قصوروار کون کے الیکٹرکٹ یالسبیلہ کے زمیندار وکسان

جب ایک انسان (جو اپنے بنیادی حقوق کا علم رکھتا ہے) کو اپنے بنیادی حقوق کی پامالیوں کااحساس ہوتا ہے تو وہ اپنے ان حقوق کی پامالیوں اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیئے جدوجہد کرتا ہے جس کا آغاز ہمیشہ پُرامن طور پر ہوتا ہے لیکن اگراس کی شنوائی نہیں ہوتی تو اس کی آواز میں شدت آتی جاتی ہے جب اسے طاقت کے ساتھ کچلنے کی کوشش کی جائے تو پھر اس کا نتیجہ نفرت میں نکلتا ہے اور تشدد جہنم لینا شروع کرتا ہے۔ بالادست طبقے اور حکمرانوں کے عمل سے ہی مذاہمتی اور سول نافرمانی کی تحریکیں جہنم لیتی ہیں ۔عوام کامذاہمت اور سول نافرمانی پر اُتر آنا ایک بہت خطرناک عمل ہوتا ہے جوکہ ریاست کے استحکام کے لیئے کسی صورت سودمند نہیں ہوتا۔ حقوق کی جدوجہد میں مذاہمت کا دخل اس وقت ہوتا ہے اپنے حق چاہنے والوں پر طاقت کا استعمال ہوتا ہے اور طاقت کے استعمال سے اس کا نتیجہ ہمیشہ تاریکیوں میں ہی لیکر جاتا ہے اور مسائل حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھتے چلے جاتے ہیں ۔ لسبیلہ کے اندر زمیندار جدوجہد سب کے سامنے ہیں ایک عرصہ دراز سے زمیندار اپنے حقوق کے لیئے جدوجہد کرتے آرہے ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم اور نانصافیوں کے خلاف آواز اُٹھاتے آرہے ہیں ۔حال ہی میں کے الیکٹرک کی ٹیم نے طاقت کے بل بوتے پر انتظامیہ کے زریعے لسبیلہ اور خصوصا بیلہ میں بجلی کے کنکشن منقطع کرنے کا سلسلہ شروع کیا جس پر انکو زمینداروں اور کسانوں کی طرف سے مزاہمت کا سامنا کرنا پڑا جسکی رپورٹس میڈیا پر بھی آئیں۔ اس قبل بھی کے ای والے بعض علاقوں میں سخت مذاہمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اورمنتشرعوام کے سامنے وہ جان چھڑاکے باگنے پر مجبور ہوگئے یہ وہ نشانیہ ہیں جو لسبیلہ میں مذاہمت اور سول نافرمانی جیسی تحریکوں کے اشارے دی رہی ہیں ۔ گذشتہ دنوں جب ڈپٹی کمشنر لسبیلہ کے پاس زمینداروں کی میٹنگ ہوئی تو اس میں بھی میں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ لسبیلہ میں طاقت کے بل پر کنکشن کاٹنے اور بل وصولی سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اس کے نتائج کسی صورت ہمارے علاقے اور امن کے لیئے بہتر نہیں ہونگے کیونکہ زمیندار اور کسان اس وقت مایوسی کا شکار ہیں اور کے ای سے سخت نالا ں ہیں کے ای کی ناقص کارکردگی کی بدولت وہ کروڑوں کے قرضوں میں ڈوب گئے ہیں ۔ ہماری ہر میٹنگ میں جس میں مجھے جانے کا اتفاق ہوا اس میں کے ای کا صرف ایک ہی رونا ہوتا ہے کہ وہ پرائیوٹ فرم ہے اس لیئے وہ خسارہ کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں تو وہ جو ایک فرم ہے وہ اپنا ایک علاقے کا خؒسارہ برداشت کرنے کو تیار نہیں لیکن وہ زمیندار جو اسکی ناقص کارکردگی کے سبب مسلسل خسارے کا سامنا کررہا ہے وہ کیسے برداشت کرے اور اس پر کے ای کچھ سُننے کو بھی تیار نہیں۔ کے ای تو اس وقت بے لگام گھوڑا ہے جسے نہ اپنی ذمہ داری کا احاس ہے نہ ہی اپنے فرض کا۔ اس وقت لسبیلہ میں زمیندارجو ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں پچھلے سال کروڑوں کا نقصان ایک ایک زمیندار کرچکا ہے ایک 4ایکڑ کا مالک زمیندار بھی 20سے 30لاکھ کا منڈی کا مقروض ہے اور اس سال منڈی سے دوبارہ اس نے قرض اس آسرے پر لیاہے کہ فصل ہوگی تو کچھ بہتری آجائے گی۔منڈی والے انکے سروں پر بیٹھے ہوئے ہیں ابھی تک فصل شروع نہیں ہوئی اور گرمی بھی حد سے زیادہ ہوگئی ایسے میں اگر زمینداروں کی بجلی منقطع کی جاتی ہے تو اس سے انکی فصل تباہ ہوجائیگی اور وہ جو پہلے ہی پہلے اُمید کی پر اپنی زندگی کے پیئے کو چلا رہے ہیں اور انھیں کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی تو وہ ایسی صورت میں مذاہمت ہی کریں گے ۔ بلوچستان کے حوالے سے زمینداروں کے ایشو پر وزیراعظم صاحب نے ایک کمیٹی بنائی ہے جس میں وزراء حکومتی نمائندے اور زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان کے نمائندے شامل ہیں اس کمیٹی کے اجلاس میں سفارش کی گئی تھی کہ زرعی سبسڈی بحال کی جائے اور زرعی فیڈرز کی بجلی منقطع نہ کی جائے اورجن کی منقطع ہے انکی بحال کی جائے جس پر جناب وزیر اعظم صاحب نے بند زرعی ٹیوب ویلز کی بجلی عارضی طور پربحال کرنے کے احکامات صادر فرما دیئے ہیں اور سبسڈی کے معاملے پر بھی جلد فیصلے کی یقین دہانی کرائے ہیں ۔لسبیلہ کوئی بھی زمیندار بل کی ادائیگی سے انکار نہیں کرتا ان کا کہنا یہ ہے کہ بجلی کے وولٹیج کی کمی دور کی جائے اور ایوریج بلنگ کا خاتمہ کیا جائے ۔ اگر وولٹیج کم ہوتا ہے تو بل زیادہ آتا ہے اس لیئے وولٹیج کی کمی دور کرنے سے قبل وہ میٹر لگانے سے انکاری ہیں گذشتہ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ زمیندار 6000روپے بل ادا کریں گے اور44000روپے انھیں حکومت سبسڈی کی مد میں دے گی جس کے بدلے میں کیسکو یا کے ای زمینداروں کو 8گھنٹے مکمل کرنٹ کے ساتھ بجلی فراہم کرےگی اب اگر ہم لسبیلہ میں صرف بیلہ کو دیکھ لیں اور2012سے اب تک بجلی کی روزانہ کی ایوریج نکالیں تو وہ آدھا گھنٹہ روزانہ بھی نہیں لیکن اسے کوئی سننے کو تیار نہیں اب کے ای تمام اپنی بجلی کا بوجھ زمینداروں پر ڈال رہی جو بھی انکی بجلی مس یوز ہورہی ہے وہ زمیندار کے کھاتے میں ڈال رہی ہے جبکہ ان کی کارکردگی سے جو نقصان زمینداروں کا ہوا اس پر کوئی بات سننے کو تیار نہیں آخر اس صورت میں جب زمیندار مایوسی اور کسمپرسی کے سبب ایک نازک موڑ پر پہنچ چکے ہیں تو اس وقت ان پر طاقت کے استعمال اور انتظامیہ کے زور پر بجلی منقطع کرنے اور بل وصول کرنے کے نتائج کیسے بہتر آئیں گے ظاہر ہے اس صورت میں انھیں مذاہمت کا سامنا تو ہوگا اور اسکا اثر برائے راست ہمارے امن پر پڑے گا کیونکہ آج لسبیلہ روایتی طور پر پُرامن لاسیوں کا نہیں اب یہاں مختلف مذاجوں اور سوچوں کے لوگ موجود ہیں جس کا اثر اب مقامی لوگوں کی سوچوں اور رویوں پر بھی پڑا ہے۔ ہمارے بابا مرحوم محمد کاظم رونجھو جو زمینداروں اور کسانوں کی جدوجہد کے سرگرم کا رکن تھے اور زمیندار ایکشن کمیٹی لسبیلہ کے بانی بھی تھی وہ کہتے تھے جس دن زمینداراور کسان پُرامن اجتجاج اور ڈائیلاگ کے زریعے مسائل کے حل سے مایوس ہوگئے اور خاموش ہوگئے تو سمجھ لینا کہ یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے اور اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔اس لیئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست زمینداروں کے مسائل کو سمجھتے ہوئے اس کے حل کے لیئے ہنگامی طور پر عملی اقدامات کرے اور کے ای علاقائی نمائندوں اور ذمہ داروں کے زریعے زمینداروں کے ساتھ ڈائیلاگ کرکے حل نکالے اور اپنی اعلیٰ مینجمنٹ کو بھی یہ باور کرائے کہ زرعی صارفین کے ساتھ طاقت کے استعمال کے نتائج کسی صورت اچھے نہیں آئیں گے۔ طاقت کے استعمال کا خواب دیکھنے والوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگرزمیندار اور کسان کی مایوسی اور مذاہمت میں شدت آگئی تو پھر کسان دمادم مست قلندر کردینگے اور انھیں پھر کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوجائے گا ۔
Asim Kazim Roonjho
About the Author: Asim Kazim Roonjho Read More Articles by Asim Kazim Roonjho: 17 Articles with 13758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.