یہ امر حقیقت ہے اور اس میں کوئی
شک و شبہ نہیں کہ موت کا وقت متعین ومقرر ہے جسے کوئی انسان کسی صورت نہ تو
ڈال سکتا ہے ، نہ ہی آگے پیچھے کرسکتا ہے۔ اور کوئی بھی موت بے وقت نہیں
ہوتی۔یہ اﷲ کا اصول روزِ اول سے تا قیامت جاری رہے گا یہ ضرور ہے کہ بعض
اموات محض ایک فرد کی موت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس موت سے محض ایک خاندان کے
افراد متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس طرح کی اموات ایک ایسا المیہ ہوتی ہیں جس سے
خاندان کے علاوہ مرنے والے کے دوست احباب، پروفیشن اور پروفیشنلزسب ہی
متاثر ہوتے جاتے ہیں۔ اس طرح دنیا سے رخصت ہونے والے برسوں یاد رکھے جاتے
ہیں۔ ایسی ہی موت 14 جولائی 2015 کوہوئی۔ اس روز پاکستان میں 26واں روزہ
تھا جب کہ سعودی عرب میں 27واں روزہ تھا۔ پاکستان لائبریرین شپ کی ایک جانی
پہچانی خاتون متحرک و مُتَوَرِّع ، معلم و مُتَعَلِم، کتاب دار و کتاب دوست
سعودی عرب کے شہر دمام سے اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی
کے لیے مکہ کی جانب سفرپر تھی ، مکہ المکرمہ سے 10کلومیٹر کے فاصلہ پرٹریفک
حادثہ میں جان بحق ہوگئی۔ اس کے شوہر اور دونوں بچے شدید ذخمی ہوئے ۔ چند
روز زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد اس کے شوہر منظور احمد بھی اﷲ کو پیارے
ہوئے ، دونوں بیٹے مکہ میں زیر علاج ہیں۔یہ ایک ایسا دھچکا اور صدمہ ہے کہ
جس کے افسوس کے لیے الفاظ نہیں مل رہے، قلم ساتھ نہیں دے رہا، کن جملوں سے
کس حوصلہ سے فرزانہ کی موت کا ذکر کیا جائے۔ بقول ڈاکٹرخالد محمود’ یقین
نہیں آرہا کہ ایسا ہوچکا ہے‘۔ نقصان یقینا اتنا بڑا ہے کہ جس کا ازالہ ممکن
نہیں لیکن کیا سعادت نصیب ہوئی ہے اس خاتوں کو ، باوضوع ،عمرہ کی ادائیگی
کا قصد ، احرام میں ملبوث، روزہ کی حالت میں، مکہ کی حدود ، حرم کی حدود کے
نذدیک، حادثے کی وجہ موت بن جانا،گویا شہادت کا رتبہ بھی حاصل ہوا۔ مرحومہ
کی نماز جنازہ خانہ کعبہ میں، مسجد حرام میں ادا کی گئی،خانہ کعبہ نماز
جنازہ کے وقت مرنے والے کا جسد خاکی خانہ کعبہ کے عین سامنے چند گز کے
فاصلے پر رکھا ہوتا ہے، مسجد حرام میں لاکھوں اﷲ کے مہمانوں نے فرض نماز کی
ادائیگی کے بعد نماز جنازہ کی ادائیگی۔ مکہ المکرمہ کے قبرستان ’ مقبرہ
الشرائع ‘ میں ابدی نیند سونے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اﷲ اﷲ کس شان سے
ڈاکٹرفرزانہ اپنے اﷲ کے حضور پیش ہوئی،سعادت و نصیب کی بات ہے۔ڈاکٹر فرزانہ
شفیق تمہیں یہ سعادت مبارک ہو، ہم بھی ایسی سعادت کی تمنا کرتے ہیں۔ بلکہ
ہر مسلمان کی آروزو اور تمنا ہوتی ہے کہ اسے خانہ کعبہ یا مدینہ منورہ میں
مرنا نصیب ہو۔
ڈاکٹر فرزانہ شفیق یونیورسٹی آف دمام ، سعودی عرب کے کتب خانے کے دشعبہ
