بھارتی حکمرانوں کی خصلتیں

دو جانور کتوں اور کووں کی ایک خصلت ایک جیسی ہے وہ یہ کہ اگر ان کے سامنے آپ کسی کام سے زمین کی طرف جھک جائیں تو یہ سمجھیں گے کہ یہ مجھے مارنے کے لیے پتھر اٹھا رہے ہیں اور پھر یہ فوراَ راہ فرار اختیار کرتے ہیں ۔آپ کسی وقت تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ اگر آپ کی دیوار پر کوا بیٹھا ہوا ہو تو آپ اس کے سامنے زمین پر کچھ اٹھانے کے لیے جھک جائیں اور کوا آپ کو جھکتا ہو ا دیکھ لے تو وہ فوراَ اڑ جائے گا ۔اسی طرح اگر سامنے سے کتا آرہا ہو اور صرف زمین پر ایسے ہی جھک جائیں کہ جیسے آپ کچھ اٹھا رہے ہوں اور وہ آپ کو جھکتا ہوا دیکھ لے تو اسی وقت وہ یو ٹرن لے کر بھاگ جائے گا ۔آپ کے ہاتھ میں چاہے پہلے سے پتھر ہو اور دیکھ بھی لے لیکن وہ نہیں بھاگے گا جب تک آپ اسے مار نہیں دیتے ۔اسی طرح اگر آپ کار میں جارہے ہوں اور کوئی کتا کار کے پیچھے بھونکتا ہوا دوڑنے لگے ویسے تو کچھ دیر بعد وہ خود ہی تھک کر رک جائے گا لیکن تجرباتی طور پر اگر آپ گاڑی روک دیں تو وہ بھی بھاگتے بھاگتے رک جائے گا اور اگر آپ دروازہ کھول کر اترنے لگیں تو وہ یہ سمجھ کر کہ مجھے مارنے کے لیے اترا جارہا ہے الٹے پاؤں بھاگنا شروع کردے گا ۔اسی لیے ان کو چالاک جانور کہا جاتا ہے ،جب کہ حد سے بڑھی ہوئی چالاکی بیوقوفی کی حدوں کو چھونے لگتی ہے ۔کتے کی ایک اور اضافی خصلت جس کا قرآن میں میں بھی ذکر ہے یہ ہے کہ اس کے منہ سے ہر وقت رال ٹپکتی رہتی ہے ۔پھر وہ زمین کی طرف دیکھتا ہوا بھاگتا رہتا ہے کہ جیسے ہی کوئی چیز نظر آئے اس پر منہ مار دے ۔یا پھر یہ کہ اس کی طرف کوئی ہڈی پھینکے وہ دوڑ کر اسے فوراَ منہ لیتا ہے ،چاہے وہ اس کے لیے کھانے والی ہو یا نہ ہواور چاہے اس کا منہ زخمی ہو جائے ،اس کے منہ سے رال ٹپکنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہر چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا اور موقعہ ملتے ہی اس پر منہ مارنا اس کی فطرت کا حصہ ہے ۔
اتفاق سے ہمارے پڑوس میں جو ملک ہے اس کے حکمرانوں کی خصلتیں بھی اسی طرح کی ملتی جلتی نظر آتی ہیں ۔آج کل پاک بھارت سرحدوں پر جو کچھ ہورہا ہے جس میں ہمارے سو کے لگ بھگ شہری اور فوجی شہید ہو چکے ہیں اسی قسم کی فطرت کا یک حصہ ہے ۔اس کی وضاحت تو بعد میں ازخود ہو جائے گی ۔اس وقت رال ٹپکنے والی فطرت پر کچھ بات ہو جائے ۔تقسیم ہند کے وقت جو فارمولہ مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان لارڈماؤنٹ بٹن کی ثالثی میں طے پایا تھا وہ یہ تھا برصغیر کی آزاد ریاستیوں میں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہو گی وہ حصہ پاکستان کو ملے گا بشرطیکہ اس آبادی اکثریت ایسا چاہے اور یہ کہ جہاں ہندوؤں کی آبادی زیادہ ہو گی وہ ریاستیں اپنے عوام کی رائے سے ہندوستان میں شامل ہوں گی اور جو ریاستیں آزاد رہنا چاہیں وہ آزاد رہ سکتی ہیں ۔

اس اصول کے تحت جونا گڑھ کی ریاست جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اس کا مہاراجہ چونکہ ہندو تھا اس لیے بھارتی حکمرانوں کی پہلے اس پر رال ٹپکی اور طاقت کے بل پر جونا گڑھ کی ریاست کو اپنے ساتھ شامل کرلیا ۔پاکستان کے پاس بھاولپور اور سوات کی ریاستیں آئیں جو کچھ عرصے تک آزاد رہیں اور پھر اپنی رضامندی اور خوشی سے پاکستان میں ضم ہو گئیں اس کے لیے پاکستان کو اس طرح کی فوج کشی نہیں کرنا پڑی جیسا کے ہندوستان نے حیدرآباد دکن کی ریاست کے ساتھ کیا ۔جب والی دکن جو مسلمان تھے نے یہ اعلان کیا کہ ہم آزاد ریاست کے طور پر رہیں گے تو پاکستان سے مولانا مودودی مرحوم و مغفور نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے والی دکن کو یہ مشورہ دیا تھا وہ بھارتی حکومت سے کچھ شرائط منوا کر بھارت میں شمولیت کا اعلان کردیں اس لیے کہ اس ریاست میں ہندؤوں کی اکثریت تھی ۔لیکن والی دکن نے یہ مشورہ نہیں مانا اور بعد میں پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ بھارتی حکمرانوں کی اپنی ہی ہڈی پر رال ٹپکی اور فوج کشی کر کے حیدرآباد کو اپنے ساتھ ضم کرلیا ۔

