صدر زرداری جمہوریت کے لئے بڑا خطرہ ہیں.....؟ کیوں نواز شریف صاحب

13فروری کے اقدامات 3نومبر2007کے ایکشن ری پلے تھے

ایوانِ صدر سے ججز کی تقرری کے احکامات اور سپریم کورٹ سے اِس کی معطلی کے بعد ملک ایک بار پھر ایک ایسے بحران کی جانب تیزی سے بڑھتا ہوا محسوس ہورہا ہے کہ جس کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل نظر انداز کر دیئے جائیں گے اور ہر طرف سے اپنی اپنی انا اور خود غرضی کی جنگ ملک کے طول و ارض میں سڑکوں پر چھڑی رہے گی اور پھر وہی ہوگا جو اِس معاملے میں پہلے ہوچکا ہے اور رات کی تاریک میں ایک بار پھر حکومت کو عوامی ریلے کے سامنے گھٹنے ٹیک پڑیں گے اور اِس کے بعد پھر یہ بحث چھڑ جائے گی کی یہ معاملہ فلاں کی مداخلت سے طے ہوا ہے تو فلاں نے اِس کے حل میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ایسے بہت سے انکشافات سامنے آتے جائیں گے کہ جن کا پردہ کوئی نہیں اٹھا سکے گا اور قوم اِسی مخمصے میں رہے گی کہ صدر اور عدلیہ کے درمیان اِس جنگ کو کس نے ختم کروایا جیسے آج تک قوم پہلے والے معاملے کے حل کرنے والے شخص تک نہیں پہنچ پائی ہے کہ اِس سے پہلے والا ایسا ہی معاملہ کس نے راتوں رات حل کروا دیا تھا۔ یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ کچھ عرصہ بعد جب ملک میں عدم استحکام پیدا کر کے پھر یہی کچھ ہی کرنا ہے تو پھر حکومت نے ایک بار پھر اپنے ایسے غیر آئینی اقدام کر کے ملک کو اِس جنجال سے کیوں دوچار کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے صدر زرداری اور نواز شریف کی حمایت اور مخالفت میں احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اور دونوں کے حامی اپنے مخالفین کے پتلے جلا جلا کر سڑکوں کو روشن کر کے اپنے کلیجوں میں لگی آگ کو ٹھنڈی کررہے ہیں۔

بہرحال! دیکھتے جائیے کہ آگے آگے اَب پھر کیا ہوتا ہے ویسے یہ ایک بات تو ہے کہ میاں نواز شریف اور اِن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) جس سے متعلق یہ بڑا مشہور ہے کہ میاں نواز شریف کی جانب سے مصالحت پسندی کے تحت اِن کی جماعت کو ایوانوں میں فری ہینڈ نہ ملنے کے باعث اِن کی جماعت فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے اَب تک اپنا وہ روائتی کردار ادا نہیں کرسکی ہے جس طرح دنیا کے کسی بھی ملک میں اِس کی اپوزیشن جماعت ادا کرتی ہے اور وہ اپنا حزب ِ اختلاف کا کردار ایسا ادا کرتی ہے کہ برسرِ اقتدار جماعت ناکوں نے چنے چبانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

مگر مجھے آج یہ لکھتے اور کہتے ہوئے بڑا فخر ہورہا ہے کہ یہ ایک انتہائی خوش آئند اور حوصلہ افزاء امر ہے کہ ایک بڑے عرصے بعد ملک میں فرینڈلی اپوزیشن کا کرادا کرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے اپنی جماعت کو ایوانوں میں اُس وقت روائتی اپوزیشن جماعت کا کردار ادا کرنے کا بھرپور اعلان کر کے حکومت سمیت پوری پاکستانی قوم کو بھی حیران اور ششدر کردیا کہ جب صدر زرداری نے گزشتہ دنوں من پسند ججوں کی تقرری کا حکم نامہ جاری کرکے اپنے ہی پاؤں پر خود کلہاڑی ماری اور عدلیہ سے ٹکراؤ کا سامان پیدا کر کے ملک میں جمہوریت کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔

اگرچہ ایوان صدر کے اِس غیر آئینی اقدام کے بعد ملک ایک بار پھر9 مارچ 2007اور3 نومبر 2007 والی صورتِ حال سے دوچار ہوتا محسوس ہورہا ہے جس کے بعد ملک میں عدلیہ کی آزادی اور ججز کی بحالی کے لئے ایک ایسی طویل ترین تحریک نے جنم لیا تھا جس کا کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ عدلیہ کی آزادی اور ججز کی بحالی سے متعلق یہ تحریک اتنی زور پکڑ جائے گی کہ اپنی منزل کے حصول کے بعد ہی جاکر اختتام پزیر ہوگی اورآج ایک مرتبہ پھر ایسا لگ رہاہے کہ گزشتہ دنوں کے ایوانِ صدر سے ججز کی تقرری کے خلاف آنے والے احکامات کے بعد ملک میں پھر اُسی طرح کی صورتِ حال پیدا ہونے جارہی ہے جس میں ایک طرف آزاد عدلیہ کے علمبردار ہونگے تو دوسری طرف طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا حکومتی مشنری اپنی پوری قوت سے آزاد عدلیہ کی تحریک کو کچلنے کے لئے سرگرم ہوگی۔

یہاں میرا خیال یہ ہے کہ ملک کو درپیش اِس نئی صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے ایک بڑے عرصے صدر زرداری کے رویوں میں بہتری آنے کے انتظار کے بعد اپنے ساتھ روا رکھے گئے اِن کے رویوں کا اپنے سینے میں دفن گردوغبار گزشتہ دنوں اپنی ایک ایسی منہ پھٹ پریس کانفرنس میں نکال باہر پھینکا کہ قوم اِن کے اِس حوصلے پر داد دیئے بغیر نہ رہ سکے جس میں میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ حالیہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں سپریم کورٹ کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے صدر کا اقدام غیر آئینی اور جمہوریت مخالف ہے انہوں نے کہا کہ آج جمہوریت مخالف یہ اقدام ایسے شخص نے اٹھایا ہے کہ جو خود کو جمہوریت پسند اور منتخب قرار دیتا ہے اِس موقع پر انہوں نے یہ کہا کہ 14فروری کا حکومتی اقدام3نومبر 2007کا ایکشن ری پلے ہے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ افسوس ہے کہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے اِس حکومت اور صدر نے ملک کو سرکس بنا دیا ہے اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اِس قسم کے حکومت فیصلے انتہائی افسوس ناک ہیں ایسا لگتا ہے کہ حکومت اِس قسم کے فیصلے کر کے اپنی کرپشن کو تحفظ فراہم کررہی ہے اور جس کے لئے صدر دانستہ طور پر عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں جس کی پاکستان مسلم لیگ (ن) پر زور مذمت کرتی ہے اور اِس کے ساتھ ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے غصے سے اپنے دانت پیستے ہوئے یہ بھی کہا کہ زرداری جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور زرداری سندہ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے غریب عوام کے خون پسینے کی لوٹی ہوئی رقم سوئس اکاؤنٹ سے فوری طور پر وطن واپس لائیں اور اِن کا اپنی اِس منہ پھٹ پریس کانفرنس میں یہ بھی کہنا تھا کہ جمہوریت کو جتنا نقصان زرداری سے ہے اور کسی سے نہیں ہے اور ہم حکومت کو ججز کی تقرری میں کسی کو من مانی نہیں کرنے دیں گے اور اِس کے ساتھ ہی نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ ہم کسی ایک ادارے کے لئے جدوجہد نہیں کررہے ہیں ہمارا مقصد اقتدار کا حصول نہیں ہے اور ہم خالصتاً ملک کو سنوارنے اور ملک میں ایک مکمل طور پر پائیدار جمہوریت کے لئے آئندہ دنوں میں کڑے فیصلے بھی کرسکتے ہیں۔ اور انہوں نے اِس موقع پر اِس بات کا انکشاف کرکے لوگوں کو حیران کردیا کہ حکمرانوں کا رویہ پہلے ہی ملک میں آزاد عدلیہ سے ٹھیک نہیں تھا اور وہ آزاد عدلیہ سے خوفزدہ تھے اور اِس کے علاوہ انہوں نے اِس کا عندیہ بھی ضرور دیا کہ ملک میں فوج کی مداخلت کا کوئی امکان نہیں اور اگر کوئی ایسے حالات ہوئے تو قوم یہ امید رکھے کہ ہم خود سارے معاملات سنبھال لیں گے اور اِن کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ زرداری جس قدر جلد ممکن ہوسکے سوئس بینک سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس ملک میں لائے تاکہ ملک میں خوشحالی آئے اور انہوں نے حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے اِس کا بھی پابند کیا کہ حکومت چیف جسٹس کی سفارشات کے مطابق ججز کی تقرری کرے اور NROکے تحت جن لوگوں کی کرپشن سامنے آئی ہے وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں اور اِس ساتھ ہی میاں نواز شریف نے اپنی اِس غصیلی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ حکومت کے پاس اَب بھی وقت ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور حکمران دانستہ طور پر ریاستی اداروں سے کھیلنے کا سلسلہ بند کردیں

