دریاؤں کے دل جس سے دھل جائیں وہ طوفان
ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر
ہلال امتیاز ( ملٹری) ستارہ جرات ٗ ستارہ امتیاز ( ملٹری) ستارہ بسالت اور
تمغہ بسالت
ایم اے لودھی
پاکستان کی دھرتی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں جنم لینے والے سپوت زندگی کے ہر
شعبے میں اپنی خداداد صلاحیتیں منواکر دنیا بھر میں وطن عزیز کانام روشن
کرتے ہیں ۔یوں تاریخ کی کتابیں ایسے ہیرو سے بھری پڑی ہیں لیکن اس وقت میں
ایک ایسی ذہین ٗ جرات مند اور قائدانہ صلاحیتوں کی حامل شخصیت کا تعارف
کروانا چاہتا ہوں جن کو دنیا ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر کے نام سے
جانتی ہے ۔ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر کی تمام تر زندگی جہد مسلسل سے
عبارت ہے لڑکپن سے ہی ان کی اٹھان دوسرے بچوں سے یکسر مختلف اور برتر تھی ۔
آگے بڑھنے کا جذبہ ٗ ستاروں پہ کمند ڈالنے کا عزم ٗ دنیا بھر میں وطن عزیز
کا نام بلندیوں پر پہنچانے کا ارادہ انہیں دوسرے تمام ہیروز سے ممتاز اور
منفرد بناتا ہے ۔ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر پاکستان ائیر فورس کے وہ
عظیم ہیرو ہیں جنہوں نے نہ صرف 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی فضائیہ
کو اپنی جرات اور بہادری کے طفیل ناقابل یقین نقصان پہنچایا بلکہ 1971ء کی
جنگ میں بھی جبکہ بنگالی پائلٹوں کی جانب سے بغاوت کے پیش نظر پاک فضائیہ
آپریشنل پوزیشن میں نہیں رہی تھی اور وطن عزیز کا دفاع بھی اس کے لیے مشکل
ہوچکا تھا ۔ ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر نے کئی بھارتی جنگی جہازوں کو
مار گرا کے اپنی صلاحیتوں کااظہار کیا ۔ اس جرات اور بہادری کے صلے میں
انہیں نہ صرف ہلال امتیاز (ملٹری) ٗستارہ جرات ٗ ستارہ امتیاز ( ملٹری)
ستارہ بسالت ہی نہیں ملا بلکہ تمغہ بسالت سے بھی نوازاگیا۔ اتنے اعزازات
حاصل کرنا شاید ہی کسی اور شخص کے نصیب میں لکھا ہو ۔
گزشتہ دنوں ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر ٗ بطور خاص اردو ڈائجسٹ کے دفتر
واقع 325/G-111 جوہر ٹاؤن لاہور تشریف لائے ۔ اردو ڈائجسٹ کے ایگزیکٹو
ایڈیٹر جناب طیب اعجاز قریشی ٗ محمد اسلم لودھی اور غلام سجاد کے ساتھ
تقریبا دو گھنٹے پر مشتمل طویل نشست ہوئی ۔جس میں فاروق عمر صاحب نے اپنی
زندگی کے مختلف گوشوں ٗ مختلف شعبوں اورمیدان جنگ میں ہونے والی کامیابیوں
کی داستان اپنی زبانی سنائی ۔ یہ داستان اس قدر پر اثر اور ذہنوں کو مہبوط
کردینے والی ہے جو ہر محب وطن پاکستانی کے لیے ایک مثال اور ایک اہم
دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اردو ڈائجسٹ کے قارئین کے لیے ائیر وائس مارشل
(ر) فاروق عمر کی یہ داستان شجاعت پیش خدمت ہے ۔
فاروق عمر 24 جولائی 1941ء کو فیصل آباد کے محلہ طارق آباد کے ایک مذہبی
گھرانے میں پیدا ہوئے ۔دینی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ اور مسجد نور کے امام
سے حاصل کی ۔ پانچویں تک آپ برن ہال گرائمر پبلک سکول فیصل آباد میں زیر
تعلیم رہے ۔مزید تعلیم کاحصول آپ کو لاہور کے مشہور سینٹ انتھونی ہائی سکول
کی دہلیز پر لے آیا۔ نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد آپ سنٹرل ماڈل سکول
لاہور میں داخل ہوئے وہاں سے میٹرک کاامتحان ہائی فرسٹ ڈویژن سائنس گروپ
میں پاس کرکے عظیم تعلیمی درسگاہ گورنمنٹ کالج لاہور پہنچے ۔دوران تعلیم
ایک ساتھی طالب علم ائیر فورس کے امتحان کی تیاری کررہا تھا ۔جس کو دیکھ کر
آپ نے بھی تیاری شروع کی تھی وہ تو ائیر فورس کے امتحان میں کامیاب نہ
ہوسکا لیکن آپ آئی ایس ایس بی میں بہترین گریڈ حاصل کرکے پاکستان ائیر فورس
میں شامل ہوگئے ۔1957ء میں آپ رسالپور اکیڈمی پہنچے ۔جنگی مہارت کے کئی
کورسز مکمل کرنے کے بعد آپ فائٹر پائلٹ بن گئے اور فلائنگ آفیسر کی حیثیت