کشمیر جو مسلمانوں کی اکثریت والی ریاست تھی اور کشمیر کے باشندے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے بھارتی حکمران جن کی ہروقت رال ٹپکتی رہتی ہے نے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر دیں در اصل جس وقت دونوں ممالک آزاد ہوئے تھے تو ہندوستان کے پاس تو پہلے سے اداروں کا مضبوط نظام موجود تھا جب کہ دوسری طرف پاکستان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اس کو اپنے تمام اداروں کو نئے سرے سے تشکیل دینا تھا ۔بھارت نے پاکستان کی اس کمزور پوزیشن سے فائدہ اٹھایا اور جونا گڑھ کی ریاست پر قبضہ کرنے کے بعد کشمیر پر فوج کشی کر کے اس کو پورا ہڑپ کرنا چاہا یہ تو اﷲ بھلا کرے ہمارے قبائلی مجاھدین کا جنھوں نے جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھات کے حلق سے کشمیر کے ایک حصے کو چھینا جو آج آزاد کشمیر کے نام سے پاکستان کے ساتھ ملحق ہے ۔اب یہ الگ بات ہے کہ آج ہم نے ان ہی مجاھدین پر دہشت گردی کالیبل لگادیا جنھیں پاکستانی فوج بھی ماررہی ہے اور افغانستان کی طرف سے بھارتی خفیہ ایجنسیاں ان کے خلاف کارروائی کررہی ہیں -

آج بھی بھارت کو یہ خوف ہے کہ پاکستان میں قبائلی علاقوں کی طرف سے سکون ہو گیا اور یہاں امن و امان قائم ہو گیا تو یہی قبائلی مجاھدین پاکستانی فوجوں کے ساتھ مل کر بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کو آزاد کراسکتے ہیں ۔پھر معاملہ یہیں تک نہیں رکا بلکہ1984میں سیاچن کا محاذ کھولا اور بلند پہاڑیوں پر جو انتہائی سرد علاقہ ہے جہاں انسانی زندگی بھی امر محال ہے اپنا قبضہ جمالیا حالانکہ اس محاز پر بھارت کو پاکستان سے کہیں زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑرہے ہیں لیکن جس طرح کتا ہر ہڈی اور پتھر پر اپنا منہ مارتا ہے اور خود اپنا منہ زخمی کر لیتا ہے یہی صورتحال بھارت کی ہے سیاچن کی پہاڑیوں پر اس کا پیسہ ضائع ہو رہا ہے اور کشمیر میں اس کی عسکری قوت ضائع ہو رہی ہے ،ویسے تو اب پاکستان میں بھی نالائق اور مفاد پرست حکمرانوں کی وجہ پاکستانی فوج سنگین داخلی مسائل میں الجھ کر رہ گئی ہے ۔

سرحدوں پر بھارت کی طرف سے جو نیم جنگی کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ ایک لمبی اور وسیع تر منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔پاکستان کی کمزور معیشت ،نااہل حکمران،داخلی صورتحال ،دہشت گردی کا عفریت وہ عوامل ہیں جنھوں نے بھارتی حکمرانوں کے نہ صرف حوصلوں کو بڑھایا ہے بلکہ اب بھارت امریکی اور مغربی ممالک کی حمایت سے پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے ۔نریندر موری کی متعصب حکومت جس کو یہ تو یاد ہے اب سے ہزاروں سال پہلے بھارت ماتا ایک تھی اور اسے پھر سے ایک کرنا ہے لیکن اس حکومت کو یہ یاد نہیں ہے کہ اب سے سڑسٹھ سال قبل ان کے لیڈروں نے خود اقوام متحدہ میں جا کر یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کرائیں گے ۔

ایک بھارتی صحافی ایک چینل پر خود یہ بتارہے تھے بلکہ اپنی ہی حکومت پر تنقید کررہے تھے کہ جب آئے روز چین سے جھڑپ ہوتی ہے اور اس میں بھارتی فوجی بڑی تعداد میں ہلاک ہوتے ہیں تو وہاں پر بھارتی حکومت چین سے کوئی احتجاج نہیں کرتی اور اس کا بدلہ وہ پاکستان سے نکالتی ہے سرحدوں کی بھارتی فوج کی خلاف ورزیوں پر پاکستان نے جس طرح صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا ہے اسے بھارتی حکمران پاکستان کی کمزوری پر محمول کررہے ہیں پاکستان اگر بھارتی حکمرانوں کے سامنے صرف پتھر اٹھالے تو یہ الٹے پاؤں بھاگتے ہوئے نظر آئیں گے جس طرح جنرل ضیاء الحق نے راجیوگاندھی کے کان میں یہ جملہ کہہ کر اس کے چہرے کا رنگ فق کردیا تھا کہ بھارت اگر ایٹم بم استعمال کرے گا تو دنیا سے مسلمان ختم نہیں ہو گے لیکن اگر پاکستان نے ایٹم بم استعمال کرلیا تو دنیا سے ہندو ختم ہو جائیں گے ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 41220 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.