یہ تو حقیقت ہے کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان جاری اِس سرد جنگ کی شروعات تو اُس وقت ہی ہوچکی تھی کہ جب ججز کی تقرری کے معاملے نے سر اٹھانا شروع کیا تھا اور حکومت جو پہلے ہی سیاسی مصالحتوں کے باعث چیف جسٹس آف پاکستان کی سفارشات کے مطابق ججوں کی تقرری پر آمادہ نہیں دکھائی دیتی تھی اِس میں گھمسان کا رن اُس وقت چھڑ گیا جب صدر پاکستان نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سمری کو روک کر اپنے ہی اٹارنی جنرل انور منصور خان کی رائے کو بھی غیر اہم دے دیا اور بالآخر 13فروری 2010کی شام وزارت قانون و انصاف کی جانب سے دو نوٹیفکیشن جاری کردیئے گئے جس کے تحت صدر مملکت صدر آصف علی زرداری نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف کو فوری طور پر سپریم کورٹ (عدالت عظمی )کا جج اور جسٹس میاں ثاقب نثار کو قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مقرر کردیا۔ خبروں کے مطابق وزارت قانون و انصاف کی جانب سے یوں ہی نوٹیفکیشن جاری ہوا سپریم کورٹ کے 3رکنی خصوصی بینچ نے صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے جسٹس خواجہ شریف کو سپریم کورٹ کا جج اور جسٹس میاں ثاقب نثار کو قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مقرر کرنے کے نوٹیفکیشن کو معطل کردیئے اور دونوں ججوں کو اپنے عہدے پر کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔

جبکہ ایک نجی ٹی وی کی خبر کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس خواجہ شریف اور لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس میاں ثاقب نثار نے صدر آصف علی زرداری کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اِن کا واضح مؤقف تھا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتحار محمد چوہدری کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے۔ جس پرچیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے تعریف کرتے ہوئے جسٹس ثاقب کے فیصلے کو سراہا۔

