شناخت اور تشدد پسندانہ سوچ

امرتیہ سین کہتے ہیں کہ شناخت کی بناء پر تشدد کو زائل کرنے کے لیئے ہر انسان کے اندر بہت سی شناختیں موجود ہونی چائیں اور اسکی اجازت ہونی چائیے۔وہ کہتا ہے کہ فطری طور پر انسان کے اندر بہت سی شناختیں ہوتی ہیں لیکن ریاستی عمل کے زریعے کسی ایک کو اُبھاراجاتا ہے جسکی وجہ سے تشدد زیادہ پیدا ہوتا ہے۔وہ ایک مخلوط شناخت کے حق میں ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے تشددکو فروغ نہیں ملے گا اور معاشرہ روادار ہوگا۔ میں اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ریاست کے اندر پائی جانے والی تشدپسندانہ سوچ کو دیکھتا ہوں تو میرے زہن مین ایک بات جو امرتیہ سین کے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے آئی کہ ہماری ریاست جو ایک شناخت کے فلسفے پر بنی اس ریاست کی بانی جماعت جس کے خود قائد اعظم محمدعلی جناح ممبر تھے اور پھر قرارداد مقاصد بھی ایک شناخت کو اُجاگر کرتی ہے اور ہماری یہ شناخت ایک مذہب کے نام پر ہے ۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن خالد احمد نے امرتیہ سین کی اس رائے پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایک مقالے میں کہا کہ امرتیہ سین اس بات کے حق میں ہیں کہ ریاست مخلوط شناخت کو اُبھارے اور اس کو قائم کرے تاکہ تشدد کم ہو، لیکن اگر ریاست خود ایک شناخت کو رائج کرے تو اس سے عدم رواداری قائم ہوتی ہے اور تشدد کو فروغ ملتا ہے،خالد احمد کہتے ہیں کہ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ شناخت اگر ایک فرقہ کی کردی جائے یا ایک طبقہ کی شناخت کو تند وتیز کردیا جائے تو دوسری شناختیں بھی اس سے متاثر ہوتی ہیں اور وہ بھی تند وتیز ہونا شروع ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے آپس میں ٹکراو پیدا ہوتا ہےاور تشدد فروغ پاتا ہے۔ اسی باتوں کو دیکھ کر تھوڑا سا ہم اپنے اندر کا جائزہ لیں تو کیا یہ باتیں حقائق کے قریب تر نہیں ؟ ہمارے ریاست جو ایک شناخت کے اُوپر بنی کہ ہم سب مسلمان ہیں اور ایک قوم ہیں یوں ہم نے مذہب کو ایک قوم بنا دیا اور دو قومی نظریہ پیش کیا اور اس ریاست کے قیام کے لیئے قائم ہونے والی جماعت بھی ایک شناخت کے اُوپر بنی اور دوسری شناخت کے لوگ اس کے ممبر نہیں بن سکتے تھےاور ریاست کے قیام کے بعد بھی کوئی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص اس کا ممبر نہیں بن سکتا تھا یہ اجازت کوئی14سال پہلے ملی ہے ۔ انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور ماہر قانون عاصمہ جانگیر اسے ہماری ریاست کے اندر مذہبی بنیادوں پر تشدد پسندانہ سوچ کے فروغ کی بنیاد سمجھتی ہے۔ ایک بات تو واضع ہے ہم نے اسلام کے نام پر یہ ریاست حاصل کی اور اس ریاست ہندوستان کے شہریوں کو دو شناختوں میں تقسیم کیا جس میں رعایہ کی اکثریت ایک مذہبی شناخت ہندو رکھتی تھی جسکی شناخت پر اس ریاست کی شناخت تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر انگلستان کی حکمرانوں کے آنے سے پہلے اس پر حکومت ایک الگ مذہبی شناخت مسلمان کرتے تھے ۔ اس وقت کا ہم مطالعہ کریں تو اس وقت معاشرہ زیادہ روادار تھا لیکن پھرہم دو الگ شناختوں میں دو قومی نظریے کے تحت تقسیم ہوگئے اور اپنے لیئے ایک الگ ریاست مختلف شناختوں کی حامل ریاستوں پر مشتمل بنا ڈالی جسے مذہب کے نام پر ایک شناخت دینے کی کوشش کی لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ان دوسری شناختوں نے محسوس کیا کہ انکی شناخت متاثر ہورہی ہے جس سے لسانی اور علاقائی بنیادوں پر انھوں نے سرگرم ہونا شروع کردیا اورہم میں سے ایک اور ریاست لسانی بنیادوں پر بن گئی۔جومذہب اقلیت میں تھے ان کو اکثریت نے دبا دیا اور اکثریت میں تشدد کا رجحان روز بروز فروغ پاتا رہا اوراس سے متاثر ہونے والی مذہبی شناختوں کا بھی سرگرم ہونا فطری عمل تھا جس سے مذہب کی بنیاد پر شناخت کا مسئلہ اورسنگین ہوگیا اور وہ مذید تقسیم کا شکار ہوگیا اور دیواریں ایک دوسرے کے خلاف کافر کافر کے نعروں سے نظرآنے لگے ایک بچہ جو اسکول پڑھنے جاتا ہے واپسی پر گھر آکر وہی دیوار پر لکھا ہوا نعرہ لگاتا ہے اس کا باپ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ خود کو کیوں کافر کہہ رہا ہے کیوں کہ وہ خود بھی تو اسی مذہبی گروہ سے تعلق رکھتا ہے لیکن معصوم بچے کو کیا معلوم وہ تو صرف دیوار پہ لکھا ہوا ایک نعرہ پڑھ رہا ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں اس سوچ کو مذید فروغ ملا اور مذہب کے نام پر ایسے قوانین بنائے گئے جس سےمذید تشدپسندانہ سوچ کو فروغ حاصل ہو ااوریہ ہمارے معاشرے مین ناسور کی طرح پھیل گیا اور افغان وار اور اسلحہ اور منشیات کی فراوانی سے تشدد پسندوں کو مذید فروغ ملتا رہا اور ہمارے روایتی نصاب تعلیم کے زریعے نوجوان اس جانب راغب ہوتے رہے، مذہب کے نام پر جنگجو تیا ر ہوتے رہے اور ڈالر بناتے رہے آج اسکا خمیازہ ہے جو ہم بُگت رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری ریاست ان تشدد پسندوں کا صفایہ کرکے ایسے اقدامات کرے جس سے متاثر ہونے والی وہ شناختیں جوسرگرم ہوکر مذید مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں کہ حقوق کا تعین کیا جائے اوراسکی پاسداری کو ممکن بنایا جائے۔
Asim Kazim Roonjho
About the Author: Asim Kazim Roonjho Read More Articles by Asim Kazim Roonjho: 17 Articles with 13674 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.