پیٹرول بحران ذمہ دار کون؟

پیٹرول ڈلوانے کے لئے جیسے ہی گاڑی میں نے پمپ پر لگی لائن میں لگائی تو میرے پیچھے آنے والی گاڑی میں سے ایک بوڑھا شخص اترا شاید اس نے میری گاڑی پر لگی پریس کی نمبر پلیٹ دیکھ لی لائن چونکہ بہت لمبی تھی اور کچھوئے کی چال سے چل رہی تھی سو اس سے گپ شپ شروع ہو گئی بعد ازاں جب تعارف ہوا تو پتا چلا کہ وہ واقعی بہت ذمہ دار پاکستانی شہری تھا پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں اور سیاسی حالات پر بہت ہی گہری نظر تھی اس کی اس کا کہنا تھا پاکستانی قوم ہمیشہ سے ہی بد قسمت ثابت ہوئی ہے ہر بار ان کے ساتھ وہ لوگ دھوکہ کر جاتے ہیں جن کوہم اپنے ووٹوں سے اقتدار کے ایوانوں میں لاتے ہیں ان حکمرانوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور آنے کے بعد کے بیانات اور وعدوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ تو آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی رو سے رکن اسمبلی بننے کے قابل ہی نہیں ہوتے اب جب ایسے ناہل لوگوں کو ہم اپنا حکمران بنائیں گئے تو اس طرح کے بحران تو روز آئیں گے اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ان بحرانوں کا شکار ہوتے جائیں گے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن دونوں ہی ایک دوسرے سے گھتم گھتا ہیں پی ٹی آئی کو تو سائیڈ پر کر دیں وہ تو اپوزیشن میں ہے مگر ن لیگ تو حکومت ہے اور ملک میں تبدیلی اور بہتری کی باتیں کرتے کرتے ان کے ارکان نہیں تھکتے مگر عوامی مسائل کیا ہیں ان کا حل کیا ہے ان کا تدارک کیسے کیا جا سکتا ہے ان کو نہ پہلے کھبی پتا تھا اور نہ ہی اب ہے مجھے ایک دم سے لگا کہ شاید جناب اب غصے میں ہو رہے ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے درمیان اب کئی اور لوگ بھی جمع ہو چکے جو ان کی باتوں میں ہاں ملا کر ان کے موقف کی تاعید کر رہے تھے ان لوگوں کی چہروں سے پیٹرول نہ ملنے کی پریشانی صاف نظر ا ٓ رہی تھی ۔میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ عوامی مسائل ہر آدمی کو نظر آ رہے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو نظر نہیں آتے کہنے لگے کہ جناب یہ جو اقتدار ہوتا ہے یہ اگر کسی کو مل جائے تو اس کی نظر کمزور ہو جاتی ہے عوام اس کو کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں مگر جب یہ نہ ہو تو سب کچھ صاف ،صاف نظر آتا ہے مثال اس کی انھوں نے یوں دی کہ جب سابق دور حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی تب تو ہمارے چھوٹے میاں صاحب لوڈ شیڈنگ کے خلاف مینار پاکستان پر ان کے خلاف دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے مگر اب جب ان کی حکومت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وہی حالت ہے انھوں نے یہ گوارا نہیں کیا کہ بڑے میاں جی کو بول کر اس لعنت سے ہی چھٹکارا دلوا دیں ۔قوم جن بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے وہ بقول ن لیگ کے ان کو ورثے میں ملے ہیں مگر اس وقت جو لائینیں پیٹرول سٹیشنوں پر لگی ہوئی ہیں وہ بحران تو ورثے میں ملا ہو ا بحران نہیں بلکہ خود کا پیدا کرتا ہے اب اس کو اندورنی سازش کہا جائے یا بیرونی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا قوم سب کچھ دیکھ رہی ہے پاکستانی قوم کو جو وقت اپنی ترقی کے لئے اپنے مسائل کو ختم کرنے کے لئے محنت کرنے کے لئے مل سکتا تھا آج پورا پاکستان اس کو ان لائینوں میں لگ کر ضائع کر رہا ہے اس میں نقصان کس کا ہے عوام کا نہیں ،حکمرانوں کا نہیں بلکہ ملک پاکستان کا نقصان ہورہا ہے -

کہنے کو تو ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں اور ایک ذمہ دار ایٹمی ملک اور ایک بڑا اور بہترین نہری نظام رکھتے ہیں مگر آج بھی لوڈ شیڈنگ ،گیس بحران ،بجلی بحران اور اب پیٹرول بحران کی زد میں ہیں اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے صرف حکمران اس کے ذمہ دار ہیں جن کی نالائقیوں اور اقربا ء پروری،اور من پسند افراد کو نوازنے کی وجہ سے ایسے ایسے لوگوں کو ان اہم ترین محکموں کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے جنھوں نے اس ملک میں ایندھن فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی ہوتی ہے ایسے ناہل لوگ بھلا کیونکروہ کام کر سکتے ہیں جس کی وہ الف ب بھی نہیں سمجھتے ۔ان صاحب کی یہ تقریر اس وقت تک جاری رہی جب تک پمپ کے عملے نے یہ آکر نہیں بتایا کہ اب ہمارے پاس سٹاک ختم ہو چکا ہے آپ برائے مہربانی اپنے اپنے گھروں کو چلیں جائیں اس صورت حال میں لوگوں میں جو اشتعال پایا جا رہا تھا اس کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے مگر گھر کی راہ لیتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ وہ دن کب آئے گا جب ہمارے حکمران بھی ہمارے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ان کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کرنے کی پالیسی بنائیں گے مگر شاید ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا مگر پھر بھی امید پر دنیا قائم ہے سو ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے حکمران اپنی رعایا کے مسائل کے سمجھتے ہوئے ان کے حل کے لئے مخلصانہ کوششیں کریں گے اور بحرانوں کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھرانے کے بجائے خود اس بات کو سوچیں کے جب حکومت ان کی وسائل پر دسترس ان کی تمام محکموں میں کلیدی عہدوں پر آدمی ان کے تو پھر بیرونی اور اندورنی سازش کا کیا بہانہ اپنی نالائقی کو چھپانے کے لئے کسی پر الزام لگا دینا آسان ہے مگر ثابت کرنا مشکل اور جو کچھ بھی آج قوم کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے کل قوم اس کا بدلہ ضرور لے گی جیسا پاکستان پیپلز پارٹی سے اور خیبر پختونخواہ میں اے این پی سے لیاگیا تھا ۔
Raja Tahir Mehmood
About the Author: Raja Tahir Mehmood Read More Articles by Raja Tahir Mehmood: 21 Articles with 13287 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.