اللہ تعالیٰ کے دوستوں پر سلسلہ

محبوب الہی حضرت سیدنا عبداللہ جان فاروقی مجددی قدس اللہ سرہ :
( 21 اپریل 1908 ء : ------------------ : 22 اکتوبر )
__----------------------------------------------__

قطب اقطاب،سلطان اولیاء،ولی ابن ولی ، محبوب الہیٰ ، آفتاب ولایت، سلسلہ خاندان نقشبندیہ کے درخشندہ ستارہ ، نائب امام ربانی شیخ احمد سرہندی، مخدومنا وشیخنا و مرشدنا و پیر دستگیر و قبلہ دادہ حضور حضرت سیدنا عبداللہ جان فاروقی مجددی المعصومی نقشبندی بہ موصوف حضرت باباجی صاحب ( قدس اللہ سرہ العزیز ) آپ 28 رمضان 1328ھ بمطابق 21 اپریل 1908 ء کو گاوں گڑھی حضرت خیل تھانہ ملاکنڈ میں اس گھر میں آنکھ کھولی جس گھر میں اپکے جد امجاد حضرت فضل ہادی ( قدس اللہ سرہ ) حضرت فضل حیٰ صاحب ( قدس اللہ سرہ ) قطب اقطاب حضرت شیخ فضل غفار مجددی ( قدس اللہ سرہ ) اور اپکے والد حضرت فضل رحیم صاحب ( قدس اللہ سرہ ) نے ذندگی گزاری ہے۔ اپکے دادہ حضرت شیخ فضل غفار مجددی ( قدس اللہ سرہ ) جو اپنے وقت کے بڑے بزرگ تھے اپکے والدہ کو اپکی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی کہ یہ بچہ انشاءاللہ عمر زائد اور عمر عابد ہوگا بہت سے لوگ اسکے فیض سے فیضیاب ہونگے۔ اپکے دادہ کی بیشگوئی درست ثابت ہوئی آپ بچپن سے لیکر آخری عمر تک عابد تھے اور طویل عمر پایا۔

اپ خلیفہ دوئم حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اولاد سے ہے اپکا سلسلہ نسب (38) پشتوں (واسطوں) سے امیر المومینن حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے، جبکہ (9) پشتوں اور واسطوں سے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی (قدس اللہ سرہ ) سے جا ملتا ہے۔

اپ نے مجددالف ثانی (قدس اللہ سرہ ) حضرت خواجہ محمد معصوم (قدس اللہ سرہ ) حضرت فضل احمد مجددی بہ موصوف حضرت جی صاحب پشاوری (قدس اللہ سرہ )قطب اقطاب حضرت شیخ فضل غفار مجددی ( قدس اللہ سرہ ) کے بعد آپ نے سلسلہ نقشبندیہ کو بہت فروغ دیا اور اپنے قلم سے خاندان عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے اوصاف کو اجاگر کیا۔اس کے علاوہ اپ نے تصوف کے موضوع پر عقیدہ جماعت اہلسنت پر بھی کئی کتابیں تصنیف کی ہے، جس میں تحفتہ المرشد، باقیات الصلحت ، اگاہی سید امیر کلال فارسی، نیغہ لار پشتوں، دیوان احمد شعر و شاعری، افکار شریفی، گلہائے چمن فارسی،حضور صلی اللہ والہ وسلم کی بلند شان، جزب القوی فی تصرف الولی ، التقلید الااہل توحید، اکرامات، قابل ذکر ہیں۔

سن و شعور کو پہنچ کر اپکے والد ماجد نے اپکو ابتدائی تعلیم نظم و نثر فارسی خط و کتابت کے لئے اپنے گاوں کے پیش امام کے پاس بیٹھایا اسکے بعد مذید علوم متداولہ عربی، صرف و نحو ،فقہ وغیرہ کے حصول کے لئے تھانہ کے ایک بڑے عالم مولوی عبد الغنی صاحب (رحمتہ اللہ علیہ ) فاضل دیوبند کے حوالے فرمایا ۔ آپکے والد صاحب کا ارادہ تھا کہ مزید تکمیل علوم کے لے دیوبند بھیجدونگا مگر عمر نے وفا نہ کی اپ کے سن بلوغت کے وقت اپکے والد صاحب کے سار کا سایہ اٹھ گیا مجبورا گھر کی زمہداری اپکے اپکی سر پر عائد ہوگئی اسلئے دیوبند دارالعلوم نہ جا سکا وطن میں میں انہیں جتنی ہمت رہی اکتساب فیض حاصل کرتا رہا۔