سے پاکستان ائیر فورس کے سکوارڈن نمبر 5 سے منسلک ہوگئے ۔ابتدائی دنوں میں
آپ کراچی شفٹ ہوگئے۔ جہاں ان دنوں رن کچھ کے محاذ پر بھارتی فوج پاک سرزمین
پر یلغار کررہی تھی وہاں پاک فوج کی مدد کا فریضہ آپ کے سکوارڈن کو سونپا
گیا ۔آپ نے سٹار فائٹر کی حیثیت سے کئی فضائی مشن کامیابی سے مکمل کیے اور
بھارتی فضائیہ کو جنگ میں مداخلت سے باز رکھا۔ایک طرف پاک فوج دشمن کے چھکے
چھڑا رہی تھی تو دوسری جانب پاکستان ائیر فورس کے غیور ہوا باز اپنی جرات
اور مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے بھارتی ائیر فورس کاناطقہ بندکیے ہوئے تھے۔
معرکہ رن کچھ میں کامیابی کے بعد آپ کو سرگودھا بیس پر تعینات کردیاگیا
۔یہاں آپ کو ایک دلیر اور بہترین فائٹر پائلٹ کی شکل میں کمانڈر انچیف ائیر
مارشل نور خان کی سرپرستی میں دفاع وطن کے تقاضے پورے کرنے کا موقع ملا
۔ائیر مارشل نور خاں نہ صرف بہادرانسان تھے بلکہ فلائنگ کے بے حد شوقین اور
خطرات سے بے نیاز دشمن پر جھپٹنے کا پختہ عزم رکھتے تھے ۔ایک دن ائیر
کموڈور ڈوگر ( ستارہ جرات ) نے حکم دیا کہ فاروق کشمیر میں حالات تیزی سے
خراب ہورہے ہیں کسی بھی وقت ہماری ضرورت وہاں پڑ سکتی ہے ۔
چنانچہ ذہنی طور پر کسی بھی صورت حال کامقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں ۔آپ
تو پہلے ہی ایسے مواقعوں کی تلاش میں تھے جہاں بھارتی ائیر فورس کے ساتھ دو
دو ہاتھ کیے جاسکیں ۔انہی دنوں کشمیر میں ایک اہم واقعہ رونما ہوا ۔ جنرل
اختر علی ملک نے بھارتی فوج کو شکست فاش دیتے ہوئیجب کشمیر کی طرف اکھنور
سیکٹر میں تیز ی سے پیش قدمی کررہے تھے تو بھارتی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے
ان پر حملہ کردیا ۔جونہی حملے کی اطلاع سرگودھا ائیر بیس پہنچی تو سکواڈرن
لیڈر سرفراز رفیقی اور فلائٹ لیفٹیننٹ بھٹی نے ایف ۸۶ میں جاکر نہ صرف
چاروں بھارتی جنگی طیاروں کو مار گرایا بلکہ پاک فوج کو فضائی چھتری بھی
فراہم کردی ۔ پھر ہائی کمان کی جانب سے جنرل اختر ملک کو روک کر جنرل محمد
یحیی خان کو اکھنور کی جانب پیش قدمی کرنے کا حکم جاری ہوا ۔ یہاں یہ بتانا
ضروری ہے کہ اکھنور بھارتی فوج کی وہ شہ رگ ہے اگر اسے دبا دیا جائے تو
سارا کشمیر پلیٹ میں رکھ کر پاکستان کی گرفت میں آسکتا ۔ چنانچہ حکمت عملی
کے تحت اکھنور پر قبضے کو ضروری سمجھا گیا ۔
اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے بقول امریکہ نے پاکستان کو یقین
دہانی کروائی تھی کہ کسی بھی حالت میں بھارتی فوج بین الاقوامی سرحد عبور
نہیں کرے گی ۔ اس یقین دہانی کے بعد ہی آپریشن جبرالٹر پر عمل درآمد شروع
کیاگیا اور پاکستان ائیر فورس کو بین الاقوامی سرحدوں سے ہٹا کر کشمیر میں
اکھنورکی جانب منتقل کردیاگیا ۔لیکن جب بھارتی فوج کو اکھنور سیکٹر میں
واضح شکست دکھائی دی اور کشمیر ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا تو کسی اعلان کے
بغیر بھارتی فوج نے پاکستان کے دل لاہور پر رات کے اندھیرے میں صبح چار بجے
ایک ڈویژن فوج سے حملہ کردیا ۔ اس حملے کا مقصد یہ تھا کہ صبح دس بجے سے
پہلے پہلے لاہور پہنچ کر بھارتی جرنیلوں نے لاہور جم خانہ کلب میں جام سے
جام ٹکرانے تھے اور پاکستان کو کشمیر میں پیش قدمی کا سبق بھی چکھنا تھا
۔واہگہ سرحد پر بھارتی فوج کا حملہ اس قدر اچانک تھا۔سرحدپر باقاعدہ فوج
موجود نہ تھی رینجر کے چند جوان سرحد پر مامور تھے لیکن بھارتی ڈویژن فوج
کے حملے کو روکنا ان کے بس میں نہ تھا چنانچہ وہ پے درپے شہادتوں کے جام
پیتے رہے اور ان کالہو پاک سرزمین کی مٹی میں جذب ہوکر پاکستانی قوم کونئی
توانائی بخشتا رہا ۔آپ نے مزید گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ ابھی جنگ کا بین
الاقوامی سرحدوں پر آغاز نہیں ہوا تھا لیکن حفظ ما تقدم کے طور پر ۵ستمبر
۱۹۶۵ کو مجھے ائیر ڈیفنس کی جانب سے حکم ملا کہ میں امرتسر شہر کے اوپر
