اردو افسانے کا کرشن:سعادت حسن منٹو

افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کے آباعلامہ اقبال کی طرح کشمیری الاصل تھے اور کاروبار کے سلسلہ میں کشمیرسے ترک وطن کرکے لاہورمیں آبسے اور پھر وہاں سے امرتسرچلے گئے۔منٹوکے والدغلام حسن ۹ا۹اء میں سب جج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔منٹواا مئی ۲ا۹اء کو سمبرالہ ضلع لدھیانہ پنجاب میں پیداہوا۔منٹوکی ابتدائی زندگی کوچہ وکیلاں امرتسرمیں بسرہوئی۔اسے شروع ہی سے اردواورانگریزی ناول پڑھنے کا چسکاتھا۔اس ادبی مطالعے نے اسے نصابی سرگرمیوں سے دورکردیا۔اس نے میٹرک ہائی سکول امرتسر سے تھرڈ ڈویژن میں کی اور اس میں بھی اردوکے پرچے میں فیل ہوگیا۔ہندوسبھاکالج امرتسرمیں داخلہ لیا لیکن ایف اے میں فیل ہوگیا۔منٹو کی ادبی زندگی کاآغازکالج ہی سے ہوگیا تھا۔

اس نے کچھ دوستوں کی مددسے ایک کالج میگزین ’ہلال‘ کااجراکیا اوراس رسالے کا مدیربن گیا۔اس نے اسی دوران روسی اور فرانسیسی فن پاروں کا مطالعہ کیا اور انھیں اردو میں منتقل کرنے لگا۔منٹوکا پہلا طبع زادافسانہ ’تماشا‘اگست ۹۳۴اء میں باری علیگ کے رسالے ’خلق‘ میں شائع ہوا۔منٹوکی شادی بھی ایک کشمیری النسل لڑکی صفیہ سے ہوئی۔منٹو کو تقسیم کی وجہ سے بمبئی چھوڑکرلاہورآناپڑا۔اس کی خوشگوارازدواجی زندگی میں رنجشیں درآئیں۔منٹونے شراب نوشی میں پناہ ڈھونڈی اور یہی اس کے لیے موت کا پیغام بھی لائی۔معاشی بدحالی نے اسے رندبلانوش بنادیا۔کسمپرسی کے آخری دورمیں منٹو بیس بیس روپے میں اپنی کہانیاں فروخت کرتا رہا۔

منٹو کی بیوی اور مخلص دوستوں نے اسے اس عذاب سے نجات دلانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور اسی عالم میں منٹو ۸ جنوری ۹۵۵اء کو دنیا سے روٹھ گیا۔منٹوکی شخصیت مختلف رنگوں کا مجموعہ تھی۔وہ ایک انسان دوست فردتھا اور اس کے ساتھ ساتھ احسان شناس،اناپرست اور مثالی شوہربھی تھا۔اس کی چاراولادیں ہوئیں۔بیٹا اور تین بیٹیاں لیکن بیٹا مرگیا جس کا اسے ساری زندگی رنج رہا۔منٹوکی تینوں بیٹیاں اچھے گھروں میں بیاہی گئیں۔منٹونے قلیل مدت میں تصانیف کا کثیرسرمایہ چھوڑا۔وہ ایک ماہرسماجیات تھا۔اس کا پہلا افسانہ ’تماشا‘جلیانوالہ باغ کے خونی حادثے کے گردگھومتا ہے۔اس کا افسانہ اس کے عہدکی بازگشت سناتاہے۔