اپکا تعلق مجددی نقشبندی یعنی امام ربانی مجد الف ثانی شٰخ احمد فاروقی سرہندی کے گھرانے سے تھا اسلئے اس لئے بچپن ہی سے اپکو علم ( تصوف باطنی) کے حصول کا شوقق تھا اس کے حصول کے لئے مسلسل کوشش اختیار تھا۔ جبکہ اپکے والد محترم نے اپکو ذکر قلبی لطیفہ قلبی کی تعلیم دی تھی۔ مگر تکمیل تک مقامات طے نہ کرسکا۔ اپ روزانہ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے اجداد کرام و مشائخ عظام حضرت فضل ہادی قدس اللہ سرہ ،اور حضرت شیخ فضل غفار مجددی نقشبندی (قدس اللہ سرہ ) کے مزرات پر انوار پر حاضر ہوتے اور وہاں پر ذکر قلبی کا مراقبہ کرکے فیوضات و برکات حاصل کرتے۔جب سورج طلوع ہوتا تو واپس اپنے گھر اتے۔اپکے دادہ قطب اقطاب حضرت شیخ فضل غفار مجددی نقشبندی (قدس اللہ سرہ ) کے مزار پر انوار سے فیض کی حصول و برکات کے لئے بنوں،شمالی وزیر ستان وغیرہ کے مریدین سوات کو اتے،اسطرح اپکے ایک مرید حضرت شجاع النور (قدس اللہ سرہ ) سال میں ایک دو بار ضرور اتے وہ اپکے صاحب کشف خلیفہ تھے۔ جو وہ بھی مزار سے فیض و برکات کے لئے حاضر ہوجاتے۔ ایک روز اپ نے باباجی قدس اللہ سرہ سے فرمایا کہ طریقت میں فیض کی اصولی کے دو ذریعے ہے ایک مریدی اور دوسری مراد۔۔۔ مرید وہ ہوتا جس کی تربیت بواسطہ پیر سے ظاہری کی جاسکتی ہے جبکہ مراد وہ ہوتا ہے جو ظاہری واسطہ کے بغیر کسی متقید مین اولیاء سے بطریقہ روحانیت ہوجاتی ہے اسکو اویسیت کہتے ہے، میں نے بھی اپکے باطنی حالات پر غور و فکر کیا تو مجھے یہ راز منکشف ہوا کہ اپکی تربیت بطریقہ روحانیت اپکے دادا منبع الاسرار حضرت شیخ فضل غفار مجددی نقشبندی (قدس اللہ سرہ ) ہو گئی ہے۔ اب تمکو مشیخت کی تعلیم کے لئے اجازت ضروری ہے،اگر اپکو پسند ہو تو وزیر ستان اکر چند ہفتے مجھ سے صحبت رکھو، آپ نے قبول فرمایا۔۔۔ حسب وعدہ چند دن کے بعد اپ وزیرستان جا کر صحبت کے لئے حاضری دی،کچھ عرصہ اپ اپنے مرشدحضرت شجاع النور (قدس اللہ سرہ ) کے صحبت میں رہ کر فیضیاب ہوئے اور انہیں اجازت و عزت سے سرفاز فرما کر رخصت کیا۔اپ وطن واپس اکر تجرید کی زندگی اختیار کرلی ،شہرت کے خلاف گمنامی پسند کرتا رہا۔ جس وقت حق سبحانہ و تعالیٰ نے اپکو مقام دعوت و ارشاد کے مرتبے پر فائز فرمایا تو لوگ دور دورسے اکر بیعت کرنے لگے۔متعقدوں کی مجلس میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا، پہلے ہیاں شمالی وزیرستان کےطلبائے حق بکثرت اپکے فیوضات سے سیراب ہوتے رہے،ان لوگوں نے اپکو سوات سے ہیاں پر ہجرت کرنے پر مجبور کیا،اور ہیاں پر اپکے لئے خانقاہ بھی تعمیر کرائی تھی، بنون ،کرک،کوہاٹ،وزیرستان،افغانستان خوست،سوات میں اپکی فیض کی شہرت ہوئی، جبکہ مختلف مقامات سے اپکے فیوض باطنی سے تقریبا ٥٠ سے زائد خلفاء کامیاب ہو چکے ہے جو سارے کے سارے صاحب مرتبہ و صاحب کشف بزرگ ہے۔اپکی وصال مبارک 8 رمضان المبارک 1425 ھ بمطابق 22 اکتوبر 2004 ء کو شمالی وزیر ستان میں ہوئی اور وہی پر آخری آرام گاہ بنائی۔ جو آج بھی مرجع خلایق ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ باباجی صاحب (قدس اللہ سرہ العزیز) کا سر چشمہ فیض تا قیامت جاری و ساری رکھے۔اللھم آمین بجاہ النبی الامین
jawad ullah Mujadadi
About the Author: jawad ullah Mujadadi Read More Articles by jawad ullah Mujadadi: 5 Articles with 6738 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.