قومی یکجہتی کے تقاضے

 قرآن کے آغاز میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ـیہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اور ساتھ ہی فرما دیا کہ متقین کیلیئے ہدایت ہے غور طلب بات تو یہ ہے کہ متقی کون ہے اور خاص طور پر اُن کا ذکر کیوں کیا گیا ۔آسان الفاظ میں ہر وہ شخص جس کے دل میں اﷲ کا خوف اور پرہیزگاری ہوگی اور وہ اﷲ کے احکامات پر اپنی زندگی گزارے گا وہ متقی کہلائے گا۔ تقو یٰ کی بہت سی اقسام ہیں مگر چیدہ چیدہ کا تذکرہ قرآن کے حوالے سے زیر نظر ہے رمضان کے روزوں کے حوالے سے کہا گیا کہ اے مومنو تم پر رمضان کے روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر کئے گئے تا کہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ ۔ روزے کا فلسفہ کیا ہے مختصر الفاظ میں ایسے کہا جا سکتا ہے کہ جب انسان روزہ کی حالت میں ہوتا ہے تو اُس کو اپنے بھائی کی بھوک پیاس کا احساس ہوتا ہے اور وہ اﷲ کے خوف سے اپنے ضرورت مند بھائی کی ضرورتوں کا خیال کرتا ہے۔اگر تفصیل میں جایا جائے تو بہت سی اور حقیقتیں آشکار ہوتی جائیں گی مگریہاں محدود احاطہ کیا جارہا ہے۔

جب تقویٰ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو انسان بہت سی اخلاقی اور سماجی برائیوں سے تائب ہو جاتا ہے اور انسانیت کی معراج کو پا لیتا ہے ۔

اﷲ کے شعائر جن میں مساجد سر فہرست اور مقدم ہیں کی تعظیم دل کے تقویٰ کے زمرے میں آتا ہے ۔آج آئے دن مساجد پر حملے اور بے گناہ نمازیوں ؍شہریوں کا کھلم کھلا قتل عام دین سے انحراف ہے جبکہ ایسا فعل سرزد کرنے والے اپنے آپ کو اسلام کا سچا داعی گردانتے ہیں مگر قرآن کے فرمان کے مطابق وہ ہرگزمسلمان یا متقی نہیں کہلواسکتے ۔ سورت آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ آپﷺ کہ دیں اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اﷲ تم سے محبت کرے گا اور تمہیں بخش دے گا(گناہ تمہارے) اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔ آپﷺ کہ دیں تم اطاعت کرو اﷲ اور رسول کی پھر اگر وہ پھر جائیں تو بے شک اﷲ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔ان آیات مبارکہ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو حقیقت از خود عیاں ہو جائے گی کہ مسلمان کیلئے کیا حکم ہے اور آج کا مسلمان ان احکامات پر کس حد تک عمل پیرا ہے۔دیکھا جائے تو قرآن جس کو مکمل ظابطہ حیات کہا گیا اُس نے زندگی گزارنے کے تمام پہلوؤں کی بھر پور انداز میں نشاندہی کر دی ہے جسمیں کاروبار اور امورسلطنت بھی شامل ہیں مگر آج مسلمان گروہ بندیوں کا شکار ہو کر اس بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے کہ اُس کے دل میں دین کے ساتھ ساتھ وطن سے بھی محبت ختم ہوگئی ہے اور خود غرضی اور لالچ کی سیاہ پٹی نے اندھا کردیا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے قرآن میں حکم ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو (ایمان والو) اﷲ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے۔ اور تم ہرگز نہ مرنا مگر (اس حال میں) کہ تم مسلمان ہو اور مظبوطی سے پکڑلو اﷲ کی رسی کو سب مل کر اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور یاد کرو اپنے اوپر اﷲ کی نعمت کو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اُس نے تمھارے دلوں میں اُلفت ڈال دی اور تم اُس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے۔ـ