سونک دھماکہ Sonicکروں ۔ اس دھماکے کا واحد مقصد یہ تھا کہ بھارتی ائیر
فورس کو بتا دیا جائے کہ پاکستان ائیر فورس مقابلے کے لیے بالکل تیار ہے
۔جب میں ۱۰ ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہوا سرگودھا سے لاہور پہنچا تو
میری سپیڈ ۵۴۰ ناٹ تھی ۔ میں آہستہ آہستہ نیچے آتا چلاگیا تاکہ امرتسر کا
ریڈر مجھے دیکھ نہ سکے۔پھر جیسے ہی میں نے ۹۰ ڈگری پر سرحد عبور کی تو
امرتسرشہر میرے سامنے تھا۔ میں نے Full after Busher آن کرکے ۲۰۰ فٹ کی
بلندی پر جہاز کی رفتار بڑھائی اور گولڈن ٹمپل کونشانہ بناتے ہوئے تقریبا
۲۵۰ فٹ کی بلندی پر امرتسرشہر کے اوپر پرواز کی اور مشن مکمل کرنے کے بعد
میں رفتار میں اضافہ کرتے ہوئے سرگودھا کا رخ کیا اوربھارتی ائیر فورس کی
مداخلت کے بغیر میں بحفاظت سرگودھا لینڈ کرگیا ۔۶ستمبر کو جب بھارتی فوج نے
لاہور کے محاذ پر ایک بریگیڈ فوج سے حملہ کیا تو سرحد خالی ہونے کی بنا پر
بھارتی فوج بی آر بی تک پیش قدمی کرتے ہوئے پہنچ گئی ان کو اس وقت ہڈیارہ
ڈرین بیدیاں روڈ کی جانب میجر شفقت بلوچ کی کمپنی نے ۱۰گھنٹے تک روکے رکھا۔
برکی ٗواہگہ اور سائفن کا علاقہ خالی تھا جہاں پاک فوج کا کوئی جوان موجود
نہیں تھا جب حملہ ہوا تو میجر عزیز بھٹی کی قیادت میں بی آر بی کے کنارے پر
ہنگامی طور پر مورچے کھود کے پاک فوج کے جوان جنگ میں مصروف ہوگئے ۔جبکہ
سائفن کی جانب میجر حبیب اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھارتی فوج کی پیش قدمی کو
روکنے کے لیے پہنچ چکے تھے ۔
میجر عزیز بھٹی نے بی آر بی پر اپنا مورچہ بندی کرلی تو میجر شفقت بلوچ
اپنے جوانوں سمیت پیچھے آگئے لیکن انہوں نے صرف ۱۱۰ جوانوں سے پورے بھارتی
بریگیڈ کو دس گھنٹے تک روک کے دنیا کی عسکری تاریخ میں اپنانام سنہری لفظوں
سے لکھوا لیا جن کو دومرتبہ ستارہ جرات عطا کیاگیا۔اﷲ تعالی کی تائید و
حمایت اور پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے ۶ستمبر کو اپنی جانوں کانذرانہ
پیش کرکے بھارتی فوج کالاہور پر قبضے کاابتدائی خواب چکناچور کردیا ۔اب
باقاعدہ جنگ شرو ع ہوچکی تھی ۔ پاکستان ائیر فورس بھی باقاعدہ جنگ میں کود
پڑی ۔ ونگ کمانڈر نوزی سجاد حیدر چھ فائٹر جہازوں کے ساتھ پٹھان کوٹ کے
ہوائی اڈے پر حملہ آور ہوئے ۔اس حملے میں عباس خٹک ٗ دلاور حسین بھی شریک
تھے جو بعدمیں ائیر چیف مارشل اور ائیر مارشل کے عہدوں تک پہنچے ۔پٹھان کوٹ
کے ہوائی اڈے پر روسی مگ 21 جنگی جہاز حملے کے لیے تیار کھڑے تھے جو روس نے
بطور خاص بھارت کو دیے تھے ۔ یہ جدید ترین سہولتوں سے آراستہ جہاز پاکستان
ائیر فورس کے پاس موجود جنگی جہازوں سے کہیں زیادہ موثر ٗ متحرک اور فن حرب
بازی میں اپنی مثال آپ تھے اسی لیے ہائی کمان کی جانب سے حکم دیاگیاکہ
پٹھان کوٹ پر روسی مگ طیاروں پر حملہ کرکے انہیں اڑنے سے پہلے ہی راکھ کا
ڈھیر بنا دیاجائے ۔ہمارا یہ مشن بہت کامیاب رہا اور پاکستان ائیر فورس کے
طیاروں نے پٹھان کوٹ ائیر فیلڈ کو روسی مگ ۲۱ سمیت تباہ کردیئے ۔ یہ
جارحانہ حملہ بھارتی ائیر فورس کے لیے بڑے صدمے کا باعث تھا ۔اس کامیاب
حملے کے بعد بھارتی جہازوں نے سرگودھا پر حملہ کیا ۔جہاں میں اور فلائٹ
لیفٹیننٹ عارف اقبال ایف ۱۰۴ میں پہلے ہی فضا میں موجود تھے ۔دوسری جانب
خطرے کو بھانپتے ہوئے سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم بھی اپنے ساتھی پائلٹ سمیت
فضا میں نمودار ہوگئے ۔جونہی بھارتی جہاز سرگودھا کی حدود میں داخل ہوئے تو
اینٹی ائیر کرافٹ گنوں نے گولے برسانے شروع کردیئے ۔ریڈار چینل پر ایم ایم
عالم ہم سے پہلے بھارتی جہازوں کے تعاقب میں پہنچ چکے تھے اینٹی ائیرکرافٹ
گنوں کے برستے ہوئے گولوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھارتی طیاروں پر جھپٹ پڑے
اور دو منٹ کے اندراندر تین بھارتی جہاز مار گرائے جبکہ چوتھا خوفزدہ ہوکر
مقابلہ کیے بغیر ہی بھاگ نکلا ۔یہ بھارتی ایئر فورس کا آدم پور اور ہلواڑہ
