پشاور کا سرکاری ہسپتال اور تبدیلی کے دعویدار

شبقدر کے دور دراز علاقے بٹگرام سے تعلق رکھنے والی خاتون اپنے گردوں کی درد میں مبتلا پندرہ سالہ بیٹی کو جو عید کے دوسرے روز درد کا شکار ہوگئی تھی ایمبولینس میں ڈالکر پشاو کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں علاج کیلئے لے آئی - خاتون کو رشتہ داروں نے کہا کہ سرکاری ہسپتال لے جانے کی ضرورت ہی نہیں شبقدر میں کسی پرائیویٹ ڈاکٹر کو دکھادو ٗ لیکن خاتون کو امید تھی کہ اس کی جواں سال بیٹی کا علاج پشاور کے سرکاری ہسپتال میں ہو سکے گا-خاتون نے دو ہزار روپے ایمبولینس کو بھی دئیے تاکہ اس کی بیٹی کو آسانی ہو ٗ بیٹی کی آہ و بکا سن کر راستے میں خاتون یہی دعا کرتی رہی کہ خدا کرے کہ اس کی بیٹی کا علاج ہو اور بیٹی کو سکون ملے - جب وہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچی تو ایمرجنسی میں لائے جانے کے باوجود کوئی اس کی بیٹی کیلئے سٹریچر دینے کو تیار نہیں تھا کیونکہ عید کا دوسرا دن تھا اور خدمت کے دعوے کرنے والے اور عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے اہلکاروں نے سٹریچر غائب کئے تھے- مجبورا خاتون کے بیٹے جو اپنی بہن کے ہمراہ آیا تھا نے اپنی بہن کو ہاتھوں میں اٹھایا اور ایمرجنسی وارڈ میں پہنچا دیا تاکہ اس کی بہن کی آہ و زاری کم ہوسکے- ایمرجنسی میں لائے جانے کے باوجود وارڈ میں تعینات دو ڈاکٹر تین نرسز کیساتھ خوش گپیوں میں مصروف عمل تھے اسی دوران خاتون نے ڈاکٹر کو پکارا کہ اس کی بیٹی کی درد کے خاتمے کیلئے کوئی دوائی دو تاکہ اسے کچھ آرام مل سکے-لیکن ڈاکٹر نے سرسری طورپر دیکھا اور کہا کہ وہاں پر لے جاؤ-اسی دوران خاتون کا بیٹا جو بہن کی درد بھری چیخوں سے پاگل ہورہا تھا نے اپنی ڈاکٹر کے سامنے جا کر اسے کہا کہ اس کی بہن کو کوئی انجکشن لگا دے کہ اسے آرام مل سکے لیکن ڈاکٹر اس کی بات کو بھی نہیں سن رہا تھا- غصے اور مجبوری میں خاتون کے بیٹے نے ڈاکٹر کو ہاتھ سے پکڑا اوراسے اپنی طرف کھینچا کہ خدا کیلئے میری بہن کو دیکھ لو ہم شبقدر سے یہاں پر آئے ہیں- ڈاکٹر کو یہ شبقدر سے تعلق رکھنے والے شخص کی جانب سے ہاتھ لگانے کا انداز برا لگا اس نے جھٹکا دیا اور اردلی کو پکارا کہ اسے بند کراؤ ٗ یہ طریقہ نہیں بات کرنے کا ٗ

