’اداس نسلیں‘ کے خالق عبد اﷲ حسین ۔ اردو ادب کا قیمتی سرمایہ تھے
(Dr. Rais Samdani, Karachi)
معروف ناول’اداس نسلیں‘کے خالق
عبداﷲحسین 4جولائی2015ہفتہ کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ دنیائے ادب
ایک بلند پائے ناول نگاراور کہانی نویس سے محروم ہوگئی۔ عبداﷲحسین کا
ناول’اداس نسلیں‘ پاکستان، ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں پسند کیا گیا۔
ان کے اس شہرہ آفاق ناول کو نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی بے
حد پزیرائی ملی ۔ اس ناول عبداﷲحسین کو دنیا کے چوٹی کے ناول نگاروں کی صف
میں لا کھڑا کیا۔پاکستان کی حکومت نے ان کی خدمات پر 2012میں پاکستان کے سب
سے بڑے لٹریچر ایواڈ کمال فن سے نوازا۔ جب کے ان کے اس ناول پر برطانوی
نشریاتی ادارے نے ایک دستاویزی پروگرام ترتیب دیا جس پر انہیں آدم جی
ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 2002میں انہیں رائل سوسائیٹی آف لٹریچر کی فیلو
شب بھی دی گئی۔
عبداﷲحسین ’اداس نسلیں‘ کے علاوہ کئی ناولوں اور کہانیوں کے خالق بھی تھے۔
ان کے ناولوں اور کہانیوں میں ’قید2008 ‘، ’باگھ‘ ، ’نادار لوگ2008‘،
’رات2010 ‘، ’فریب‘،’نشیب2011‘، باغ2006 ‘ اور مجموعہ عبداﷲحسین : اداس
نسلیں، باگھ،قید، رات، نشیب 2007 ‘میں شائع ہوئے۔ ان تمام تر ناولوں اور
کہانیوں میں عبداﷲحسین کو جو عروج اور شہرت ’اداس نسلیں‘ نے دی وہ قابل ذکر
ہے۔ یہ ناول انہوں نے 25برس کی عمرمیں لکھنا شروع کردیا تھا ۔ یہ ناول پانچ
برسوں میں مکمل ہوا۔ ناول کی تخلیق میں انہوں نے انتہائی محنت اور تحقیق و
جستجو کی ۔وہ ناول نگاری کو ایک مشکل اور جبر سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ان کا
کہنا تھا کہ ’یہ محبت سے جنم لینے والے بے انت تنہائی تھی جس سے نبرد آزما
ہونے کے لیے میں نے خود کو ایک طویل حزنیہ کے حوالے کردیا‘۔ ان کا خیال تھا
کہ ہر ادیب اپنی ہم عصر نسل کے لیے لکھتا ہے۔ ان کے اس فلسفے سے اختلاف کی
گنجائش موجود ہے اس لیے کہ جب ادب تخلیق پاجاتا ہے تو وہ موجودہ زمانے کے
لیے تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ وہ ادب آئندہ زمانے میں آنے والی نسل در
نسل کو بھی مستفیض کرتا ہے ۔ وہ نسل اس ادب کی بنیاد پرکسی بھی مصنف کی
تحقیق کو آگے بڑھاتی ہے۔
عبداﷲ حسین پاکستان کے شہر راولپنڈی میں 14اگست1931کو پیداہوئے لیکن ان کا
آبائی شہر گجرات تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گجرات ہی سے حاصل کی۔ اپنی
عملی زندگی کا آگاز ضلع جہلم سے کیا ۔ ابتدا میں ایک سیمنٹ فیکٹری میں
ملازمت اختیار کی ۔ قسمت نے ساتھ دیا اور کنیڈا چلے گئے ۔ کنیڈا کے بعد
انہوں نے بر طانیہ میں رہائش اختیار کر لی تھی۔وہیں پر اداس نسلیں تخلیق
پائی ۔ یہ ناول پاکستان سے سب سے پہلے 1963میں’نیا ادارہ‘ نے شائع کیا ۔ یہ
ناول اور یہی زمانہ عبداﷲحسین کی شہرت اوربلندیوں کا باعث بنا۔ اب وہ
پاکستان کے نامور ناول نگار کی حیثیت سے متعارف ہوچکے تھے۔ کہانیوں اور
ناول نگاری کا سلسلہ زیادہ مستقل مزاجی اور تسلسل سے جاری رہا۔ کئی کہانیاں
ان کے قلم سے منظر عام پر آئیں۔ ٹیلی ویژن کے پروڈیسرز نے ان کی کہانیوں کو
اپنے ڈرامے کے لیے منتخب کیا، ہندوستان کے ایک فلم ساز نے بھی ان کے ناول
’واپسی‘ پر ایک فلم بھی بنائی گئی۔ ان کاناول ’نشیب‘ نے بھی مقبولیت حاصل
کی ، اسے بھی عوام نے پسند کیا اور اس نے بھی شہرت کی بلدیوں کا چھوا۔
عبداﷲحسین کی زندگی کا زیادہ تر حصہ مغربی ممالک میں گزرا، وہاں رہتے ہوئے
انہوں نے اردو کو اپنے گلے سے لگائے رکھا۔ بعض لکھنے والوں کا کہنا تھا کہ
عبداﷲحسین رہتے انگریز وں کے ساتھ ہیں لیکن اپنی تحریروں میں وہ پاکستا ن
کے دیہات سے باہر نہیں نکل پاتے۔ ان کی بعض بعض تحریروں میں انگری کے الفاط
بالکل نا پید نظر آتے ہیں۔ عبداﷲحسین کافی عرصہ سے پاکستان کے شہر لاہور کے
علاقے ڈیفنس میں رہائش پذیر تھے۔ انہیں بلڈ کینسر ہوگیا تھا جس سے وہ کافی
عرصہ سے جنگ کررہے تھے۔ آخر کار وہ ہارگئے اور موت جیت گئی۔ ڈیفنس کے ایک
نجی اسپتال میں زیر علاج رہے اور ہفتہ کے روز اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
ان کے انتقال سے دنیائے ادب سے تعلق رکھنے والی برادری پائے کے ناول نگار
اور کہانی نویس سے محروم ہوگئی۔ عبداﷲحسین کی وفات ملک اور ادبی حلقوں کے
لیے نقصان عظیم ہے۔ انہوں نے قومی زبان کی ترقی اوراردو ادب کے لیے گرانقدر
خدمات انجام دیں۔ وہ اردو ادب کا ایک قیمتی اثاثہ تھے۔ ہماری ویب
’رائیٹرکلب ‘ کے اراکین عبداﷲحسین کے انتقال پر اپنے دکھ اور افسوس کا
اظہار کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور
انہیں جنت الفروس میں اعلیٰ مقام نصیب ہو۔(6جولائی2015)
|
|