حمید گل کی سوچ اورپاکستان کی تقدیر

میں 1991ء سے 1996ء تک صدر آزاد ریاست جموں و کشمیر سردار سکندر حیات خان کے ہمراہ افسر تعلقات عامہ کے طورپر کا م کرتا رہا۔اسی دوران ایک دن کشمیر ہائوس کے ایوان صدر میں حمید گل اپنے بیٹے کے ساتھ صدر سردار سکندر حیات خان سے ملاقات کرنے آئے۔وہ کچھ ہی عرصہ قبل فوج سے مستعفی ہوئے تھے۔سٹاف کی اطلاع پر میں ان سے ملا، اپنی'' باڈی لینگویج'' میں وہ ایک عام سائل کی طرح نظر آئے۔ڈرائینگ روم میں بٹھا کر صدرگرامی کو ان کی آمد کی اطلاع دی گئی۔کچھ دیر بعد صدرسردار سکندر حیات خان آئے اور ان سے ملاقات کی۔حمید گل اپنی معاشی صورتحال کے حوالے سے کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس اور کچھ نہیں،صرف ان کے بیٹے کی اسلام آباد میں بوٹ بنانے کی ایک فیکٹری ہے۔وہ صدر سردار سکندر حیات خان سے اکیلے میں کچھ بات کرنا چاہتے تھے،لہذا مجھے کمرے سے باہر جانا پڑا۔معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس سلسلے میں صدر سردار سکندر حیات خان سے ملنے آئے تھے۔

چند ہی روز قبل فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل نے روزنامہ جنگ دی نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ''ملک کے حالات ایسی نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ آئین منسوخ بھی کر دیا جائے تو کچھ نہیں بگڑے گا ،قرار داد مقاصد کی موجودگی میں لوگ سیاسی جماعتوں کی بات نہیں سنیں گے بلکہ ان کا خون مانگیں گے ،پاکستان میں ہر حکمران غلطی کرتا ہے ،فوج کو چاہیئے کہ وہ تھوڑے عرصے کے لئے اقتدا ر سنبھال لے اور فوج کی طرح کام کرے ،انہیں اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کو بھی نکالنا ہو گا اور اپنے علاوہ دوسروں کا بھی کڑا احتساب کرنا ہوگا ،اگر معاملہ فوج نے نہ سنبھالا تو پھر صرف سول وار ہو گی ۔ پاکستان کے لئے زیادہ قربانیاں تو مشرقی پاکستان نے دیں اور پاکستان کو سب سے زیادہ ایوب خان نے مستحکم کیا'' ۔آج دنیا اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ سابق آمر جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ملک کی حقیقی سیاسی جماعتوں کے خاتمے کے اقدامات کئے اور اس تابعدارمفاد پرست سیاست کی بنیاد رکھی گئی جس کے بدتر نتائج کا آج ملک کو سامنا ہے ۔اسی دور میں بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرتے ہوئے پاکستان اور کشمیر کاز کے مفادات پر 'کمپرمائیز' کیا گیا۔ مختصر یہ کہ ایوب خان نے پاکستان کو اس کے اصل راستے سے ہٹا کر ملک میں مفاد پرست طبقات کو مضبوط کیا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے بھی زیادتی کے امور میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔جنرل ایوب کے بعد جنرل ضیاء الحق اور اس کے بعد جنرل پرویز مشرف سے ملک میں فوج کو اختیارات و مراعات کے حوالے سے ایک اعلی ترین اور مقدس تر مقام عطا کر دیا گیا۔

اب موجودہ ''جمہوری حکومت ''کے دور میں ہی کافی حد تک آئینی اور قانونی طور پر فوج کی بالادستی کا وہ نظام قائم ہو گیا ہے جس کی سابق مارشل لاء حکومتیں خواب دیکھا کرتی تھیں کہ سامنے سویلین ہوں اور اختیار و اقتدار ان کا ہو۔معلوم نہیں کہ آئین میں ایسی کون سی پابندیاں ہیں جن کی وجہ سے بقول حمید گل، پاکستانی فوج کوئی ایسے اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے جو اقدامات کرنے، بقول حمید گل ضروری ہیں؟حمید گل کی یہ سوچ پاکستان کے لئے نہایت خطرناک ہے۔اس سوچ کے افراد کو کیا معلوم کہ ملک کی اصل قوت سویلین ہی ہوتے ہیں،سیاسی جماعتیں ہی ملک کے لئے سوچ و عمل کی راہیں مہیا کرتی ہیں،لیکن ہمارے ملک میں تو سیاست کے نام پرمفاد پرست، بدکردار گروپ تشکیل دیتے ہوئے اسی کے چلن کی وجہ سے ہی آج ملک میں سیاسی جماعتوں کے نام پر شخصی،خاندانی،فرقہ وارانہ اور علاقائی وغیرہ گروپ قائم ہیں۔ملک میں حکومت جمہوری ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں شکست فاش سے دوچار ہو چکی ہیں۔یہ سوچ ملک و عوام کے لئے زہر قاتل کی حیثیت تو رکھتی ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ پاکستان کی دفاعی قوت افواج پاکستان کے بھی خلاف ہے۔یہ ''گل آرائیاں'' محض حمید گل کے خیالات نہیں ،پاکستان کے ایک مفاداتی ''مائینڈ سیٹ'' کی خواہشات کی بھی ایسی ہی سوچ ہے۔