ڈاکٹر کی غصے پر خاتون کے بیٹے نے ڈاکٹر کو منت کی کہ مجھ سے بہن کی درد بھری آوازیں سنی نہیں جاتی ٗ ٹھیک ہے میں نے غلطی کی کہ آپ کا ہاتھ پکڑ لیا لیکن آپ میری بہن کا علاج کرے ٗ لیکن " سرکار" کی ملازمت اور ڈاکٹر ہونے کے زعم میں مبتلا شخص نے ایک نہ سنی اور اردلی کو پولیس کے ذریعے خاتون کے بیٹے کو ٹھیک کرنے کی ہدایت کی جس پر اردلی اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر خاتون کے بیٹے جو اپنی بہن کو علاج کیلئے ہسپتال لایا تھا کو کمرے میں لے گیا جہاں پر اس سے موبائل فون لیا اور اس کی اتنی ٹھکائی کی کہ اس کے آنکھوں ٗ چہرے ٗ سینے پر زخم آئے ٗ سب سے زیادہ مار اسے پولیس والوں نے دی جنہوں نے بوٹوں کی لاتیں مار کر زخمی کردیا-لیڈ ی ریڈنگ ہسپتال کے کمرے میں اردلی اور پولیس ڈاکٹر کی شان میں گستاخی کرنے والے بہن کیساتھ تیمارداری کیلئے آنیوالے بھائی کی درگت بنا رہے تھے جبکہ باہر وارڈ میں اس کی بہن درد کے مارے چیخیں مار رہی تھی لیکن فرعونیت بھرے لہجے سے بات کرنے والے ڈاکٹر خاتون کی چیک اپ بھی نہیں کررہے تھے- اسی دوران پینتالیس منٹ گزر گئے ٗ خاتون کو بیٹی کے ساتھ اب بیٹے کی فکر پڑ گئی جو ہسپتال آتے ہی غائب ہوگیاتھا-

خاتون نے موبائل فون پر اپنے دیگر رشتہ داروں کو اطلاع کردی کہ بیٹی کا علاج نہیں ہورہا جبکہ بیٹا بھی غائب ہوگیا ہے اسی دوران شبقدر کی جواں سال پندرہ سالہ زینب درد کے مارے بے ہوش ہوگئی اور اسی بیہوشی میں دم توڑ گئی -کچھ وقت گزرنے کے بعد خاتون کے رشتہ دار ہسپتال پہنچے جہاں پر معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ ڈاکٹر نے مریضہ کا علاج کرنے کے بجائے اس کے بھائی کی درگت بناتے ہوئے زخمی کردیا اس کا قصور یہ تھا کہ اس کے ڈاکٹر کو ہاتھ سے پکڑا تھا-جو نرسوں کیساتھ خوش گپیوں میں مصروف عمل ڈاکٹر کوبرا لگا اور پھر اس صورتحال کے بعد خاتون کے رشتہ دار بیٹی کی لاش ٗ زخمی بیٹے کو لیکر صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج کیلئے پہنچ گے تاہم ان کی دادرسی کیلئے کوئی نہیں تھا " وی آئی پی " کی سیکورٹی کیلئے تعینات سیکورٹی فورسز نے خیبر روڈ بند کردیا کہ"گاؤں کے کمی کمین " کہیں وی آئی پی ایریا میں داخل ہو کر " صاحب" لوگوں کی نیند خراب نہ کریں. مرنے والی خاتون تو" عوام" سے تھی جن کا کا م صرف " وی آئی پی" لوگوں کیلئے زندہ باد ٗ مردہ باد یا پھر بھتہ) جسے عام زبان میں ٹیکس(کہا جاتا ہے پیدا کرنا ہے تاکہ " وی آئی پی" ایریا میں موجود " ایلیٹ کلاس" کو سہولت میسر ہو-

دو گھنٹے گزرنے کے باوجودکوئی بھی ہسپتال میں مرنے والے خاندان کا پوچھنے نہیں آیا کہ آیا کس نے ظلم کیا اور کس طرح یہ ظلم ہو- کیونکہ صوبے کا وزیراعلی اسلام آباد میں اپنے گھر والوں کیساتھ عید کی چھٹیاں منانے گیا ہوا تھا ٗ کوئی بھی وزیر ٗ ممبر صوبائی اسمبلی ٗ حتی کہ ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر موجود اہلکار بھی اس متاثرہ خاندان سے بات کرنے نہیں پہنچا- صوبے میں تبدیلی لانے کے دعویدار "عمران خان" اپنی بیگم کے ہمراہ" نتھیا گلی" میں عید منانے گئے ہوئے تھے اور ان کے آگے پیچھے ہونے کیلئے" سرکاری چمچوں ٗخوشامدیوں" کی فوج ظفر موج وہاں پر تعینات تھی کہ " خان صاحب" کو تکلیف نہ ہو-