خواتین میں ستمبر 2012 سے اسسٹنٹ پروفیسر؍ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام
دے رہی تھیں، دمام کی اس جامعہ میں اس وقت لاہور کے کئی دوست بھی موجود ہیں
ان میں پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود، محمد اجمل خان، فراست شفیع اﷲ اور آصف
کمال شامل ہیں۔ اجمل خان صاحب بھی ان دنوں چھٹیوں پر پاکستان آئے ہوئے ہیں
انہوں نے بتا یا کہ فرزانہ کے دونوں بیٹے جو ذخمی ہوگئے تھے الحمد اﷲ بہتر
ہیں ،انہوں نے فرزانہ کے چھوٹے بیٹے کے حوالہ سے بتا یا کہ وہ 13جولائی کی
صبح نماز فجر کے بعد مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے تھے۔اگر وہ روزہ بند
کرکے صبح چار یا پانچ بجے مدینہ سے روانہ ہوئے تو مکہ کا سفر اپنی گاڑی سے
تقریباً پانچ سے چھ گھنٹے کا ہے، مکہ سے دس کلومیٹر دور یہ حادثہ پیش آیا ۔
اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا حادثہ صبح7سے8بجے کے درمیان ہوا۔ گویا یہ لوگ سحری
کھا کر، روزہ بند کرنے کے بعد، نماز فجر کی ادائیگی مدینہ منورہ کی مسجد
نبوی میں ادا کرکے عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔ جرأت
الہ آبادی کا شعر
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پَل کی خبر نہیں
فرزانہ ایک دین دار ، نیک ، شرعی پردہ کرنے والی خاتون تھی ، وہ دو بیٹوں
اور دو بیٹیوں کی ماں تھی لیکن عمر میں وہ میری بیٹی کی عمر ہی کی تھی۔
مجھے وہ بیٹیوں جیسی ہی عزیز تھی، وہ بھی میرا حد درجہ احترام کیا کرتی
تھی۔ میرا اس سے تعلق کئی سال پر محیط ہے لیکن اس سے صرف ایک بار ملا قات
ہوئی، وہ ملاقات لاہور میں ہونے والی ایک کانفرنس تھی، درمیانہ قد ،
کالاعبائیہ پہنے ہوئے، چہرہ پر حجاب اس طرح کہ صرف آنکھیں ہی آنکھیں نظر
آرہی تھیں، ہاتھوں پر بھی کالے دستانے تھے۔ ان آنکھوں میں حیا تھی، شرم
تھی، چمک تھی، روشنی تھی، یہ آنکھیں اس کے نیک سیرت، بلند کردار، صوم و
صلاۃ کی پابند ، صالح صفت خاتون ہونے کا پتادے رہی تھیں۔ آواز میں دھیما
پن، شائستہ انداز گفتگو، ظاہری حلیہ سادگی کا پتا دے رہا تھا۔ لاہور اس کا
گھر تھا، لاہور ہی میں اس نے تعلیم حاصل کی۔ اس نے 2002 سے 2009 کے درمیان
گریجویشن ، ایم ایل آئی ایس اور پی ایچ ڈی جامعہ پنجاب لاہور سے کیا۔ اس سے
قبل لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی سے انٹر کیا تھا۔
پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود جو پی ایچ ڈی میں اس کے تھیسیس سپر وائیزر بھی
تھے ان دنوں چھٹیوں پر کراچی آئے ہوئے ہیں انہوں نے فون پر فرزانہ کے بارے
میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فرزانہ ایک سیدھی ساد ھی لڑکی تھی، انٹر پاس
