مولانا جان محمد حقانی ؒ

اس کائنات میں ہزاروں عظیم ہستیوں نے آنکھ کھولی ، جن کی جلائی ہوئی شمعوں سے زندہ قوموں کوسیدھا راستہ ملتا ہے۔ توحید و سنت کی دعوت کے ایسے ہی کارواں کے ایک رہنما ’’ مولانا جان محمد حقانی ؒ ‘‘ بھی ہیں جنہیں ہم سے جدا ہوئے آج آٹھ ماہ گزر چکے ہیں ۔ مولانا صاحب بیماری کی حالت میں جناح ہسپتال رہے اور ۳۰ نومبر ۲۰۱۳ ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، ’’ انا ﷲ وا نا الیہ راجعون ‘‘ ۔ انہیں لاہور سے اُن کے آبائی گاؤں لایا گیا اور وہاں کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔ آپ نے شہرت یافتہ عالم دین اور شعلہ بیان خطیب کے طور پر اپنا لوہا منوایا، اپنی ساری زندگی فی سبیل اﷲ وقف کر دی ۔۷۳ سال کی زندگی میں آپ ؒ وہ کام کر گئے جوقوم کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنا۔ ان کا کردار پورے ضلع پر ظاہر ہے ، جس کا اعتراف اس وقت علماء کرام اور عام لوگ بھی کر رہے ہیں ۔ آپ حق بات کہنے سے کبھی نہیں ہچکچائے ، آپ ؒ سچے محب رسول ﷺ تھے ۔ آپؒ کی آنحضور ﷺ سے عقیدت و محبت کا یہ حال تھا کہ شرک و بدعت کی مذمت کرتے کبھی گھبراتے نہیں تھے ۔مولانا صاحب بے خوف حق بیان کرتے ، قرآن و حدیث سناتے اور اﷲ کی طرف بلاتے تھے ۔

حقانی صاحب نے عاجزانہ طور پر توحید کی دعوت شروع کی ۔دیہات میں صرف چند گھر اہلِ توحید کے تھے ۔ تقریباََ ۱۵ ہزار سے زیادہ آبادی والے گاؤں میں حق بات سمجھانے کے لیے مولانا ؒ نے دن رات ایک کر دےئے۔ جان محمد ؒ نے امامت اور خطابت بالکل مفت ، بلکہ خود مسجد کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ اﷲ کے حکم ، اُن کی محنت اور دعاؤں کی وجہ سے آج گاؤں میں چار مسجدیں اور ایک مدرسہ کتاب و سنت پر عمل کرنے والوں کا ہے۔ گاؤں کے ہمسائے قصبوں اور دیہاتو ں میں آپ کی محنت سے بہت زیادہ پیغام توحید پھیلا ۔ مولوی صاحب اپنی زندگی کے آخری دنوں تک دین کا کام کرتے رہے۔

آپ ؒ باطل کے خلاف کھڑے ہونے سے کبھی نہ کتراتے ۔ ایک دفعہ دوسرے قصبے کے شیعہ حضرات ہمارے گاؤں میں گھوڑا لے کر اور اپنی رسم و رواج پر عمل کرتے ہوئے آ رہے تھے ۔ مولوی صاحب اکیلے ہی تلوار لے کر سڑک پر آگئے ، لوگوں کو پتہ چلا تو وہ بھی ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے ۔ شیعہ پارٹی کو علم ہوا تو وہ خطرے کے ڈر سے مڑگئے ۔ ہمارے دیہات میں مشرکوں کے اشارے پر عیسائی میلہ لگانے لگے ، انہوں نے بہت زیادہ کھانے کابھی انتظام کر لیا ۔ آپ ؒ کو پتہ چلا تو اعلان کیا اور کہا : ’’ ایک دفعہ میلہ لگاؤ تو سہی ، تمہارا حشر دنیا دیکھے گئی ‘‘ ۔ یہ سن کر عیسائیوں کا معتبر آدمی آیا اور کہا : ’’ ہم میلہ نہیں لگاتے ! ، لیکن کھانا پکا ہے آپ اُس پر ختم پڑھ دیں ‘‘ ۔ آپ ؒ نے فرمایا : ’’ دفع ہو جاؤ ! ہمارے نزدیک یہ بھی غلط ہے ‘‘ ۔ حکیم ابو عبداﷲ صاحب نے بتایا ہے کہ :’’ حقانی صاحب نے شہادت کے جذبے سے حجامت بھی کر لی تھی ‘‘ ۔ ایک آدمی نے سوال کیا : ’’ میرا بکرا سال سے بڑا ہے لیکن اس کے دانت نہیں گرے ، کیا قربانی ہو جائے گی ؟ ‘‘ ۔ مولوی صاحب نے جواب دیا : ’’ تم بکرا سال سے چھوٹا کرو یا بڑا ، عید سے پہلے کرو یا بعد میں، تمہاری قبربانی نہیں ہو گی ، کیونکہ تم مشرک ہو اور شرک کرنے والے کا کوئی بھی عمل قبول نہیں ہوتا ‘‘ ۔ ایسے بے شمار موقعوں پر ، اﷲ پر توکل کی وجہ سے باطل کبھی بھی آپ ؒ کے سامنے کھڑا نہیں ہو پایا۔

