بیوروکریسی بھارت کی ہو یا پاکستان کی ۔ بنیادی
تربیت اور عمومی حالات ایک جیسے ہونے کے سبب ان لوگوں کا طرز عمل بھی ایک
جیسا ہی ہے ۔ جس کام میں دلچسپی نہ ہو وہ ہونے میں اک عمر لگتی ہے اور جس
میں کوئی فائدہ نظرآئے وہ منٹوں میں ہو جاتا ہے۔ بعض فائلیں میزوں پر اتنا
عرصہ پڑی رہتی ہیں۔ کہ وہیں پڑے پڑے دیمک لگ جاتی ہے۔ ہمارے ایک دوست کا
سینارٹی کا معاملہ تھا۔ بہت دفعہ حکام سے ملے۔ فائل کا پتہ بھی نہیں
چلتاتھا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک ڈپٹی سیکرٹری کی میز پر ملی۔ اس سے گلا کیا
کہ بھائی کئی ماہ ہوگئے۔ کیاوجہ ہے کہ آپ نے اسے واپس بھیجنا پسند نہیں
کیا۔ ہماری بات انہیں ناگواری گزری۔ کہنے لگے مجھے پوچھنے والے آپ کون ؟
کہا بھائی سرکار کے ملازم ہو خلق کی خدمت تمھارا نصب العین ہونا چاہئے ۔
غصہ کر گئے ۔ٹھوری تلخی ہو گئی ۔ بس اس دن کے بعد فائل ہی غائب ہوگئی۔ ڈپٹی
سیکرٹری صاحب کہتے تھے کہ میں نے اسی دن بھیج دی تھی۔ مگر کہیں واپس جانے
کے بارے فائل کا اندراج نظر نہیں آتا تھا۔ہر شکایت اور ہر سعی ناکام رہی۔
فائل کو نہ ملنا تھا نہ ملی۔ ڈیڑھ سال بعد وہ ڈپٹی سیکرٹری تبدیل ہوئے تو
فائل ان کی دراز سے نکلی ۔ بہر حال ایسے چھوٹے لوگ بھی بیورو کریسی میں
موجود ہیں کچھ ہمارے سیاستدانوں کا کمال ہے کہ ایسے چھوٹے لوگ ان کی ضرورت
ہیں۔ بیوروکریسی اگر اخلاقی طور پر پست ہو تو سیاستدان اسے پسند کرتے ہیں۔
بااصول ، کھرے اور ایماندار الوگ تو سیاسی لوگوں کو بھاتے ہی نہیں۔
اے کے ورما بھارت کے صوبے راجستان میں1992 میں پبلک ورکس ڈیپا رٹمنٹ میں
بطور ایکسین کام کررہے تھے۔ انہوں نے محکمے کوچھٹی کی درخواست دی جو اس وجہ
سے رد کردی گئی کہ وہ پہلے ہی بہت چھٹیا ں لے چکے تھے۔ ہندوستان کے قوانین
کسی حدتک ملازمین کو تحفظ دیتے ہیں۔ انہی قوانین کا سہارہ لے کر وہ کسی نہ
کسی طرح اپنا کیس لٹکاتے رہے اور محکمہ کے لوگ جوڑتوڑ کے نتیجے میں ان کی
مدد کے لیے ان کی فائل بھی دباتے رہے۔ 1992 ء میں انہیں محکمے میں فوراً
رپورٹ کرنے کو کہاگیا تھا۔مگر اس محکمانہ خط پر 2014 تک عمل نہ ہوسکا اور
انہوں نے محکمہ میں رپورٹ نہیں کی۔ 2014 میں حکومت نے لبیر لازمیں ترمیم
کی تاکہ ایسے افراد کو رکھنے اور نکالنے میں حکومت اور آجبرو ں کو آسانی
ہو۔ صنتکاروں ، آجبروں اور گورنمنٹ آفسیرز نے ان قوانین کو خوش آئند قرار
دیا جب کہ لیبریونینز نے ان کی مخالفت کی ۔ مگر نئے قوانین نافد ہو گئے جن
کے نفاد کے بعد جناب اے کے ورما کو 22 سال بعد نوکری سے فارغ کردیا گیا ہے۔
1992 ء ہی کی بات ہے میرے والد کو حکومت پنجاب کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے
دو سال ہوئے تھے اور وہ ان دنوں گھر میں ہی ہوتے تھے۔ میرا ایک یونیورسٹی