کیا تھا کہ اس کے شادی ہوگئی تھی، شادی کے بعد اس نے گریجویشن کیا، ایم ایل
آئی ایس کیا اور پھران کے زیر نگرانی پی ایچ ڈی کی ڈگری حا صل کی، جس کے
بعد اسے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس ، اسلامیہ یونیورسٹی میں لیکچرر
کی حیثیت سے ملازمت مل گئی، وہ آگے بڑھنا چاہتی تھی ، محنتی اور بہ صلاحیت
تھی، اس کے متعدد مضامین بین الاقوامی رسائل میں شائع ہوئے۔ ڈاکٹر خالد نے
بتا یا کہ پہلے تو وہ چھٹی لے کر دمام گئی لیکن پھر اس نے اسلامیہ
یونیورسٹی کی ملازمت سے ریزائن بھیج دیا ، ان کا کہنا تھا کہ چنددن قبل ہی
اس کا ریزائن منظور ہوا تھا۔ گویا اس نے پاکستان سے اپنا تعلق خود ہی منقطع
کر لیا تھا۔ وہ مستقل سعودی عرب میں رہنی کی خواہش مند تھی اﷲ نے اس کی اس
خواہش کو قبولیت کا درجہ عطا فرمایا اور وہ ہمیشہ کے لیے ہی متبرک زمین کی
ہورہی۔
میرا اس سے ای میل کے ذریعہ رابطہ تھا۔یاد پڑتا ہے کہ جب وہ پی ایچ ڈی
کررہی تھی تو اس نے اپنے سوالنامے کے جواب کے سلسلے میں فون پر بھی بات کی
تھی۔ اُسے بھی میری ہی طرح لکھنے پڑھنے اور اعلیٰ ترین ڈگری (پی ایچ ڈی)کے
حصول کا جنون تھا۔ سینئر ہونے کے ناطے وہ مجھ سے اکثر مضامین اور اپنے پی
ایچ ڈی کے موضوع کے حوالے سے رابطہ رکھا کرتی تھی ، میں حسب توفیق و
استطاعت اس کی رہنمائی کردیا کرتا تھا۔ اتفاق دیکھئے کہ اُسے بھی 2009میں
پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی اور مجھے بھی اسی سال یہ اعزاز حاصل ہوا، فرق
یہ تھا کہ وہ زیادہ تیز دوڑی اور اپنا مقصد جلد حاصل کر لیا مَیں اس دوڑ
میں سست روی کا شکار رہا، اس کی متعدد وجوہات رہیں۔آخر میں میری دوڑ میں
بڑی بڑی شخصیات نے اڑنگی مارنا شروع کردیں جس کے باعث مَیں کبھی رکتا ،
کبھی گرتا، کبھی دل گرفتا ہوتا، کبھی حمت ہار کر بیٹھ رہتا ۔ لیکن اﷲ مجھے
پھر دوڑ نے کی توفیق عطا کردیتا ، میرے سپر وائیزر پروفیسر حکیم نعیم الدین
زبیری میری ہمت بندھاتے، حوصلہ دیتے اور مخالفین کو زیر کرنے کی بھر پور
کوشش کیا کرتے۔ آخر کار مَیں نے 2009میں کامیابی کی لائن کو چھو ہی لیا۔
فرزانہ میں صلاحیت تھی، کام کرنے کا جذبہ تھا، لگن تھی، جستجو تھی، اُسے بے
لوث، اس کی کشتی کو پار لگا نے والے، پر خلوص اساتذہ کی رہنمائی حاصل تھی ۔
انہوں نے فرزانہ میں ٹیلنٹ دیکھتے ہوئے اس کی ہمت افزائی کی، اسے آگے بڑھا
نے میں معاون ثابت ہوئے ۔ وہ اپنی صلاحیت اور اساتذہ کی مدد سے آگے بڑھتی
چلی گئی کامیابی نے اس کے قدم چومے اور وہ جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے شعبہ
لائبریری و انفارمیشن سائنس میں لیکچرر ہوگئی۔ اب اس سے میرا اور بھی زیادہ
رابطہ رہنے لگا۔ وہ مضامین لکھتی اور شائع کرانے کے لیے اکثر مجھے ای میل
کیا کرتی تھی۔ پھر طباعت کے لیے یاددیہانی بھی کراتی رہتی۔
