور مسافر کوچ کے درمیان ہونے والے خوفناک حادثے کے نتیجے میں 67 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ جاںبحق ہو نے والوں میں42 مرد، 11بچے اور 9خواتین شامل ہیں۔ حادثے کے نتیجے میں بہت تیز آگ بھڑک اٹھی، جس سے تمام لاشیں جھلس کر ناقابل شناخت ہوگئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ڈھائی گھنٹے تاخیر سے پہنچیں، جس کی وجہ سے جانی نقصان زیادہ ہوا۔ ریسکیو اہلکاروں کے مطابق حادثے کا ذمہ دار آئل ٹینکر کا ڈرائیور تھا، جو حادثے کے بعد کنڈیکٹر کے ہمراہ موقع سے فرار ہوگیا۔ حادثے میں زخمی مسافر کے مطابق بس میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے اور بس کی چھت پر بھی مسافر سوار تھے۔ دوسری جانب بس حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بس میں گنجائش سے زیادہ افراد سوار تھے، جن کی تعداد 60 سے70 مسافروں پر مشتمل تھی۔ کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ بس کی چھت پر غیر قانونی طور پر ایندھن رکھا ہوا ہو۔ انتظامیہ نے ہر بار کی طرح حادثے کی تحقیقات کر کے حادثات کی روک تھام کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دو ماہ قبل بھی خیر پور سندھ میں ہونے والے ٹریفک حادثے میں 62افراد جان کی بازی ہار گئے تھے، اسی قسم کے کئی خوفناک حادثات ماضی میں رونما ہوتے رہے ہیں۔

پاکستان بھر میں دن بدن ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح لمحہ فکریہ ہے، جس میں ہزاروں قیمتی جانیں تسلسل کے ساتھ لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں اوسطاً 15 سے 30 افراد روزانہ ٹریفک حادثات کا شکار ہوکر اپنی قیمتی جانیں گنواتے ہیں اور متعدد افراد ہمیشہ کے لیے معذور بھی ہوجاتے ہیں۔ آئے روز ملک کے مختلف حصوں میں ٹریفک کے بڑے بڑے حادثات بھی پیش آتے رہتے ہیں، جن میں بیک وقت بڑی تعداد میںافراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ جیسا کہ لنک روڈ پر حادثے میں ہوا۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹریفک حادثات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ہرسال اوسطاً تقریباً 17 ہزار سے زاید افراد حادثات کا شکار ہو کر جاں بحق ہو جاتے ہیں اور 40 ہزار سے زاید لوگ زخمی ہو تے ہیں۔ جبکہ پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں ہر سال اندازاً نو ہزار روڈ حادثات میں لگ بھگ پانچ ہزار افراد جاں بحق، جبکہ دس ہزار سے زاید افراد زخمی ہو جاتے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف 2013 میں پاکستان میں 8885 ٹریفک حادثات میں 4672 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 9864 افراد زخمی ہوئے۔

انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے پاکستان میں ٹریفک حادثات ہونا ایک معمول کی بات ہے اور ٹریفک حادثات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر کبھی بھی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔ ملک میں ٹریفک حادثات کی شرح کافی زیادہ ہے، مگر افسوس کہ ہر حادثے کے بعد انتظامیہ اپنی نااہلی چھپانے میں مصروف ہو جاتی ہے اور حادثات کی روک تھام کے لیے لائحہ عمل طے کرنے کے اعلانات کیے جاتے ہیں، لیکن کسی بھی حادثے کے بعد اگلے سانحے سے بچاﺅ کے لیے کسی قسم کا دیر پااور مستقبل تدارک کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتاہے، یہی وجہ ہے کہ ہر سانحے کے بعد کوئی نیا ٹریفک حادثہ رونما ہوجاتا ہے، مگر حاکم وقت اور صوبوں کی انتظامیہ کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حادثات میں بے پناہ اضافے کی عمومی وجوہات قانون کی خلاف ورزی، مخدوش سڑکیں، ٹرانسپورٹ کی خراب حالت، ڈرائیوروں کی غفلت، تیز رفتاری سے گاڑیاں چلانا اور گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کرنا، منصوبہ بندی سے ہٹ کر بنائے گئے خطرناک موڑ اور دو رویہ سڑک کے درمیان اور اطراف میں حفاظتی جنگلے کا نہ ہونا حادثات کا موجب بنتا ہے۔ سی این جی کِٹس کا پھٹ جانا بھی حادثات کا ایک محرک ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں ہونے والے اکثر حادثات کی بڑی وجہ ڈرائیوربھی بنتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گاڑیوں کے مالکان ڈرائیورز کی تعداد کم رکھتے ہیں، تاکہ پیسے بچائے جاسکیں، کیونکہ ڈرائیوروں کی تعداد کم ہونے کی صورت میں تنخواہ بھی کم لوگوں کو دینی پڑتی ہے، لیکن اس سے پھر یہ ہوتا ہے کہ ڈرائیورز کم ہونے کی صورت میں ایک ڈرائیور کو ہی چوبیس چوبیس گھنٹے گاڑی چلانا پڑتی ہے، اس دوران وہ اپنے آپ کو زبردستی جگانے کے لیے منشیات وغیرہ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ بعض دفعہ نیند کی کمی کی وجہ سے ڈرائیورز دوران ڈرائیونگ اچانک نیند آنے کی وجہ سے گاڑی پر قابو برقرار نہیں رکھ پاتے، جس سے حادثہ رونما ہوجاتا ہے۔ بے شمار حادثات رونما ہونے کے باوجود بھی حکومت نے ابھی تک گاڑی مالکان کو اس بات کا پابند نہیں کیا کہ وہ ڈرائیورز کو کئی کئی گھنٹے زبردستی گاڑی چلانے پر مجبور نہ کریں اور نہ ہی حکومت ڈرائیورز کو منشیات کے استعمال سے روک پائی ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ڈرائیورز کے لیے بہتر سے بہتر لائحہ عمل طے کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ پورے ملک میں ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں ڈرائیور اور کنڈیکٹر حضرات کی مناسب تربیت ہو سکے۔ ان تربیتی اداروں میں ا ن میں ٹریفک قوانین سے متعلق شعور بیدار کیا جائے۔ ادارہ سے تربیت کے بعد انہیں باقاعدہ سرٹیفکیٹ کا اجراءکیا جائے۔ اس کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان کو بھی پابند کیا جائے کہ اس سرٹیفکیٹ کے حامل افراد کو ہی کنڈیکٹر اور ڈرائیور رکھیں، بصورت دیگر مالکان کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ اگرایک ڈرائیور تربیت یافتہ ہوگا تو یقینی بات ہے کہ نہ صرف ٹریفک کے مسائل ختم ہوں گے، بلکہ حادثوں میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے زاید مسافروں کو سوار کرنے پر بھی پابندی عاید کی جانی چاہیے۔ فنی طور پراَن فٹ، ناقص، خستہ حال اور سست رفتار گاڑیوں کو سڑک پر آنے سے روکا جائے۔ اگرحکومت چاہتی ہے کہ ملک میں ٹریفک حادثات کنٹرول ہوجائی تو اس حوالے سے سخت قوانین بنانے ہوں گے اور ان پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ ٹریفک حادثات میں زیادہ اموات کا سبب بسوں کے خراب گیٹ بھی بنتے ہیں، کیونکہ گیٹ خراب ہونے کی وجہ سے حادثہ کے وقت متاثرہ افراد گیٹ سے نکل کر جان نہیں بچا پاتے اور اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں، لہٰذا بسوں کے گیٹ سمیت مکمل فٹنس بھی انتظامی سطح پر ضروری قرار دی جانی چاہیے۔

واضح رہے کہ 1985ءمیں ٹرانسپورٹ اینڈ روڈ ریسرچ لیبارٹری، کروک تھارن برک شائر، برطانیہ کے اشتراک سے پاکستان میں ٹریفک حادثات پر مبنی رپورٹ پیش کی گئی تھی، A.J. Downing نے ”روڈ ایکسیڈنٹس ان پاکستان اینڈ دی نیڈ فار امپرومنٹس ان ڈرائیور ٹریننگ اینڈ ٹریفک انفورسمنٹ“ کے تحت اپنی مفصل رپورٹ میں نہ صرف حادثات کی وجوہات پر روشنی ڈالی تھی، بلکہ وہ نکات بھی پیش کیے تھے جن پر اگر دس فیصد بھی عمل کیا جاتا تو ٹریفک کے ان بڑھتے ہوئے حادثات کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ 1985ءسے اب تک ٹریفک کی صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور اس تناظر میں مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نہ صرف ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں، بلکہ ایک ریسرچ ٹیم بھی اس سلسلے میں قائم کی جائے جو موجودہ دور کے ٹریفک مسائل پر مبنی رپورٹ اور گزارشات مرتب کر سکے۔ کسی بھی قوم کی تہذیب و تمدن کا اندازہ اس کے ٹریفک نظام پر ایک نظر ڈالنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ مہذب معاشروں میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے لیے نہ صرف سخت قوانین موجود ہیں، بلکہ عوامی شعور کی بیدار ی کے لیے مختلف ادارے بھی قائم ہیں۔ متعدد ممالک میں ٹرانسپورٹ کا نظام جدید خطوط پر استوار ہے۔ یورپین ممالک میں انتہائی خوفناک حادثات کے دوران بھی اموات کی تعداد چار پانچ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ بلکہ بیرون ممالک میں متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ سیکڑوں گاڑیوں کے ایک ساتھ ٹکرانے کے بعد بھی انتہائی مضبوط و عمدہ نظام کی وجہ سے ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے، جبکہ طبی عملہ بھی فوری امداد کے لیے حاضر ہوجاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنے ملکی اور ٹریفک قوانین کی پاسداری کرتے ہیں، جبکہ ہماری قوم میں قوانین پر عملدرآمد کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار اور حادثوں کے مشاہدات اس بات کے غماز ہیں کہ ٹریفک کے زیادہ تر حادثات حد سے زیادہ رفتار اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہی رونما ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک مسائل انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ملک میں ٹریفک حادثات پر کنٹرول کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ حکومت قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانے کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور پیدا کرے، تاکہ پوری قوم مل کر حادثات سے بچنے کی کوشش کرے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702114 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.