سے پہلا جارحانہ حملہ تھا جو بری طرح ناکامی سے ہمکنار ہوا ۔اس فارمیشن کی
ناکامی کے بعد مزید بھارتی جہازوں نے سرگودھا ائیر بیس پر کھڑے ہوئے دو
پاکستانی جنگی طیاروں پر حملہ کیا ان میں سے ایک جہاز تباہ ہوگیا جبکہ
دوسرا محفوظ رہا۔ اس حملے کا جواب دینے کے لیے میں اور ایک اور ساتھی پائلٹ
نے بھارتی طیاروں کا تعاقب کیا لیکن وہ ہم سے بچ کر اپنے اڈوں پر پہنچنے
میں کامیاب ہوگئے۔ پھر چھ بھارتی جہازوں نے یلغار کی تو رات کے اندھیرے میں
بھارتی جہازوں کے ساتھ آنکھ مچولی چلتی رہی لیکن جب بھی ہم ان کو اپنی گرفت
میں لاکر تباہ کرنے لگتے تو وہ نہایت آسانی سے ہمارے چنگل سے بچ نکلتے ۔ اس
واقعے کے بعد گہری سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ بھارتی جنگی
طیاروں کو امرتسر ریڈار سے رہنمائی ملتی ہے یہ ہیوی ڈیوٹی ریڈار Rushion 3D
روس نے بھارت کو دیاتھا ۔ہائی کمان نے فیصلہ کیا کہ اس روسی ریڈار کوہر
صورت تباہ کیاجائے تاکہ پاکستان پر حملے کی غرض سے آنے والے بھارتی طیاروں
کو اس ریڈار سے راہنمائی نہ مل سکے اور حملے سے پہلے ہی ہم ان کی گردن دبوچ
سکیں ۔ریڈار پر حملے کے لیے ونگ کمانڈر انورشمیم ( جو بعد میں چیف آف ائیر
سٹاف کے عہدے پر فائز ہوئے ) فلائٹ لیفٹیننٹ منیر الدین احمد اور فلائٹ
لیفٹیننٹ عارف اقبال پر مشتمل فضائی سرفروشوں کے قافلے نے سرگودھا سے پرواز
کی ۔یہ کاروائی اس قدر جارحانہ انداز میں کی گئی کہ بھارتی فضائیہ کو
مقابلے کی جرات نہ ہوئی اور امرتسر کے روسی ریڈار کو مکمل طور پر تباہ
کردیاگیا جس کے بعد بھارتی فضائیہ یتیم ہوکر رہ گئی ۔ اب اکثر بھارتی پائلٹ
اپنے ہوائی اڈوں سے حملے کی غرض سے اڑتے ضرور تھے لیکن وہ حملہ آور ہوئے
بغیر ہی واپس چلے جاتے ۔
پھرہائی کمان کو اطلا ع ملی کہ بے شمار فوجی گاڑیاں ٗٹینک ٗ توپیں جی ٹی
روڈ پر سرحد کی جانب آرہی ہیں ۔چنانچہ سکوارڈن لیڈ ر سجاد حیدر کی قیادت
میں فلائٹ لیفٹیننٹ محمداکبر ٗ فلائٹ لیفٹیننٹ دلاور حسین ٗ فلائٹ لیفٹیننٹ
غنی اکبر ٗ فلائٹ لیفٹیننٹ خالدلطیف اور فلائنگ آفیسر محمدارشد چوہدری اور
فلائٹ لیفٹیننٹ فاروق عمر( میں) نے بھارتی سرحد عبور کی اور نیچی پرواز
کرتے ہوئے بھارتی فوج کے اس قافلے کو منٹوں میں راکھ کا ڈھیر بنا دیا ۔
لاہور کی جانب پیش قدمی رکنے کے بعد بھارتی فوج نے سیالکوٹ کی جانب چونڈہ
کے محاذ پر چھ سو ٹینکوں سے یلغار کردی ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ کسی بھی
محاذ پر ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی ۔بھارتی مشن تھا کہ سیالکوٹ کو کچلتے
ہوئے گوجرانولہ پہنچ کر لاہور پر قبضہ کیا جاتا اورنعوذ باﷲ پاکستان کو دو
حصوں میں تقسیم کردیاجائے ۔ بھارتی فوج کو یہ گمان بھی نہیں تھاکہ ۶۰۰
ٹینکوں سے کیا جانے والا یہ حملہ کبھی بھی ناکام ہوسکتا ہے ۔ جہاں پاک فوج
کے افسروں اور جوانوں نے آگے بڑھتے ہوئے ٹینکوں کے نیچے بم باندھ کر بھارتی
ٹینکوں کو روئی کے گالوں کی طرح فضا میں اڑایا وہاں پاک فضائیہ کے شدید
ترین حملوں نے بھارتی فوج کی کمر توڑ کے رکھ دی اور چونڈہ کا محاذ بھارتی
ٹینکوں کا قبرستان بن گیا ۔
ایک دن مجھے اور فلائٹ لیفٹیننٹ عباس مرزا کوحکم ملا کہ شکرگڑھ کے نزدیک دو
بھارتی طیارے موجود ہیں ان کو حملے سے روکا جائے۔ ہم دونوں بہت تیزی سے
شکرگڑھ کی جانب بڑھے تو وہاں بھارتی طیاروں کی تعداد چھ سے بھی زیادہ نظر
آئی ۔چھ بھارتی جہازوں سے پاک فضائیہ کے دلیر اور نڈر ہوا باز فلائٹ
لیفٹیننٹ یوسف علی خاں تنہا ہی مقابلہ کررہے تھے۔ تعداد میں زیادہ ہونے کی
بنا پر فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف علی کے طیارے کو نقصان پہنچ چکا لیکن انہوں نے
موت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھارتی طیاروں کا مقابلہ جاری رکھا۔جیسے ہی ہم
وہاں پہنچے تو بھارتی طیارے ہمیں دیکھ کر بھاگ نکلے اور اﷲ کے فضل و کرم سے
فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف علی بحفاظت سرگودھا ائیر بیس پر اترنے میں کامیاب
ہوگئے۔اسی طرح ۹ستمبر کی صبح گیارہ بجے اطلاع ملی کہ پسرور کے علاقے میں دو
بھارتی جہاز حملہ آور ہیں ان کا تعاقب کیا جائے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ حکیم اﷲ (
جو بعدمیں ائیر چیف مارشل کے عہدے پر بھی فائز ہوئے ) نے سرگودھا سے پرواز
کی اور پسرور کے علاقے میں دو بھارتی جہازوں کے سرپہنچ گئے ۔ بھارتی پائلٹ
جب بغیر حملہ کیے ہی بھاگنے لگے تو فلائٹ لیفٹیننٹ حکیم اﷲ نے ایک جہاز کو
گرالیا جبکہ دوسرا جہاز پسرور کی سڑک پر اترگیا پائلٹ کو گرفتار کرکے
بھارتی جہاز کو سرگودھا پہنچا دیا گیا ۔اسی طرح ہائی کمان سے حکم ملا کہ
آدم پور اور ہلواڑہ کے ہوائی اڈوں کی تصویریں بنائی جائیں تاکہ وہاں کے
حالات کے مطابق مشن تشکیل دیے جاسکیں ۔ہمارے پاس قدرے پرانے جہاز تھے جن کو
بھارت کے اندر دور تک بھیجنا خطرے سے خالی نہیں تھا چنانچہ ایف ۱۰۴ ڈبل
سیٹر جہازوں پر میں ٗ فلائٹ لیفٹیننٹ مڈل کوٹ اور فلائٹ لیفٹیننٹ آفتاب
عالم دستی کیمرے لیے مشن پر روانہ ہوئے ۔جب ہم نیچی پرواز کرتے ہوئے آدم
پور پہنچے تو جہاز کو آواز کی رفتار تک تیز کرلیا تاکہ بھارتی ہنٹر طیارے
ہمیں پکڑ نہ سکیں ۔آدم پور کے اوپر پہنچ کر جہاز کو الٹا کرکے اڑایا گیا
تاکہ کیمرہ پوری ہوائی اڈے کی تصویریں باآسانی بنا سکے ۔اگلے دن یہی
کاروائی ہلواڑہ کے ہوائی اڈے کے اوپر دہرائی گئی ۔جو نہایت کامیاب رہی ۔
اسی دوران ہائی کمان کو اطلاع ملی کہ اسلحے سے بھری ہوئی ایک گاڑی گرداسپور
ریلوے اسٹیشن پر کھڑی ہے جو سرحد کی جانب بھارتی فوج کو اسلحہ سپلائی کرنے
جارہی ہے ۔سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین بچ اپنے تین ساتھی پائلٹوں کے ہمراہ اس
مشن پر روانہ ہوئے اور گرداس پور کے ریلو ے اسٹیشن پر کھڑی ہوئی اسلحے سے
بھری گاڑی کو آگ کے شعلوں کا لباس پہنا دیا۔ بھارتی فضائیہ کو ہمت نہیں
ہوئی کہ مقابلے کے لیے نکلے لیکن سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین جب نیچی پرواز
کرکے یہ جائزہ لے رہے تھے کہ آیا گاڑی کا کوئی ڈبہ تباہ ہونے سے بچ تو نہیں
گیا تو پھٹے ہوئے گولوں میں سے ایک گولہ سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین کے جہاز
کو آلگا جس سے جہاز میں آگ لگ گئی ۔ سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین نے پیراشوٹ کے
ذریعے چھلانگ تو لگا دی لیکن بھارتی فوج نے انہیں گرفتارکرکے گولی مار
کرشہید کردیا۔ انہیں بعداز شہادت "ستارہ جرات " سے نوازا گیا ۔
یہ ۱۹ ستمبر کی بات ہے کہ چار بھارتی جنگی جہاز لاہورپر حملہ آور ہوئے تو
سکوارڈن لیڈر چنگیزی کی قیادت میں ٗ میں ٗ فلائٹ لیفٹیننٹ ملک ٗ جیلانی اور
مان اﷲ خان بھارتی جنگی جہازوں کی سرکوبی کے لیے سرگودھا سے پرواز کی
۔لاہور کی فضا میں بھارتی طیاروں سے زبردست آنکھ مچولی چل رہی تھی جب بھی
بھارتی طیارے ہماری دسترس میں آتے تو نیچے چھتوں پر کھڑے ہوئے لاہور کے
زندہ دلان شہری دکھائی دیتے ہم اس لیے بھارتی طیارے پر فائر نہ کرسکتے تھے
کہ نیچے ہماری معرکہ آرائی دیکھنے والے شہری بہت بڑی تعداد میں اپنے گھروں
کی چھتوں پر موجود تھے ۔ہمیں اس وقت حیرت ہوتی کہ موت کا خوف نہ تو ہمیں
تھااور نہ ہی لاہور کی غیور عوام کو تھا جب بھی ہمارے جہاز بھارتی جہازوں
کے تعاقب میں پہنچتے تو وہ اپنے پائلٹ کی جرات اور بہادری کی داد تالیاں
بجا کر دیتے ۔جس سے ہمارااور حوصلہ بڑھتا اور ہم موت کے خوف سے بے نیاز پاک
سرزمین کی حفاظت کے لیے تابڑ توڑ حملے کرتے۔ اس کے باوجود کہ ۶۵ کی جنگ ختم
ہوگئی لیکن بھارتی فوج اور فضائیہ کو یہ پتہ چل گیا کہ پاکستان ان کے لیے
تر نوالہ نہیں ہے بلکہ لوہے کا وہ چنا ہے جسے چباتے ہوئے دانت ٹوٹ بھی سکتے
ہیں۔
جنگ ختم ہونے کے بعد یہ احساس ہوا کہ امریکہ پر بھروسہ نہ ہی کیاجائے