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی قوموں میں نفاق زور پکڑتا رہا وہ کمزور سے کمزور تر ہوتی رہیں اور اغیار نے اُن پر تسلط قائم کرلیا۔

گزشتہ چند سالوں سے وطن عزیز میں مفاد پرست حکمرانوں اور اُن کے اتحادیوں کی ناقص پالیسیوں اور بندر بانٹ کیوجہ سے ملک میں نہ صرف انتشار پھیلا ہوا ہے بلکہ عوامی حلقوں میں بے چینی اور نظام سلطنت سے بیزاریکی کیفیت زور پکڑتی جارہی ہیاور اُن کی نظریں مسیحاوٗں کیطرف اُٹھ رہی ہیں اگر چہ وہ مسیحا اپنی جانوں کی پرواہ کیئے بناء مصمم ارادے سے ملک میں امن و امان قائم کرنے کیلئے دن رات سرگرداں ہیں اور یہ کہنا بجا ہوگا کہ بہت حد تک کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔اندریں حالات وقت کا اہم تقاضہ ہے کہ پوری قوم اور مفاد پرست سیاسی عناصر بھی حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز میں کریں کہ وہ قوتیں جو وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنے کے در پے ہیں اُن کے مذموم عزائم بری طرح خاک میں مل جائیں اور وہ خود بھی سپرد خاک ہوجائیں۔گزشتہ دنوں اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے تمام سیاسی اکابرین کا متفق ہونا اگر چہ ایک نیک شگون ہے مگر ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے قومی یکجہتی کا اظہار ابھی ناکافی ہے۔ جمہوریت جو ہ کہ بظاہر ایک لفظ ہے مگر اس کے اندر ایک گہرا مفہوم اور مکمل نظام پنہا ہے جس کو اگر اُس کی روح کے عین مطابق نافذ کیا جائے تو ملک میں ترقی کی راہیں کھلیں اور عوام کو اُن کے حقوق سے محروم کرنے کا تصور بھی دم توڑ جائے ۔اسی طرح اگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق قومی زبان اُردو کو سرکاری سطح پر رائج کر دیا جائے اور تمام قومی اور سرکاری تقریبات میں اُردو زبان کو اُس کا جائز مقام دیا جائے تو آنے والے دنوں نوجوان نسل جو کہ بڑے فخر سے کہتی ہے کہ اُن کو اُردو زبان نہیں آتی وہ بھی قومی زبان سے آشنا ہوں گے اور پاکستانی ہونے پر بھی فخر کر سکیں گے۔ہماری المیہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے وطن میں رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے میں عار محسوس کرتے ہیں۔اگر قومی یکجہتی کے اظہار کے طور پر اُردو کو دفتری زبان کا درجہ مل جائے تو ہمارے ہاں جو تعصبات پائے جاتے ہیں اُن میں بھی نمایاں طور پر کمی واقع ہو سکتی اور بین الصوبائی رابطوں میں آسانی کے ساتھ ساتھ امن و امان میں مدد گار ثابت ہو ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ جب اور جہاں بھی ایوانوں میں بیٹھے ممبران کا ذاتی مفاد پیش نظر ہو تو تمام ممبران اپنی سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مراعات کے حصول کیلئے قومی یکجہتی کا بھر پور مظاہرہ کرتے نطر آئیں گے مگر جب غریب اور پسماندہ عوام کے حقوق کا معاملہ درپیش ہو تو وہ اپنی سیاسی دکانداری چمکاتے ہوئے پہلو تہی کریں گے یا جوش خطابت میں الزام تراشیوں کا لا متناہی سلسلہ شروع کر دیں گے حالانکہ ایسے مواقع پر بھی یکجہتی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
Tariq Manzoor Ahmad
About the Author: Tariq Manzoor Ahmad Read More Articles by Tariq Manzoor Ahmad: 6 Articles with 5208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.