زمانہ بڑے شوق سے سن رہاتھا
ہم ہی سوگئے داستاں کہتے کہتے
مشہورادیب، مصنف اورناؤل نگارعبداﷲ حسین ، جنہوں نے اداس نسلوں میں
پیداہوکر اداس نسلوں میں زندگی گزاری ،ہفتہ کے روز 4جولائی 2015کو 84برس کی
عمر میں اداس نسلوں ہی میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔برصغیرکی تقسیم سے
قبل غربت ،جنگ عظیم اورتحریک آزادی کے پس منظرمیں لوگوں کی زندگی پر
جواثرات مرتب ہوئے ۔ انگریزوں کی غلامی ،غربت، ظلم اوراستحصال اورذہنی تناؤ
کی شکاراداس نسلیں پیداہونے لگیں۔عبداﷲ حسین مرحوم نے ان حالات کاخوب
مشاہدہ کیااورانکے قلب وروح پر ان حالات نے گہرااثرچھوڑا۔جس کااظہارانہوں
نے ــاپنے مشہورزمانہ ناؤل ’’اداس نسلیں ‘‘ لکھ کر کیا۔
عبداﷲ حسین مرحوم نے ویسے تواوربھی کئے ناؤل لکھے ،جن میں باگھ،فریب،نشیب
اورنادارلوگ بہت مشہورہیں لیکن جو شہرت اورپذیرائی ــ’’اداس نسلیں ‘‘ کو
ملی ، وہ کسی اورکو نہ نصیب نہ ہوسکی۔اسکی بنیاد ی وجہ اس ناؤل میں برصغیر
کی تقسیم سے قبل ان حالات وواقعات کا بیان ہے، جن کی وجہ سے ایک پوری نسل
کی زندگی اداس ہوگئی۔عبداﷲ حسین مرحوم نے ان تمام حالات کو اتنے بہترین
اندازمیں اداس نسلیں میں سمویا ہے کہ اس ناؤل کو ایک زندگی ملی ہے ۔52سال
گزرنے کے باوجودبھی ’’اداس نسلیں‘ ‘ کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی اوراس
ناؤ ل نے ادبی دنیامیں اپنامقام برقراررکھاہے بلکہ اس ناؤل کی بدولت عبداﷲ
حسین کو ابدی زندگی ملی ہے۔اردوادب کے مختلف ادیبوں اورنقادوں ،جن میں کرشن
چندر،آل احمدسروراورشمس الرحمن فاروقی سرپرست ہیں، نے’’اداس نسلیں ‘‘ کو
اردوادب کابہترین ناؤل قراردیاہے۔ عبداﷲ حسین مرحوم کو کمال فن اورآدم جی
ایوارڈسے بھی نوازاگیاہے۔
اردوادب کے مایہ ناز ادیب عبداﷲ حسین مرحوم ہمیں اداس نسلوں کی داستاں
سناتے رہے اورہم بڑے شوق سے سنتے جارہے تھے کہ وہ خودابدی نیند سوگئے۔مرحوم
کی ’’ادا س نسلیں ‘‘ کے بعد تحریک آزادی شروع ہوئی،جس میں غربت واستحصال ،
طبقاتی تقسیم ، لوٹ مار، قتل وغارت ، ظلم وبربریت اور ہجرت کے واقعات روز
کے معمول بنے ہوئے تھے۔اسکے بعدہمیں آزادی توملی لیکن ہماری اداسی
بدستوربڑھتی جارہی تھی ۔پہلے ہمیں غیروں نے ستایاپھراپنے ہمارے دشمن بن گئے
۔اﷲ نے ہماری نسل کی اداسی کوختم کرنے کے لئے ہمیں الگ وطن دیااورہمیں
امیدکی ایک کرن مل گئی لیکن جس پاکستان کی ہمیں تلاش تھی وہ نہ مسل
سکا۔کیونکہ ہمارامقصدمحض ایک الگ مملکت کاقیام نہ تھا بلکہ ایک بہت بڑے
مقصدکی خاطرہم نے یہ ملک حاصل کیاتھا اور وہ مقصدیہ تھاکہ اس ملک میں ہم
آزادہو، یہاں پوری طرح اسلام کا نظام عد ل نافذ ہو، اسلام کے معاشی
اورمعاشرتی اصولوں کے مطابق زندگی کاپورانظام چل رہاہو،اردوپورے ملک میں
بحیثیت قومی زبان سرکاری طورپرنافذہو،بدعنوانی کانام ونشان نہ ہواورپورے
ملک کے اندرامن وامان ہو۔لیکن افسوس کہ ہم علیحدہ وطن کے حصول میں توکامیاب
ہوئے لیکن ان تمام مقاصدکے حصول میں یکسرناکام ہوئے اورنتیجتاً جس اداس نسل
نے نئے پاکستان اوراس میں خوش وخرم زندگی گزارنے کاخواب دیکھاتھاوہ خواب
صحیح معنوں میں شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
وطن عزیز آج اﷲ کے فضل سے دنیاکے تما م وسائل سے مالامال ہے لیکن بدقسمتی
سے ہمارامالی بحران ختم ہونے کانام نہیں لے رہا۔پاکستان بری طرح دہشت گردی
کی لپیٹ میں ہے۔ قتل وغارت، چوری ، ڈاکے اورراہزنی کے واقعات روزانہ ہوتے
رہتے ہیں۔بجلی اورگیس کی لوڈشیڈنگ نے عوام کاجینامحال کردیاہے۔کراچی میں
گذشتہ چند دنوں میں ایک ہزارسے زائدافرادموت کے منہ میں چلے گئے اوراس طرح
کے واقعات ملک کے دوسرے حصوں میں بھی رونماہورہے ہیں۔بے روزگاری کی شرح میں
روزاضافہ ہورہاہے۔ عوام کی زندگی محفوظ نہیں رہی۔ایسے حالات میں ہم کیسے
کہہ سکتے ہیں کہ جن اداس نسلوں نے نئے وطن کے سہانے خواب دیکھے تھے ، وہ
وطن انکو حاصل ہواہے بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ اداس نسلوں کی نسلیں مزید اداس
اورانکی نسلیں ان سے بھی زیادہ اداس ہوگئیں ہیں۔
آج عبداﷲ حسین مرحوم ہم میں سے نہیں ہیں لیکن آج کی اداس نسلیں انکی ’’اداس
نسلیں‘‘ خوب شوق سے پڑھتے ہیں اور اس میں آسودگی اور دلی سکون کاسامان
ڈھونڈتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اورانکے اہل خانہ کو صبرجمیل
عطافرمائے۔ |