کیونکہ عین اس وقت جبکہ جنگ عروج پر تھی اس نے فاضل پرزہ جات کی سپلائی بند
کردی۔ ہم ائیر چیف مارشل محمداصغرخان کی دور اندیش حکمت عملی کی وجہ سے کسی
بھی بڑے بحران سے محفوظ رہے کہ انہوں نے وقت سے پہلے مطلوبہ پرزہ جات کو
اچھی مقدار میں محفوظ کرلیا تھا جس کی وجہ سے ہماری جنگی صلاحیت میں کمی
واقع نہ ہوئی ۔امریکہ کے ناپسندیدہ رویے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ائیر مارشل
نور خان نے عوامی جمہوریہ چین سے مگ ۱۹ اور مگ ۱۵ ٹرینر طیاروں کے سات
سکوارڈن خریدے اور پائلٹ تربیتی اور مرمت و بحالی کا پروگرام ترتیب دیا۔اس
وقت میں( فاورق عمر) ایف ۱۰۴ سکوارڈن اور نمبر۵ سکوارڈن کے فلائٹ کمانڈر
تھا میں نے اس پروگرام کو دو حصوں میں تقسیم کردیاگیا ۔ پہلی فلائٹ سٹار
فائٹر اور دوسری فلائٹ کو مگ ۱۹ کانام دیاگیا۔ پاک فضائیہ میں اسے ایف ۶ کے
نام سے پکارا جاتا ہے۔ ابتداء میں ہمیں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا
لیکن یہ مرحلہ بھی ہم نے بالاخر طے کر ہی لیا ۔اب ہم ان چینی طیاروں
کوکامیابی سے اڑانے لگے اور دیگر پائلٹوں کو تربیت بھی دینے لگے ۔میں چونکہ
اس وقت فلائٹ کمانڈر تھا اس لیے دونوں قسم کے جہاز اڑانے کا مجھے موقع ملتا
رہا ۔چینی جہازوں کے انسٹرومنٹ ( پرزہ جات ) کی لکھائی چائنیز زبان میں تھی
اس لیے ہمیں سمجھنے میں دقت کاسامناکرنا پڑتا لیکن جذبہ جوان اور عزم صمیم
ہو ۔ہم نے مختصر مدت میں چینی جہاز اڑانے میں مہارت حاصل کرلی ۔جس پر خود
چینی سنیئرانسٹرکٹر اور انجینئر بھی حیران تھے۔
پھر فرانس سے میراج طیارے خریدنے کامعاہدہ ہوا تو مجھے ٗ ایم ایم عالم اور
چند دیگر سنئیر پائلٹوں کو تربیت کے لیے فرانس بھجوا دیاگیا جہاں ہم نے کم
ترین مدت میں میراج طیارہ اڑانے اور ہنگامی حالت میں درست کرنے کے طریقے
بھی سیکھ لیے ۔اس کے باوجود کہ وہاں بھی ہمیں فرانسیسی زبان سے واسطہ پڑا
لیکن زبان کی مشکل کو ہم نے آسان کرہی لیا ۔وہاں ہماری ملاقات اسرائیلی
پائلٹوں سے بھی ہوئی جو خود بھی وہاں تربیت لینے آئے ہوئے تھے۔جب ان کا
آمنا سامنا ایم ایم عالم سے ہوا تو ان کی زبانیں گنگ ہوگئیں یہی وہ عظیم
پاکستان فائٹر پائلٹ ہے جس نے ایک منٹ میں چار بھارتی جنگی طیارے گرا کے
عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ پھر ہمیں سپین کی سرحد سے نو سو کلومیٹر دور
برگ ائیر بیس لے جایا گیا جہاں ہمیں دس دس گھنٹے فی پائلٹ سیمولیٹر کی
پریکٹس کروائی گئی ۔جس میں انجن سٹارٹ اپ ٗٹیک آف Climb level of redar
work ٗ آئی ایف آر لیڈ ڈاؤن ٗگراؤنڈ کنٹرول ٗاپروچ اورانسٹریومنٹ لیڈ ڈاؤن
سسٹم کے تحت تربیت دی گئی ۔ ان امور میں ہم چھ سات گھنٹے میں ہی ماہر ہوگئے
۔ بعد ازاں ہمیں جنوبی فرانس لے جایاگیا جہاں باقاعدہ فلائنگ کا سلسلہ شروع
ہوا وہاں ہم نے دو دوہزار گھنٹے جیٹ فلائنگ کی اور ایک ہزار گھنٹہ ۱۰۴ ایف
سٹار فائٹنگ بھی کی ۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے ہمیں کسی مشکل کا سامنانہیں
کرناپڑا۔
پاکستان واپس پہنچے تو ملک میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں مشرقی اور
مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتیں ووٹروں کو ترغیب دینے کے لیے اپنا اپنا
منشوربنا رہی تھیں پھر ۱۹۷۰ کے الیکشن ہوئے اور مشرقی پاکستان میں خانہ
جنگی کے حالات پیدا ہوگئے ۔ہمیں اس سے غرض نہیں کہ کس سیاسی لیڈر نے کیا
کیا کردار ادا کیا ۔ ہمیں تو اپنی ذمہ داریاں ہر حال میں نبھانی تھیں وہ ہم
نبھاتے رہے ۔ مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی نے پاکستان ائیر فورس کو اس
اعتبار سے نقصان ضرور پہنچایا کہ اس میں جو بنگالی پائلٹ اور عملہ موجود
تھا ان کو اس خدشے کے تحت گراؤنڈ کردیا گیا کہ کہیں وہ بغاوت ہی نہ کردیں
۔ہماری فضائیہ کی آپریشنل کمانڈ مغربی پاکستان میں تھی جبکہ ایک دو سکوارڈن
مشرقی پاکستان یعنی ڈھاکہ میں بھی تھے ۔ ان حالات میں جبکہ بنگالی اور مکتی
