جنوبی ایشاء کے بارے میں کہا
جاتا تھا کہ اکیسوں صدی میں عالمی سیاست کا محور ہو گاجس کے خال خال آثار
واضع ہو رہے ہیں سیاست مفادات کا کھیل ہے اور بین الاقوامی سیاست میں ملکی
و قومی مفادات ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں وہی کامیاب سیاستدان کہلاتا ہے جو
ملکی معاملات سے مبرا ء ہو کر بین الاقوامی سیاست میں رول دے سکے وگرنہ
جنہیں اندرون ملک بہرانوں سے ہی نجات نہ مل پائے انہیں بین الاقوامی برادری
میں اپنی قوم کی نمائندگی میں دقت پیش آتی ہے ،گو اگر وسائل کے انبار لگے
ہوں پھر بھی مسائل حل نہیں ہوسکتے کہ وہاں خوشحالی آئے اس طرح اس میدان میں
وہ قوم محض دوسروں کی آسائش کا سامان بن کہ رہ جاتی ہے اور اس ضمن میں
سیاستدان گلہ پھاڑ پھاڑ کر دوسری اقوام پر ناانصافی و جانبداری کے الزامات
کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جب کہ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ
وہ اپنے قومی مفاد کے لئے جوچاہے کرے،گر دوسروں کو تباہ و برباد ہی کیوں نہ
کرنا پڑھے تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑھی ہے ۔
افغانستان سے اتحادی افواج کے خروج کا سلسلہ جاری ہے اورامریکن نے افغان
طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے اس جنگ کی ابتداء سے ہی امریکن نے دوغلی
پالیسی اپنائے رکھی تھی انہوں نے افغانستان کو توڑا ،قتل عام کیا اور یہ سب
اسلام آباد کے کندھے پر بندوق رکھ کر کیا، ویسے ہی جیسے روس افغان جنگ کے
وقت اسلام آباد کے کندھے استعمال ہوئے تھے ،وہ ابتداء تھی کہ دہشت گردی کی
ایک فصل بوئی گئی جسے کاٹنے کے لئے ایک بار پھر اسلام آباد کا انتخاب کیا
گیا ہے ،دہشت گردی کی اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا لیکن
امریکن افغانستان میں وہ رول جس پر اسلام آباد کا حق ہے بھارت کی جھولی میں
ڈال کر اسے افغانستان میں اپنا قابل اعتماد پارٹنر کا خطاب دیتا ہے جس کے
بدلے میں اسے بھارتی مارکیٹ میں مذید مواقع ملنے ہیں ،اس بار تاریخ میں
پہلی بار یہ دیکھا گیا کہ کوئی امریکن صدر اپنے دور میں دو مرتبہ بھارت کا
دورہ کرتا ہے ۔اور اس بار اس نے بھارت کے ساتھ بھارت کی شرائط پردفاعی و
نیوکلیائی اور ڈراون کی تیاری جیسے معائدے کر ڈالے اور وہ مل کر بین
الاقوامی مارکیٹ کی ضروت پورہ کریں گے ۔
امریکن صدر کے دورہ بھارت نے کئی رازوں پر پڑھی دھول جھاڑ دی ہے اس دورہ کے
دوران امریکن نے ریجن کے سب سے بڑے و خطرناک مسئلہ کشمیر پر آنکھیں موند کر
اپنے قومی مفاد کے حصول کیلئے بھارت کے ساتھ جو رومانس رچایا وہ خطہ کے
دوسرے اہم ترین ممالک کے لئے تشویش کا باعث بنا اس دوران دیر آئے درست آئے
کے مصداق اسلام آباد جو دو سال سے کسی وزیر خارجہ کے بغیر آگے بڑھ رہا تھا
نے اس رومانٹک دورے پر گہری نظر رکھتے ہوئے پچاس کی دہائی کی یاد تازہ کر
دی اور جنرل ایوب خان کی طرح آرمی چیف کو بین الاقوامی سفات کاری کی زمہ
داری دی گئی اورانہوں نے برطانیہ سمیت اہم ممالک کا طوفانی دورہ کیا ،جس سے
سیاسی فضا میں کچھ توازن بن پائے گا یا نہیں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا
البتہ اس وقت عالمی سیاست میں اوبامہ کی بھارت یاترہ موضوع بحث ہے جو سراسر
یکطرفہ تھی اور یقینا امریکن اس دورہ سے خطہ کو یہ باور کروانا چاہا رہے
تھے کہ یہاں بس ایک ہی طاقت ہے جس کانام ’’بھارت‘‘ ہے۔
25جنوری کو عین اس وقت جب اوبامہ دہلی میں بیٹھ کر بھارت کو افغانستان میں
اپنا قابل اعتماد پارٹنر کہہ رہے تھے جو بھارت افغانستان کے راستے پاکستان
میں گھس کر بدلے لے رہا ہے اور نیوکلیائی معاملات پر بھات کے مطالبات کو