دو گھنٹے سے زائد احتجاج کے بعد جب سیکورٹی فورسز کو احساس ہوا کہ اب راستہ نہیں کھل رہا اور احتجاج کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو انہوں نے ضلعی انتظامیہ کو اس سلسلے میں اقدامات اٹھانے کو کہہ دیا جس پر ایمرجنسی میں گھر سے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کو بلوایا گیا جس کی سفید بالوں کا احترام کرتے ہوئے بٹگرام کے رہائشی خاتون کی ہلاکت کے بعد ان کے رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں نے روڈ کو کھول دیا-ساتھ میں یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ متعلقہ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائیگی . ایف آئی آر درج ہوئی کہ نہیں.اس پر عملدرآمد ہوا کہ نہیں ...... یہ وہ سوالات ہے جوبعد میں پوچھنے کے ہیں کیا"تبدیلی والی سرکار" جو صوبے میں تبدیلی لانے کی دعویدار ہے- کیا ان کی تبدیلی یہی ہے- کہ علاج کیلئے لائے جانیوالے افراد کیساتھ ایسا سلوک ہو ٗ حالانکہ یہی لوگ انہی "کمی کمینوں" کی خون پیسنے کے کمائی پر پلتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ " تبدیلی والی سرکار" کے بڑے بڑے ٗ کیا ان کی تبدیلی یہی ہے ٗ کیا اسی ہسپتال میں آٹھ ماہ سے خراب امیج انٹی ملی فائر مشین جوکہ آرتھو پیڈک وارڈ میں پڑی ہے اور صرف کمیشن کی خاطر خراب کوالٹی کی مشین لی گئی یہی ان کی تبدیلی ہے ٗ کیا تبدیلی والی سرکار کیساتھ حکومت میں اتحادی اور اسلام کے ٹھیکیدار جنہوں نے اسی ہسپتال میں پرائیویٹ سی ٹی سکین مشین لگا دی ہے اور مریضوں سے بارہ سو روپے سی ٹی سکین کے لئے جارہے ہیں تبدلی والی سرکار نے اتحادیوں کو سپورٹ کرنے کیلئے ہسپتال کی اپنی سی ٹی مشین خراب کردی تاکہ دو سو روپے میں عام لوگوں کو سی ٹی سکین کی سہولت میسر نہ ہو اور اسلام کے ٹھیکیداروں کو بارہ سوروپے دیں تاکہ انہیں بھی برابر کا حصہ ملتا رہے ٗ یا پھر یہی تبدیلی ہے کہ ہسپتال کیلئے تبدیلی والی سرکار نے چیئرمین اور بورڈ آف گورنر بھی مقرر کردئیے ہیں جو" امپورٹ شدہ" ہیں جنہیں یہ نہیں پتہ کہ صوبے کے عوام کی مشکلات کیا ہے ٗ ڈاکٹروں کا رویہ کیا ہے اور کس بدحالی سے عوام دس روپے ہسپتال میں ایمرجنسی کی پرچی لیتے ہیں اور اب یہی پرچی"خان صاحب" کے رشتہ دار دس کے بجائے100 روپے کرانے کے چکر میں ہیں-کیا صوبے کے عوام اسی تبدیلی کے خواہشمند تھے-کیا غریب عوام کیساتھ ہونیوالے سلوک ٗ بدحالی کا تبدیلی والی سرکار " کچھ کربھی لے گی" یا پھر " کروڑوں روپے دیکر "عوام کو دھرنے میں نچوانے کو ہی تبدیلی ہی سمجھے گی"
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497870 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More