باہنی کے لوگ پاکستان اور پاکستان آرمی کے خلاف ہوگئے تو نتیجہ یقینا ہمارے
خلاف ہی نکلنا تھا۔ پھر مشرقی پاکستان میں بھارت کی جانب سے جو مشکل حالات
پیدا کیے گئے تھے ۔ان کا دباؤ کم کرنے کے لیے ۳دسمبر ۱۹۷۱ء کو مغربی سرحدوں
پر پاکستان نے یلغار کردی اس کے باوجود کہ مغربی محاذ پر پاک فوج کے افسروں
اور جوانوں نے ایک بار پھر جرات اور بہادری کی انمٹ داستانیں اپنی لہو سے
رقم کیں ۔
۵دسمبر ۱۹۷۱ء کی رات سرگودھا کی فضا میں بھارتی کیمراز طیارے نمودار ہوئے
تو انہوں نے رسالے والا ٗ سرگودھا ٗ پشاور ٗ سیکسر ٗمیانوالی ٗ شورکوٹ اور
کراچی پر بھرپور حملے کیے ۔اس کے باوجود اس جنگ میں پاک فضائیہ کی پوزیشن
۶۵ کی نسبت زیادہ مضبوط نہیں تھی لیکن ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ بھارتی
جنگی طیاروں کو حملوں سے باز رکھا جائے ۔ بھارت کے پاس ہم سے جدید طیارے
موجود تھے جو ہمارے ریڈار پر دکھائی نہ دیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی طیارے
ہم سے بچ کر نکل جاتے ۔ایک بار ہمیں اطلاع ملی کہ بھارتی بھارتی طیارہ
پہاڑیوں کی آڑ میں چھپتے چھپاتے ہوئے سیکسر کی جانب جارہا ہے تاکہ وہاں
بمباری کرسکے ۔ فلائٹ لیفٹیننٹ نیم عطا اس کا پیچھا کررہے تھے۔ جب وہ
کھیوڑا شارٹ رینج کے قریب پہنچا تو اس نے ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز شروع
کردی ۔اسی اثنا میں فلائٹ لیفٹیننٹ نعیم عطا نے میزائل داغا جو نشانے پر
لگا اور وہ بھارتی جدید طیارہ پہاڑیوں میں جاگرا ۔اس طیارے کے گرنے سے
بھارتی فضائیہ کو پیغام مل گیا کہ ان کے جدید طیارے بھی پاک فضائیہ گرا
سکتی ہے ۔
اپنے طیاروں کی تباہی کے بعد بھارتی فضائیہ نے ایک نئی تکنیک کواستعمال
کرنا شروع کیا۔ہائی دھماکہ خیز بم کی بجائے Spiek بم استعمال کیے جنہیں
اینٹی پرسنل بھی کہاجاتا ہے۔اس طریقہ کار سے بموں کے ٹکڑے کچھ اس انداز میں
بکھر رن وے میں پیوست ہو جاتے کہ رن وے استعمال کے قابل نہ رہتا ۔اس حالت
میں کوئی بھی گاڑی یا جہاز وہاں سے گزر نہیں سکتا تھا۔ رات کے اندھیرے میں
یہ رکاوٹیں دور نہ ہوسکیں خوش قسمتی سے ہمارے کسی جہاز کو نقصان تو نہ
پہنچا لیکن رن وے چند گھنٹوں کے لیے ناقابل استعمال ہوگیا۔دوران جنگ ہم
بھارتی جنگی طیاروں کو اپنی تکنیک اورمہارت بھاگتے رہے اور ممکن حد تک حملے
سے باز رکھتے رہے لیکن ایک مرتبہ جب بڑی تعداد میں بھارتی طیارے سرگودھا ٗ
میانوالی اور پشاور کے ہوائی اڈوں پر حملہ آور ہوئے تو واقعی صورت حال
پریشان کن ہو چکی تھی۔ میں اس وقت فضائی نگرانی پر مامور تھا ۔اس دوران
میرے جہاز میں نقص پیدا ہوگیا تو میں نے لینڈ کرنے کی اجازت مانگی سرگودھا
ائیر کنٹرول کاپیغام ملا کہ ہم انڈ ر اٹیک ہیں اس لیے میانوالی چلے جائیں
جب میانوالی پہنچا تو وہاں سے پشاور جانے کا پیغام ملا جب میں پشاور پہنچا
تو پشاور والوں نے بھی لینڈ کرنے سے یہ کہتے ہوئے اجازت نہیں دی کہ بھارتی
طیارے حملہ آور ہورہے ہیں اس لیے لینڈ کی سہولت فراہم نہیں کی جاسکتی ۔ جب
خطرہ کچھ کم ہوا تو اجازت ملنے پرمیں نے پشاورائیر بیس پر لینڈ کیا وہاں
فلائٹ لیفٹیننٹ ذوالفقار علی شاہ اپنے میراج طیارے کے ہمراہ موجود
تھے۔جنہوں نے بھارتی طیاروں کے حملے کو ناکام بنائے رکھا ۔
پشاور سے واپسی پر میں نے اور فلائٹ لیفٹیننٹ ذوالفقار علی شاہ نے میراج
طیارے پر دس ہزار فٹ کی بلندی پر سرگودھا کا رخ کیا توریڈار کو اطلاع دی کہ
اگر کوئی بھارتی فارمیشن نظر آئے تو بتائیں تاکہ ہم انہیں مار گرائیں ۔ ہم
چوکنے ہوکر محو پرواز تھے۔جب ہم کھیوڑا کے قریب سالٹ رینج عبور کررہے تھے
تو ریڈار نے بتایا کہ رسالے والا ائیر فیلڈ پر چھ بھارتی ہنٹر طیارے حملہ
کرررہے ہیں آپ انہیں جاکرروکیں ۔ہم نے فیول ٹینک گرا کر جہازوں کوہلکا کیا
اب دو میراج طیاروں کی چھ ہنٹر طیاروں کے ساتھ جنگ تھی ۔ہم انہیں مارگرانے