مولانا صاحب توحید و سنت کی نشرو اشاعت کرنا بہت پسند فرماتے تھے ۔ آپ نے ایک مضمون میں لکھا : ’’ لوگو ! ، کسی سے دشمنی اور دوستی اﷲ کے لئے کرو۔ الرّحمٰن کے لیے جو شرک و بدعت کرتا ہو ا فوت ہو جائے نہ اس کے لئے دعا کرنا نہ ہی اس کے جنازے میں شامل ہونا ۔ لوگو ! ، کہتے ہو ، میں نے اتنا قرآن پاک پڑھا ہے ۔ مگر قرآن پاک جن کاموں کے کرنے کا حکم دیتا ہے وہ تم کرتے نہیں اور جن سے منع کرتا ہے ان سے رکتے نہیں ، میرے بھائیوں تمہیں الفرقان پڑھنے کا اجر اس وقت ملے گا جب تم اس پر عمل کرو گئے ۔ آپ قرآن میں سورت فاتحہ بھی پڑھتے ہیں مگر غیر اﷲ سے مدد بھی مانگتے ہو اور عبادت بھی کرتے ہو، انبیاء اولیاء کے نام کے وظیفے بھی کرتے ہو ، ان کو اپنی مشکلات اور حاجات میں پکارتے بھی ہو ، یہی تو ان کی عبادت ہے ۔ آپ ذرا غور سے قرآن کی سورت انبیاء کا مطالعہ کریں ، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ان حضرات نے اپنی اپنی حاجات میں کس کو پکارا ، اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سبق دیا ہے ۔ جیسے یہ بیماری کے وقت خود شفاء حاصل نہیں کرسکتے تو تمہیں کیا شفا دیں گے ۔ جو خود بے اولاد ہے وہ تمہیں کیسے اولاد دے گا۔ جو اپنی مشکل حل نہیں کر سکتا وہ تیری کیا مشکل حل کرے گا۔ جو خود محتاج ہے وہ تیرا داتا کیسے بن سکے گا ۔ محترم نہ کوئی مختار کل ہے ، نہ کوئی عالم الغیب ہے ، نہ کوئی حاضر و ناظر ہے ، نہ کوئی دستگیر ہے ۔ نہ کوئی غوث ہے ، نہ کوئی گنج بخش ہے ، نہ کوئی غریب نواز ہے ، یہ صفات صرف اس ذات کی ہو سکتی ہیں جو زمین و آسمان اور ساری مخلوق کا خالق ہے ۔ زمین و آسمان اور ساری مخلوق بنانے میں کوئی حصہ دار ہے تو بتا ، لاؤ دلیل اگر تم سچے ہو تو ۔۔۔‘‘ ، (مومن کی راہ ، ص : ۱۳ تا ۱۵ ) ۔ مولوی صاحب نے پوری زندگی قرآن و حدیث ہی کی اشاعت کی ہے ۔

حقانی صاحب امامت و خطابت کے ساتھ شاعری بھی بہت اچھی کر تے تھے ۔ انھوں نے تین ایکڑ زمین بطور انعام رکھی ہوئی تھی کہ ہمارے مسلک کی کوئی ایک بات کتاب و سنت کے خلاف ثابت کرو اور فورََا تین ایکڑ زمین کا قبضہ اور انتقال وصول کرو ۔ قرآن و حدیث کی برکت کی وجہ سے باطل پرست آپ سے دور بھاگتے تھے ۔ آپ نے اﷲ کی محبت پانے کے لیے جو دین کا کام کیا ہے وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔ آپ عالم بالعمل تھے ۔آپ ؒ نے توحید و سنت کو پھیلانا اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے : ہمارے گاؤں کے ہم عصر لوگوں میں سب سے عظیم انسان’’ مولانا جان محمد حقانی ؒ ‘‘ تھے ۔
Abdullah Amanat Muhammadi
About the Author: Abdullah Amanat Muhammadi Read More Articles by Abdullah Amanat Muhammadi: 8 Articles with 10336 views I am Muslim... View More