اس نے سیاسی نظام کی خرابیوں اور برطانوی سامراج کی چیرہ دستیوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔منٹوتقسیم کے خلاف تھا اور اسی لیے اس نے اس کا بدلہ اپنے افسانوں کے ذریعے لیا۔مایوسی اور جنسیت اس کے افسانوں میں مترشح ہے۔سیاسی رجحان کے زیراثراس نے فسادات کو موضوع بنایا۔اس نے اس رجحان کے تحت ’سیاہ حاشیے‘۔’شریفن‘۔’کھول دو‘۔’ڈارلنگ‘۔’ٹھنڈاگوشت’۔’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘۔’یزید‘۔’موذیل‘ اور’خداکی قسم‘جیسے افسانے تخلیق کیے۔منٹونے جنس نگاری اور اس کے نتیجے میں پیداہونے والی نفسیاتی پیچیدگیوں کو بھی زیربحث لایا ہے۔اس پیش کش میں اس نے طوائف کو مناسب جگہ دی ہے۔اس کے علاوہ سماجی مسائل پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔

اس کے ہاں غیرجنسی موضوعات پر کثیرتعدادمیں افسانے ملتے ہیں لیکن اسے بدنامی اور شہرت پانچ افسانوں سے ملی جو جنس کے گردگھومتے ہیں۔ان میں سے تین افسانوں ’کالی شلوار‘،’بو‘اور’دھواں‘ پر ہندوستان میں اور دو افسانوں ’ٹھنڈاگوشت‘ اور’اوپر،نیچے اوردرمیان‘پر پاکستان میں مقدمے چلے۔ہندوستان کے مقدمات میں منٹوبری ہوگیا۔لیکن پاکستان میں اسے معمولی سزاملی۔اردوافسانے میں منٹوکی حقیقت نگاری کے دوررس اثرات مرتب ہوئے۔اس کی سماجی حقیقت نگاری کے اثرات غلام عباس سے لے کر ممتازشیریں تک کے افسانوں میں تلاش کیے جاسکتے ہیں۔اردوافسانے میں علامت نگاری کو بھی منٹونے سب سے پہلے روشناس کرایا۔اپنے آخری دورمیں اس نے ’پھندنے‘کے ذریعے جدیدافسانے کی داغ بیل ڈالی لیکن اس کی پہچان تقسیم سے قبل اور تقسیم کے دوران کا افسانہ ہے۔منٹونے کشمیرکو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔اس کے اس سلسلہ میں دوافسانے مشہور ہیں جو وادی نیلم کے گاؤں ٹیٹوال کے گردگھومتے ہیں جو ہندوستانی کشمیرکاایک سرحدی گاؤں ہے۔ان میں ’ٹیٹوال کا کتا‘ اور’ـآخری سیلیوٹ‘شامل ہیں۔یہ دونوں افسانے ا۹۵ا کے اواخرمیں لکھے گئے ۔

تریسٹھ سال بعدبھی ٹیٹوال وہی منظر پیش کرتا ہے۔اس سیکٹرپرکشمیرکی تحریک کے دوران بہت سے افرادلقمہ اجل بنے۔یہ مقام مظفرآباد سے پچاس کلومیٹرشمال میں ہے اور یہیں سے وہ خطرناک سرحدی پٹی شروع ہوتی ہے جہاں عشروں سے خون کی ہولی جاری ہے۔اسی پٹی پر ضلع نیلم کا صدرمقام اٹھمقام ہے جس نے حالیہ تحریک کے دوران تاریخ کی بدترین گولہ باری کا مقابلہ کیا ہے۔بوبی ٹریپس کا شکار ہونے والے بچے اب بھی اس معاشرے میں موجودہیں اور ان ہی میں ہمارے ایک حاجی عبداللطیف رہی کی بھتیجی بھی ہے کہ splinter اب تک اس کے سرسے نہیں نکالا جاسکا۔یہاں کے باسی امیداور خوف کے درمیان پل رہے ہیں۔انسانی سانحات یہیں توجنم لیتے ہیں۔
پاکستانی کشمیرکی طرف ۹۸۹اء تا۲۰۰۲ء تک سڑک پرچلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا کہ سومیٹردوربیٹھاانڈین آرمی کا جوان کسی بھی وقت راہ گیرکونشانہ بناسکتا تھا۔ان تیرہ سالوں کے دوران میں نے خوداس وادی کے کئی سفرکیے اور اکثرپیدل۔یہی وہ جگہ ہے جہاں دونوں طرف کے کشمیریوں کو فوج کی نگرانی میں دریاکنارے ملاقات کی محدوداجازت بھی دی گئی اور پھراس پر پابندی عائدکردی گئی۔ان خونی سالوں کے بعد اب یہاں کے باسی امن کے خواہاں ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ دونوں اطراف کے کشمیریوں اور ان کے منقسم خاندانوں کو ملنے کا موقع فراہم کیا جائے جس کے بعداب یہاں ایک کراسنگ پوائنٹ بنایاگیا ہے جس سے دونوں طرف کے کشمیر ی اجازت نامے پرآرپارآجاسکتے ہیں۔