کی جستجو میں تھے اور وہ نقصان پہنچا کر بھاگنا چاہتے تھے۔پھر قدرت نے ہمیں
موقع فراہم کردیا ہم نے دو طیاروں کو مار گرانے کے بعدباقی طیاروں کا تعاقب
شروع کردیا۔دو اور طیارے ہمارے ہاتھ لگے اور باقی رات کے اندھیرے میں
بھاگنے میں کامیاب ہوگئے ۔
اس کامیاب معرکہ آرائی کے بعد ہمیں ہائی کمان کی جانب سے حکم ملا کہ
سیالکوٹ سیکٹر میں بھارتی فوج پانچ سو ٹینکوں سے حملے کرنے کی تیاری میں
مصروف ہے۔ آپ وہاں جائیں اور گینگ کینال فوٹو ریکی مشن مکمل کرکے آئیں ۔میں
نے وہاں پہنچ کر کامیابی سے ایک ہزار تصویریں بنائیں اور سرگودھا پہنچ کر
ائیر ہیڈکوارٹر کو پیش کردیں۔ پھر مجھے پٹھانکوٹ کے علاقے میں تصویر کشی کا
مشن سونپا گیا۔ میں پسرور کے راستے نیچی پرواز کرتا ہوا پٹھانکوٹ پہنچا
توبھارتی اینٹی کرافٹ گنوں نے طیارے پر گولوں کی بارش کردی اور مجھے گرانے
کی کوشش کی ۔پھر ایک زور دار دھماکہ ہوا تو جہاز کانپ اٹھا ۔ بلکہ جہاز کے
انجنوں نے وائبرٹ کرنا شروع کردیا جیسے ابھی گر جائے گا۔میں نے سیکسر کے
ریڈار کو بتایا کہ میں نے مشن تومکمل کرلیا ہے میرے جہاز میں خرابی پیدا
ہوگئی ہے ہوسکتا ہے کہ بخیر واپس نہ پہنچوں۔اس لمحے میرا جہاز جھٹکے کھارہا
تھا اور جہاز کی رفتار ۵۱۰ ناٹ تھی۔اس کے باوجود کہ بھارتی طیارے مجھے
آسانی سے گرا سکتے تھے لیکن اﷲ کے فضل و کرم سے ان کو میرے قریب آنے کی ہمت
نہ ہوئی ۔ میں زگ زیگ کرتا ہوا شکر گڑھ کے راستے سرگودھا پہنچ گیا۔جیسے ہی
رن وے پر اترا تو انجن کاکمپریسر زمین پر گر پڑا اور جہاز کی پشت سے آگ کے
شعلے نکلنے لگے ۔جب قریب ہوکر دیکھا تو ایک بڑی گدھ نے جہاز کے ریڈار کو ہٹ
کرتی ہوئی دائیں انجن کو پھاڑا ۔پھر کمپریسر کو نقصان پہنچاتی اور فیوز لاج
کو توڑتی ہوئی باہر نکل گئی تھی۔یہ بہت بڑا حادثہ تھا جس سے اﷲ تعالی نے
مجھے اس سے محفوظ رکھا۔
ابھی بھارتی طیاروں سے ہماری آنکھ مچولی جاری تھی کہ مشرقی پاکستان بنگلہ
دیش بن گیا اور ہم سب نے یہ خبر نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ سنی اور ہماری
آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔
بعدازاں مجھے کامرہ ائیر نوٹیکل کمپلیکس کا چیف ایگزیکٹو اور ڈائریکٹر جنرل
بنا دیاگیا۔ اسی دوران قراقرم کے ۸ جیٹ ٹرینر بھی رہا اور گراؤنڈ اٹیک
آپریشن بھی جاری رکھے۔یہ پاک چائنہ پروجیکٹ تھا جو اب ساری دنیا میں شہرت
حاصل کرچکا ہے۔اسی دوران میں نے جے ایف ۱۷ تھنڈر کی بنیاد بھی رکھی جس پر
پاکستان کو بلاشبہ فخر ہے۔کامرہ میں تعیناتی کے بعد آپ کو شاہین ائیر لائن
بنانے کا حکم مجھے ملا ۔ اس طرح شاہین ائیر لائن کے پہلے بانی چیف ایگزیکٹو
ہونے کااعزاز بھی مجھے حاصل ہوا۔
دسمبر ۱۹۹۲ء میں ائیر مارشل کی حیثیت سے میں پا ک فضائیہ سے ریٹائر ہوگیا ۔
ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے حکم پر مجھے پاکستان
ائیر لائن PIA کا چیرمین بنا دیاگیا۔یہاں قیام کے دوران پی آئی اے کو منافع
بخشا ادارہ بنانے کے ساتھ ساتھ میں نے دنیا میں پی آئی اے کی لینڈنگ کے
مزید مقامات حاصل کیے اور پاکستانیوں کی دنیا کے وسیع تر نٹ ورک تک رسائی
ممکن بنائی۔ بعدازاں مجھے پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر بھی منتخب کرلیا گیا
جہاں میں نے سفارش اور رشوت کے رجحان کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کرتے ہوئے
میرٹ کو اپنا یا ۔ جس کے نتیجے میں پاکستان ہاکی ٹیم نے۱۹۹۴ میں لاہور میں
ہونے والے ورلڈ چیمپیئن جیت لی ۔اس کے بعد آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہونے
والے ایٹ ملکی ٹورنامنٹ میں بھی پاکستانی ہاکی ٹیم کو نمایاں کامیابی ملی۔
۱۹۹۶ء کو میں نے پی آئی اے اور پاکستان ہائی فیڈریشن دونوں کو خیر باد کہہ
دیا ۔آج کل فاروق فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں جو چار سال پہلے قائم کی گئی تھی جس
کے تحت نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کیاجاتاہے۔ |