کاکلاس فیلو آٹھ دس سال کے وقفے کے بعد مجھے ملنے آیا،گپ شپ لگانے کے دوران
پتہ چلا کہ وہ دس سال پہلے بحثیت لیکچرار کام کر رہا تھا مگر بغیر بتائے
پاکستان سے باہر چلا گیا اور اب آٹھ نو سال بعد واپس آیا ہے ۔ نئی نوکری
ڈھونڈنے کی کافی کوشش کی ہے مگر نہیں ملی۔ پرانی لیکچرار شپ کی بحالی کے
لئے بھی چیف سنٹر صاحب سمیت بہت سے باثر لوگوں کو بھی ملا ہے مگر کوئی مدد
کو تیار نہیں۔
میرے والد صاحب چونکہ تمام عمر پوسٹنگ ، ٹرانسفر کا کام کرتے رہے تھے۔ اس
لئے ان سے مشورہ کرنا آیا تھا کہ کوئی صورت بحالی کی ہوسکتی ہے۔ والد صاحب
نے مسکرا کر کہا اصولی طورپر کوئی صورت نہیں۔ کوئی میرے جیسا شخص وہاں رہا
ہو تو تمھارا کیس کب کا ختم ہو چکا ہوگا۔ اور اگر کوئی کام چور یا کام سے
ناواقف لوگ لگاتار وہاں تعنیات رہے ہوں تو پھر ممکن ہے ۔ تم کسی سفارش یا
واقفیت کو چھوڑو، سید ھا اس کلرک سے ملو جس کے پاس تمہاری فائل ہوگی۔ اس سے
اپنی فائل لیکر دیکھو۔ اگر اس فائل کے مطابق تمہیں فائل نوٹس نہیں جاری
ہوا۔ تو کلرک کو کہو فائنل نوٹس ایشو کرے۔ سوئے اتفاق نوٹس ایشو نہیں ہوا
تھا۔ اس نے کلرک کو فائل پر کاروائی کا کہا۔ ایک ہفتے بعد اسے نوٹس ملا کہ
تم بار بار کے کہنے کے باوجود محکمے کو رپورٹ نہیں کررہے۔ یہ فائنل نوٹس
دیا جارہا ہے۔ اگر اس کی تعمیل میں تم نے اگلے پندرہ دن میں محکمے میں
رپورٹ نہ کیا تو تمھیں سروس سے برخاست کردیا جائے گا۔ نوٹس ملتے ہی میرے
دوست نے اگلے دن محکمے میں رپورٹ کردی۔ 2012 ء میں وہ 35 سال سروس پوری
کرنے کے بعد باعزت ریٹائرڈ ہواہے۔ جوآٹھ دس سال وہ باہر رہا۔ وہ عرصہ بھی
اس نے کچھ نہ کچھ کرکے ٹھیک کر لیاتھا۔ اس ملک میں سب ممکن ہے۔ مشکل صرف
اورصرف ایماندارآدمی کو ہوتی ہے۔ فنکاروں اورکرپٹ لوگوں کے لئے یہ ملک جنت
سے کم نہیں۔
بجلی کی آنکھ مچولی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔رائے ونڈ روڈ کے
علاقے میں جہاں میں رہتا ہوں وہاں مجھے ایک اور مشکل کا سامنا ہے ۔ رات دس
بجے کے بعد اگر کوئی خرابی ہو جائے تو رات بھر صحیح نہیں ہوتی۔رات کے عملے
کو سونا ہوتا ہے اور وہ ڈٹ کر سوتا ہے۔ صبح آٹھ بجے نئی آنے والی شفٹ کے
ملازمین دس بجے کے بعد کسی وقت بھی بہرحال اس خرابی کو دور کر دیتے ہیں۔ایک
ٹی وی ٹاک میں بجلی اور پانی کے وزیر مملکت نے فرمایا کہ اگر کسی کو شکایت
ہو تو میرے نمبر پر SMS کر دے میں فوری طور پر اس کی شکایت کا ازالہ کروں
گا۔ ہر دس بارہ دن بعد کے مجھے شکایت ہوتی ہے ۔ میں ہر دفعہ SMS کرتا ہوں
لیکن شکایت اپنے وقت پر ہی دور ہوتی ہے۔ ہمارے وزیروں کے بھی کھانے کے دانت
اور ہیں دکھانے کے اور۔ان کی ٹی وی کی نعرے بازی اورعملی زندگی میں ہمیشہ
واضع تضاد ہوتا ہے۔اگر یہ فرق نہ ہوتا تو یقیناً ہمارے حالات بہت مختلف
ہوتے۔ |