اُدھر ایوان صدر سے ججز کی تقرری سے متعلق جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے ججوں کی تقرری کا صدارتی حکمنامہ معطل کئے جانے پر ملک میں جو غیر یقینی کی کیفیت سامنے آئی ہے اِس حوالے سے ملک بھر میں ایک عجیب قسم کا ملا جھلا تناؤ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے اور اِس صورت ِ حال میں ایک طرف تو حکومتی حلقوں کا خیال یہ ہے کہ ججز کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر کیا گیا ہے اور اِس کے ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر نے آئینی ماہرین سے مشاورت کی اور اپنے اِس فیصلے سے قبل چیف جسٹس کا مؤقف بھی لیا تھا یوں اِس پر پھر کسی کو کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہے جبکہ اُدھر ہی اپوزیشن جماعتوں کا یہ مؤقف بھی کھل کر سامنے آیا ہے کہ چیف جسٹس کی سفارشات کے خلاف ججوں کی تقرری غیر آئینی ہے اور اِن تقرریوں کی بھرپور طریقے سے مذمت کی جائے گی اور حکومت کے غیر آئینی فیصلوں کا مقابلہ کیا جائے گا جس کے لئے اپوزیشن کی ساری سیاسی جماعتیں باہم متحد اور منظم ہیں اور ہم ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے عوام کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دینے کے لئے اپنے تئین ملک بھر کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی، مذہبی جماعتوں اور سماجی تنظیموں سمیت سول سوسائٹی سے بھی رابطے کرنے شروع کردیئے ہیں جبکہ16مارچ 2009کو عدلیہ کی آزادی اور ججز کی بحالی کی تحریک کے بعد ٹھیک 336ویں دن یعنی 13فروری 2010کو ایک بار پھر 3نومبر 2007کے ایکشن ری پلے کی طرح ایوان صدر سے ججز پر ہونے والے حملے کے خلاف ملک میں پیدا ہونے والی صورتِ حال میں ملک کی ایک بڑی مذہبی کم مگر سیاسی زیادہ جماعت، جماعت اسلامی جو کسی بھی حوالے سے صرف احتجاج ریکارڈ کرانے کا خود اپنا ایک بڑا مضبوط اور پائیدار ریکارڈ رکھتی ہے اُس نے اِس معاملے پر بھی ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنا سب سے پہلے یعنی 15فروری کو بھر پور یوم احتجاج منا کر اپنا ایک اور ریکارڈ بنا لیا ہے جس کا سہرا جماعت اسلامی کے سر ہے کہ اِس نے ججز کی تقرری کے سلسلے میں سب سے پہلے اپنا احتجاج کر کے ایک ریکارڈ بنا لیاہے اور بس....

جبکہ صدر کے اِس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے وکلاء برادری نے ایک بار پھر ملک بھر میں اپنا پرزور مگر پر امن احتجاجوں کا سلسلہ سڑکوں پر شروع کرنے کی بھی بھرپور تیاریاں کرلی ہیں اِس حوالے سے سپریم کورٹ بار کے صدر قاضی انور کا کہنا تھا کہ جسٹس خواجہ شریف کی تقرری کا شاہی فرمان جاری کیا گیا یقین نہیں آتا کہ شاہ اِس حد تک بھی جاسکتے ہیں عدلیہ کا عضو معطل بنا دیا گیا ہے اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ انتظامیہ نے عدلیہ اور عوام کو چیلنج کردیا ہے اِس کے نتائج بڑے بھیانک اور خطرناک ہوں گے جبکہ صدر کے اِس اقدام کے بعد بڑی تعداد میں وکلاء سپریم کورٹ کے باہر جمع ہوگئے اور اُنہوں نے حکومت کے خلاف اور عدلیہ کے حق میں نعرے لگائے اور حلف نہ اٹھانے پر جسٹس میاں ثاقب نثار کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اِس کے ساتھ ہی ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قومی رابطہ کونسل نے اپنے ہونے والے ایک اہم ترین اجلاس میں چیف جسٹس کی طرف سے ججوں کی تقرری کے بارے میں سفارشات تسلیم نہ کرنے پر حکومت کے خلاف آئندہ کی حکمتِ عملی طے کرلی ہے۔

اِس ساری صورت ِ حال کے باوجود بھی جس میں عدلیہ کے معاملے نے ملک میں ایک نئے بحران کو جنم دیا ہے میرا خیال یہ ہے کہ ملک کی عوام ملک میں اِسی حکومت کو جمہوریت کے لئے بہتر قرار دے رہی ہے اور اَب بھی اِس زرداری حکومت سے عوام یہ اُمید ضرور رکھتی ہے کہ یہ حکومت جمہوری لبادے میں آمرانہ اقدامات سے گریز کرے اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سفارشات کے مطابق ججز کی تقرری کے احکامات جاری کرکے ملک کو آئندہ کسی ہولناک سیاسی بحران سے بچالے تو اِس ہی میں ملک اور قوم کے ساتھ ساتھ حکومت کی بھی بھلائی ہے۔

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 889926 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.