تسلیم کرنے اور ڈراؤن کی مشترکہ تیاری سمیت دفاع وتجارت میں ساجھے دارہیں
اوربھارت کی راجدھانی میں بیٹھ کر سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت
کی حمائت کا علان کرتے ہیں عین اسی وقت بیجنگ میں چینی صدر اور پاکستانی
آرمی چیف راحیل شریف اوبامہ و مودی کو یہ پیغام پڑھ کر سنا رہے تھے کہ دنیا
کے کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے چین و پاک دو جان ایک قالب ہیں اور
یوں چینی صدر راحیل شریف کو دوش بدوش کھڑے ہو کر یہ کہا کہ پاکستان روز اول
سے ہمارا قابل اعتماد دوست ہے اس لئے کسی کو کوئی غلط فیمی نہیں ہونا چاہیے
کہ ہم پاکستان ہیں اور پاکستان ہم ہیں ،بلا شعبہ یہ ایک زبردست پیغام تھا
جو سات سمندر پار سے آئے اوبامہ کو سنایا گیا کہ وہ بھارت کے ساتھ معاملات
کرتے وقت خطہ کے دو اہم ممالک جن کے تعلقات بھارت سے کشیدہ رہے ہیں کو نظر
انداز کرنے کی غلطی نہ کرے ۔اور ایک پیغام یہ بھی تھا کہ وہ سب ممکن نہیں
جو آپ اور مودی چاہیے گا،اس سارے منظر نامے میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ
آخر ان تمام نوازشات کا مقصد کیا رہا؟اگر ریجن کی خوشحالی مقصود ہو تو اس
کا سیدھا راستہ’’ کشمیر‘‘ سے گزرتا ہے کیوں کہ وہی یہاں کے مسائل کی جڑ ہے
اگر اسے ٹھیک کر دیا جائے تو جنوبی ایشاء چند برسوں میں خوشحال ہو جائے
۔مگر بد قسمتی کہ خطہ کی زمین ایسا کوئی زیرک لیڈر ہی پیدا کرنے میں بانجھ
رہی ہے جو یہاں کے مسائل کو ان کی روح کے مطابق دیکھ پائے آج یہاں کے اصل
مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیا بھر سے جوخطرناک و بھیانک ایندھن لا کر
یہاں جمع کرنے کی بات ہو رہی ہے اور خطہ کے اہل علم و دانش دف بجانے میں
مشغول ہیں ساتھ میں رومانس بھرے نغمے گنگنا رہے ہیں وہ نہیں جانتے کہ اس کا
انجام کیا ہو گا اور کون بھگتے گا ۔بہر حال اس دورے کے اواخر میں چند ایک
واقعات نے سب کو چونکا دیا ۔جب وہ اپنا تین روزہ دورہ مکمل کر کے سعودیہ
روانہ ہوئے ،روانگی سے قبل بھارت کو ایک خصوصی پیغام دے ڈالا کہ اگر آگے
بڑھنا ہے تو مذہبی رواداری کو اپنانا ہوگا اور بھارت میں بسنے والے تمام
مذاہب کو احترام دینا ہوگا ان کے ساتھ یکساں سلوک کرناہو گا ان خیالات کا
اظہار دہلی کے سیری فورٹ آڈیٹوریم میں خطاب کرتے ہوئے اوبامہ نے کیا جہاں
ان کی تقریر کا بیشتر حصہ مذہبی رواداری و یکجہتی و مساوات پر مرکوز تھا اس
لئے بھی کہ شائد بھارت دورے پر روانگی سے قبل امریکن مسلم تنظیموں نے
اوبامہ سے اس مسئلہ پر مودی حکومت کے سامنے اپنے تحفظات رکھنے کا مطالبہ
کیا تھا اور اوبامہ کایہ چھوٹا ساپیغام اپنے امریکن ووٹر کو مطمئن کرنے کی
وجہ ہو مگر اس دورے نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہ ثابت کیا کہ وہ امریکن
جو قندھار میں پتھر کے چند مجسمے توڑے جانے پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ
بجا کر رکھ دیتے ہیں وہ قومی مفاد کی خاطر ’’کشمیر‘‘ کے دوکروڑ انسانوں کو
بنیادی انسانی و عالمی سطح پر موعود حق سے مرحوم رکھنے اور انسانیت سوز
مظالم کی بھینٹ چڑھائے جانے کو یکسر نظر انداز کر کے اپنے بین الاقوامی
کردار کو مذید مشکوک بنا یا ہے جو ریاستی عوام کو دوبارہ پرتشدد جدوجہد کی
جانب دھکیلنے میں اہم کردار ادا کرے گا اور ساتھ ہی اس دورے نے یہ بھی ثابت
کیا کہ دنیا کا طاقت ور ملک امریکہ بھی اپنے قومی مفاد کی خاطر کسی بھی حد
تک جانے سے گریز نہیں کرتا چاہیے اس سے اسکی کتنی ہی بدنامی کیوں نہ ہو تو
پھر چھوٹے و محکوم ممالک کو یہ اصول اپنانے میں کیا قباحت ہے ’’سب سے پہلے
اپنا دیس ‘‘ |