اوبامہ کے دورہ بھارت پر واویلہ کیوں؟

امریکی صدر بھارت کا دورہ مکمل کرکے واپس جاچکے ہیں مگر امریکی صدر کا دورہ بھارت پر تبصروں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ میڈیا پرصبح شام ہمیں نئے نئے تبصروے سننے کو ملتے ہیں۔امریکی صدر نے دورہ بھارت کرکے بھارتی حکومت کو اونچے خواب دکھانے کی کوشش کی۔ بھارت امریکی صدر کے دورے کے بعد ایشائی خظے میں اپنے آپ کو اونچی اڑان میں لے جانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ امریکی صدر نے اپنے بیانات کے ذریعے بھارت کو اپنا بہترین دوست قرار دیکر یہ ثابت کردیا کہ وہ پاکستان کو دوست نہیں سمجھتا اور اگر سمجھتا ہے تو بالکل اسی طرح جیسے’’ ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا‘‘ کے مترادف۔امریکی صدر نے اپنے دورے کے دوران نئی دہلی میں نوجوانوں کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "بھارت اور امریکہ صرف فطری شراکت دار نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ امریکہ بھارت کا بہترین پارٹنر بن سکتا ہے۔" امریکہ لوگوں کو غربت سے نکالنے، صنعتی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں مزید ترقی اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف سرگرمیوں میں بھارت سے شراکت داری کا خواہاں ہے۔بقول اوبامہ بھارت خطے میں تبدیلی کا نمائندہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر بچوں کو بیماریوں سے بچاؤ کی دوا ’ویکسینیشن‘ دینے کی ضرورت کو اجاگر کر کے ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

صدر اوباما نے بھارت کے لیے امریکی قرضہ جات اور سرمایہ کاری کے مد میں چار ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں کے مابین تجارتی شعبے میں ابھی بہت سے مواقع موجود ہیں جن سے استفادہ نہیں کیا گیا۔26جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں وہ بطور مہمان شریک ہوئے ۔ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جو اس تقریب میں شریک ہوئے۔اوبامہ نے یوم جمہوریہ تو بڑے شوق سے دیکھا مگر یوم سیاہ نہیں دیکھا جو کشمیری عوام نے منایا۔کیا کشمیری عوام کا احتجاج امریکی صدر کو نظر نہیں آیا ؟آتا بھی کیسے اس کو کونسی مسلمانوں کے دکھ سے دلچسپی ہے۔ وہ انسانی حقوق کا نعرہ صرف غیرمسلموں کے لیے بلند کررہے ہیں۔

امریکی صدر کے بیانات سے صاف محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔بھارت امریکہ تعلقات پر مختلف تجزیہ نگار وں کا کہنا ہے کہ ان کے مل جانے سے پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہوجائیں گے۔کوئی کہہ رہا ہے کہ امریکہ پاکستان پر بھارت کو فوقیت دے رہا ہے۔ کسی نے اپنے تبصرے میں کہا کہ امریکی صدر کا پاکستان نہ آنا پاکستان کی سفارتی پالیسی کی ناکامی ہے۔ بحر حال ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ اپنی اپنی سمجھ اور سوچ کے مطابق اس دورے پر تبصرہ کرے ۔ مگر یک بات تو آپ کو ماننا پڑے گی کہ امریکہ پاکستان کا دوست نہ تھا اور نہ کبھی بن سکتا ہے۔ امریکہ ہمیشہ اپنے مفاد کی خاطر پاکستان کا ساتھ دیتا ہے۔ اگر ہمارے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کا دوست ہے تو پھر کوئی ہمیں اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ حالیہ دورہ بھارت میں امریکی صدر نے کشمیر کے ایشو پر کوئی ایک الفاظ کیوں نہیں بولا؟ کسی جگہ پر اس نے یہ بیان دیا کہ کشمیر کا مسئلہ فوری حل کیا جائے یاکشمیری قیادت سے ملاقات کی ہو؟

اگر دیکھا جائے تو امریکہ صرف اور صرف ذاتی مقاصد کے لیے پاکستان کو استعمال کررہا ہے۔روس کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے اس نے مسلمانوں کو استعمال کیا۔افغانستان ، عراق اور دوسرے اسلامی ممالک میں تو اس نے مسلمانوں سے جنگ لڑی مگرکشمیر کے حق کے لیے جنگ تو بڑی دور کی بات محبت کے دو الفاظ بھی ادا نہ کرسکے۔اب افغانستان سے اپنی جان چھڑانے کے لیے پاکستان کو اپنا حلیف بنا رہا ہے ورنہ اس کو پاکستان سے اتنی ہمدردی نہیں۔پاکستان سے جو ملک اس وقت دوستی نبھا رہا ہے وہ صرف چین ہے۔ اس دوستی کے پیچھے جو مقاصد ہیں اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔

امریکی صدر کا دورہ بھارت کی ایک اہم وجہ چین پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ امریکہ اور دوسری عالمی طاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ بھارت کے ذریعے چین کا گھیراؤ کیا جاسکتا ہے تو یہ امریکہ سمیت دوسری عالمی طاقتوں کی خام خیالی ہے۔اس خطے کا اہم ملک پاکستان ہے۔یہ امریکہ کی غلط فہمی ہے کہ وہ پاکستان کو سائیڈ پر کرکے خطے پر کنٹرول کرسکتا ہے۔بھارت کے ساتھ امریکی گٹھ جوڑ سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقتور ملک ہے پاکستان کسی بھی ملک سے کمزور نہیں اور نہ ہی کوئی بھی بالخصوص بھارت پاکستان کو کمزور سمجھے۔ امن قائم کرنے کیلئے اس خطے میں جو کردار پاکستان ادا کر سکتا ہے وہ بھارت نہیں کر سکتا۔

جہاں تک نیو کلیئر معاہدے کا تعلق ہے توبھارت نے ہمیشہ اسکی خلاف ورزی کی ہے۔جبکہ پاکستان نے کبھی بھی عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی۔جس کی مثال مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ پاکستانی سرحدوں کی آئے دن کھلی خلاف ورزی، کراچی، بلوچستان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی مداخلت بھی شامل ہے۔جس کے ثبوت کئی بھارت کو دیے جاچکے ہیں۔پاکستان کو امریکہ اور بھارت سے زیادہ چین کی ضرورت ہے جو ہمارے ہر دکھ میں ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ جس نے ہماری دفاعی میدان میں بھرپور مددکی۔
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 234448 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.