ملین ڈالر کا سوال ہے کہ دنیا
کوئی ایک ملک بھی اگر اُن کاساتھی نہیں اور ساری دنیا دہشت گردی کے خلاف صف
آرا ہے تو داعش، بوکوحرام، القائدہ اور طالبان کو اسلحہ کون دیتا ہے؟ان
دہشت گر د تنظیموں کے پاس انتہائی جدید اسلحہ کہاں آیا ہے۔ انہیں مالی
وسائل کون مہیا کرتا ہے۔ انہیں ذرائع آمدورفت اور میڈیا تک رسائی کس طرح
میسر ہے۔ خوارک، ادویات اور دوسری اہم چیزیں جن کے بغیر ایک تربیت یافتہ
فوج بھی نہیں لڑ سکتی ، انہیں کس طرح دستاب ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک کے
اس قدر اہم وسائل اور ٹیکنالوجی رکھنے کے باوجود انہیں قابو کرنے میں کیوں
ناکام ہیں۔ شام میں لڑے والوں کو ہتھیار اور دیگر وسائل کی فراہمی کہاں سے
ہورہی ہے۔ ایک عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ عراق، شام، ترکی اور
سعودی عرب کی مخالفت کے باوجود داعش نے وہاں قبضہ کیسے جمایا ہے۔ ان نام
نہاد جہادیوں نے کبھی اسرائیل کے خلاف کیوں کاروئی نہیں کی۔ امریکہ، نیٹو
اور پاکستان کی مخالفت اور ان کے خلاف کاروائیوں کے باوجود طالبان ابھی تک
کیسے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اگر ان سوالات کے تسلی بخش جوابات سامنے آجائیں تو دور
حاضر میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی اصلیت کا پتہ چل جائے گا۔
بہت سے اہل دانش کے اٹھائے ہوئے یہ سوالات بھی اہم ہیں کہ جنوبی افریقہ میں
جب دنیا بھر کے نمائندوں نے مل کر اسرائیل کو نسل پرست ریاست قرار دینے کی
طرف پیش رفت کی ہی تھی کہ عالمی منظر گیارہ ستمبر کے واقعہ سے بدل گیا۔
۲۰۱۳ء میں ملائیشیا کی ایک عدالت نے اسرائیل کو نسل پرست قرار دیا اور اس
سے قبل مہاتیر محمد بھی اسرائیل پر سخت تنقیدکیا کرتے تھے تو ملائیشیا کا
جہاز ایسا غائب ہوا کہ آج تک اس کا سراغ ہی نہیں مل سکا۔ ۲۰۱۱ء میں ناروے
کی لیبر پارٹی نے اسرائیل کے بائیکاٹ کا اعلان کرنے کے بعد اوسلو میں لیبر
پارٹی کے یوتھ ونگ پر حملہ کرکے جماعت کی قیادت سمیت ۷۷ افراد کو قتل کردیا
گیا۔ سویڈن کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے بعد سویڈن میں مساجد پر
حملے اور فرانس کی پارلیمنٹ کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں قرارداد کے بعد
پیرس کے جریدہ شارلی ابدو پر حملہ کس سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ ممکن ہے ان
واقعات اور ان کے بعد ہونے والے ردعمل پر کوئی تحقیق کرکے اہم انکشافات
کرسکے۔ معروف صحافی اور تجزیہ نگار جناب آصف جیلانی نے اپنے ایک کالم میں
یورپ میں مقیم مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کے خلاف جنگ
کا آغاز اور ان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ انہوں نے پیرس کے جریدہ
پر حملے میں پوشیدہ ہاتھ تلاش کرتے ہوئے فکر انگیز تجزیہ پیش کیا ہے۔ کچھ
ایسا ہی تبصرہ پاکستان کے ایک سابق سفیر نے ٹیل فون پر گفتگو کرتے ہوئے کیا
کہ انہی نادیدہ قوتوں کی طرف اشارہ کیا جو مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے
پر تلی ہوئی ہیں ۔
یورپ میں مقیم مسلمانوں پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے جس نے پاکستان، مشرق
وسطیٰ اور افریقی مسلمان ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جس سے عراق،
لیبیا، شام، مصر اور افغانستان کی مسلم ریاستوں کو تباہ اور ناکارہ بنا دیا
ہے تاکہ اس خطہ میں صہیونی اجارہ داری کو کوئی بھی چیلنج کرنے والا نہ ہو۔
یورپی مسلمانوں کو انتہائی سمجھداری سے لائحہ عمل متعین کرنا ہوگا۔ تمام تر
میڈیا وار کے اب بھی یورپی عوام کی اکثریت نسل پرستی اور عالمی سیاست کے
مہروں کو سمجھتی ہے اس لیے ان کے ساتھ روابط مضبوط کرکے حکمت عملی سے ہر
قدم اٹھانا ہوگا اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا جس سے خود اپنے لیے مشکلات
پیدا ہوں۔ یورپی مسلمانوں کو نام نہاد جہادیوں سے قطع تعلقی کرتے ہوئے سب
پر واضع کردینا چاہیے کہ وہ ہمارے مجاہد نہیں بلکہ ان کے مجاہد ہیں جنہوں
نے ان کے ہاتھوں میں اسلحہ تھمایا ہے اور جو ریموٹ کنٹرول سے انہیں چلاتے
ہیں۔ انہیں برملا کہہ دینا چاہیے کہ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔ اپنے
بچوں کو ایسے عناصر سے بچانا ہوگا جو انہیں دین کی غلط تعبیر و تشریح کرکے
اپنے آقاؤں کے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھانا چاہیں۔ دنیا کی اور اقوام پر
بھی بہت مشکل وقت گذرا ہے ان کی مثال سامنے رکھ کر پامردی سے آگے بڑھنا
ہوگا۔ جاپان اور جرمنی نے شکست اور تباہی کے بعد کس عزم نو سے جدوجہد شروع
کی اور آج ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دنیا بھر میں آگے نکل گئے ہیں۔
یہودیوں نے یورپ میں بہت مشکل اور بُرا وقت دیکھا ہے۔ انہیں بستیوں سے نکال
دیا جاتا تھا لیکن انہوں نے وقت کا سامنا کیا۔ ہر فرد اپنی ذمہ داری محسوس
کرے اور اپنے بچوں کو بہترین جدید تعلیم سے روشناس کرائیں ۔ ایک سادہ سا
فارمولا ہے کہ جس یورپی یا کسی بھی ملک میں آپ مقیم ہیں آپ اس ملک میں رہنے
والوں کی آمدنی ، تعلیم، اور دیگر سطحوں کی اوسط سے کم نہ ہوں بلکہ بچوں کی
تعلیم کے حوالے سے اوسط سے بھی بہتر ہونی چاہیے۔بچوں کو دین کا فہم اور
اعتدال کی تعلیمات دیتے ہوئے قرآن کے ساتھ تعلق پیدا کردیں تو سمجھیں کہ آپ
نے اپنے حصے کا کام کردیا۔ جو صدیوں کو جمود توڑنے کے لیے بھی ایک وقت تو
درکارہوگا لیکن اگر درست سمت میں ایک بار قدم اٹھ جائے اور پھر اس پر سفر
جاری رہے تو منزل مل ہی جاتی ہے۔
ذرات کو سیمابی کردے گی سبک سیری چھٹ جائے گی رستے کی تاریکی و بے نوری |