آزادکشمیرکا چلہیانہ اورمقبوضہ کشمیرکاٹیٹوال آمنے سامنے ہیں اور درمیان میں دریائے نیلم بہہ رہا ہے۔یہ دریاتاریخ کا ایک طویل باب اپنے اندررکھتا ہے اور اس کے کنارے شاردہ بھی ہے۔اس نے جانے کتنے کارروانوں کو گزرتے دیکھا۔اس کے کنارے بسنے والے افراد نے تاریخ کے اس جبرکا مقابلہ سینہ تان کر کیا ہے ۔دریا کے اس پارٹیٹوال ایک مکمل گاؤں ہے جہاں تعلیمی ادارے،بازار،ہسپتال،ایک بڑا گراؤنڈ،پولیس سٹیشن اور لکڑی کے مکانوں کی معیاری تعمیرات نظرآتی ہے۔خاندان تقسیم ہی سے منقسم ہیں اور اب بھی ہیں اور جانے کب تک رہیں گے۔یہاں کی آبادی سو فی صدمسلمان ہے۔دریائے نیلم سے ان عشروں میں بہت پانی اور خون بہہ چکا لیکن ’ٹیٹوال کا کتا‘خوف و صدمے کی کیفیت میں آوارہ گردی کررہاہے۔اسے اس کی منزل نہیں مل رہی۔منٹوکا یہ کہنااب درست نہیں کہ یہ جنگ بے مقصدہے اور اس کے دونوں طرف ماضی میں انگریزکے لیے اکٹھے لڑنے والے آباد ہیں۔یہ بھی درست نہیں کہ یہ کسی اور کی جنگ ہے۔اب یہ جنگ ہماری بقاکی جنگ ہے۔یہ پانیوں کی جنگ ہے۔یہ تقسیم کے نامکمل ایجنڈے کی جنگ ہے۔یہ حق خودارادیت کی جنگ ہے۔اس کے دونوں طرف دونظریوں کے لیے لڑنے والی افواج ہیں۔

منٹو نے اس افسانے میں علامتی اندازاختیارکیا ہے اور یہ اندازتکلیف دہ بھی ہے۔تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسئلہ ایک کشمیر ی پنڈت نہروکا پیدا کردہ ہے یا ماؤنٹ بیٹن کا یاہماری اپنی بیوروکریسی کا۔کشمیری کیا مہرے ہیں یا ان کا کوئی کردارہوگا۔اس مسئلے کا کیا حل ہوگا۔یا حل ممکن بھی ہے یا نہیں۔کیا ہجرت کشمیریوں کا مقدرہے ۔کیا وہ دردرکی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔اورزندگی کے کسی موڑپرایک دوسرے کے گلے لگ کر،روکر،پھربچھڑجائیں گے۔منٹوکے پاس بھی ان سوالوں کے جواب نہ تھے اور ہمارے پاس بھی نہیں۔جانے کتنی ماؤں کے بیٹے کارگل سے گیاری اور ٹیٹوال سے چکوٹھی کے سیکٹرزپرموسم اور ہندوافواج سے لڑتے لڑتے اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے اور آنے والے دورکے تاریخ دان اپنے اپنے اندازمیں ان کی قربانیوں کو تحریرکریں گے۔
 
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 56923 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More