حمید گل پاکستان کے اس مشکوک مکتبہ فکر سے منسلک نظر آتے ہیں جو القاعدہ سے لیکر طالبان کی حمایت اور اسلام کے عالمی جہاد کے پرچاری ہونے میں ملوث نظر آتے چلے آئے ہیں۔فوجی حکومتوں سے مستفید ہونے والے ایسے سیاسی بیروزگاروں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے اور مختلف شعبوں میں ایسے کئی افراد نظر آتے ہیں جو اپنے بیانات ،مضامین تحریر کرنے کے علاوہ اسی کی دعائیں کرتے نظر آتے ہیں کہ فوج کو ملک کے اندر کچھ بھی کرنے کے لئے آئین و قانون کو نظر انداز کر کے فوج کی مکمل بالادستی قائم کی جائے تاکہ طفیلی لوگ معاشی طور پرمستفید ہو سکیں۔فوج کے اقتدار میں ہی اپنے مفادات کے حصول کے خواہاں ایسے عناصر محض اپنے مادی مفادات کے لئے ملک میں انتشار اور تباہی پھیلانے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان ہے تو سب ہیں لیکن اسی طرح کی سوچ کے بعض عناصر اب پاکستان میں اس بات کو بغیر لکھا ہوا لازمی قانون بنانا چاہتے ہیں کہ ادارے اور ان سے کسی بھی طور منسلکہ لوگ ہیں تو پاکستان ہے۔

ملک کی صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف' ضرب عضب ' اپنے آخری مراحل میں ہے ،شہروں میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں جا ری ہیں،ساتھ ہی بھارت کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کی اطلاعات ہیں۔مجھے یہ بھی یاد ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اوڑی کے مقام پر بھارتی فوج کے آٹلری کیمپ پر عسکریت پسندوں کے ایک حملے کے بعد بھارتی عہدیداروں نے د ھمکی دی تھی کہ'' چھ ماہ کے اندر ہی پاکستان کو ایسا جواب دیا جائے گا کہ وہ پراکسی وار بھول جائے گا''۔اس کے فوری بعد ہی پشاور کے آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کے قتل عام کی وہ دہشت گردی ہوئی جس سے پورا ملک دھل گیا۔ اب بھارتی حکومت کے اہم وزراء پاکستان کے خلاف جنگی کاروائیوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بھارت چین کی طرف سے پاکستان میں اقتصادی راہداری قائم کرتے ہوئے گوادر کی بندر گاہ سے علاقائی معاشی انقلاب کے خلاف دہشت گردی کراتے ہوئے جارحانہ حملے کی جنگی کاروائیوں پر بھی آمادہ نظر آتا ہے۔

یہ توہیں ملک کو درپیش بیرونی خطرات ،اندرونی طور پر بھی ایسے کئی خطرات درپیش ہیںجو اپنے بھیانک نتائج کے پیش نظر اہمیت میں بیرونی خطرات سے کسی طور کم نہیں ہیں۔پاکستان عوام کے مفاد کے لئے بناتھا،لیکن صد افسوس ملک میں طبقاتی تقسیم کو مستحکم اور مبنی بر انصاف قرار دے دیا گیا ہے۔ہمارے ملک کے چند طبقات سے وابستہ لوگ ملکی اقتصادیات کی بری حالت کے باوجود یورپی باشندوں سے اچھی سوشل لائف انجوائے کر رہے ہیں، ان کے لئے یورپی باشندوں سے اچھا تعلیمی اور زیادہ اچھا صحت کا نظام قائم ہے۔ملک میں اس معاشی عدم مساوات سے بنیادی سہولیات سے محروم عوام کو سزایاب کیا جا رہا ہے۔اہل اختیار و اقتدار کے لئے سب کچھ ہو جاتا ہے لیکن عوام کو سہولیات کی فراہمی میں ناقابل اصلاح مسائل بتائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف سنگین ترین سازشیں جاری ہیں کہ کسی ملک کو خراب کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ وہاں کے عوام ہی وہاں کے نظام کے خلاف ہو جائیں۔ محب وطن فریاد کر رہے ہیں کہ خدارا ،عوام اور خواص کے درمیان بے عزتی ،سزایابی اور مقدس و محترم کے اتنے وسیع فرق نہ رکھیں کہ عوام اس نظام سے متنفر ہو جائیں جس نے انہیں تیسرے درجے کی مخلوق بنا رکھا ہے۔ملک میں معاشی عدم مساوات اور خراب سرکاری نظام بھی ملک کے لئے سنگین ترین خطرات کا موجب ہے۔

اس تمام صورتحال کو نظر انداز کرتے ہوئے حمید گل اور ان کی سوچ کے دیگر افراد پاکستان کے اندر فوج اور سویلین کی ایک نئی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔اس طرح کی سوچ اور ''اپروچ''ملک میں اتحاد و یکجہتی کی فضا کے بجائے انتشار پیدا کرتے ہوئے پاکستان دشمن قوتوں کے عزائم کی راہ ہموار کرنے کرنے کے مترادف ہے۔انتہا پسندی اور جنونیت پر مبنی اس طرح کی سوچ کی بیج کنی پاکستان کے تحفظ اور بقاء کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ملک میں عقل اور شعور پر پابندی کو کسی طور بھی ملک کے مفاد میں قرار نہیں دیا جا سکتا اور نا ہی پاکستان میں بسنے والے سب لوگ نظرئیہ پاکستان اور مقاصد پاکستان سے بے خبر اور عاری ہیں۔پاکستان کے ارباب اختیار کو اپنے سروں کے اوپر قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر لگانے کے ساتھ ساتھ ان کی ہدایات اور ان کے کردار کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 615528 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More