مَیں نے 2010میں جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کو
جوائن کیا ۔ فرزانہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ لائبریری و
انفارمیشن سائنس میں2007 سے لیکچرارتھی۔ جہاں پر ڈاکٹر روبینہ بھٹی پہلے سے
تھیں جو فرزانہ سے سینئر تھیں ، اب شعبہ کی سربراہ ہیں۔یہ بھی عزت و احترام
سے پیش آتی ہیں۔ شعبہ کی ترقی کے لیے دل و جان سے مصروف عمل ہیں۔جامعہ
سرگودھا میں قیام کے دوران فرزانہ سے مسلسل رابطہ رہا ، علمی و پیشہ ورانہ
موضوعات پر ای میل کے ذریعہ تبادلہ خیال ہوجایا کرتا تھا۔مَیں 2011میں
جامعہ سرگودھا کو خیر باد کہہ کر واپس کراچی اورپھر سعودی عرب چلا گیا جہاں
میرا قیام کئی ماہ رہا۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران جب کہ فرزانہ اسلامیہ
یونیورسٹی ، بہاولپور میں لیکچرر تھی اس نے مجھے اپنا سی وی اس درخواست کے
ساتھ سینٹ کیا کہ میں اس کا سی وی ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب میں مختلف
جامعات میں دے دوں۔ تاکہ وہ سعودی عرب میں بہ سلسلہ ملازمت آسکے۔ گویا اس
نے سعودی عرب میں ملازمت کرنے کی عملی جدوجہد شروع کردی تھی۔ اﷲ اس پر
مہربان تھا ، کامیابیاں اس کے قدم چوم رہیں تھیں، اب جب کہ اس نے اپنے دل
میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ مقدس سرزمین پر خدمات انجام دے تو اﷲ نے اس کی
اس خواہش کو بھی پورا کیا، کامیابی اور مقاصد کے حصول میں مختلف ذرائع ہی
معاون ثابت ہوتے ہیں،بعض دوستوں نے اس کی رہنمائی کی اور وہ ستمبر2012 میں
جامعہ دمام کے کتب خانہ سے منسلک ہوگئی۔ یقینا سینکڑوں ارمان ہوں گے،
خواہشات ہوں گی، اپنے لیے، اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کچھ کرگزرنے کی
تمنائیں ہوں گی۔ پاکستان میں وہ جس جگہ تھی ، جس حیثیت میں تھی ، یہاں بھی
اس کا مستقبل روشن تھا، ترقی کے مواقع یہاں بھی تھے لیکن سعودی عرب سے
بلاوا آئے تو اسے رد کردینا ممکن ہی نہیں ہوتا، وہ بلاوا ملازمت کے لیے ہو،
عمرہ کے لیے ہویا حج کے لیے ہو، ہر مسلمان اس بلاوے پر دوڑا چلا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر فرزانہ بھی اﷲ کے بلاوے پر دوڑی چلی گئی ، جہاں پر اس کی زندگی کے
صرف دو سال اور دس ماہ ہی لکھے تھے۔ اس نے وہ وقت پورا کیا اورلبیک کہتی
ہوئی اﷲ کے حضور حاضر ہوگئی۔پروردگار اس کے بچوں کو ماں اور باپ کی جدائی
کا صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
میں سعودی عرب چند ماہ گزار کر واپس کراچی آگیا۔ اب میری مصروفیات میں
لکھنا اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایم ایل آئی ایس کی کلاس کو
پڑھانا تھا۔ 2001میں ماسٹر پروگرام کراچی میں شروع ہوا تھا ۔ اس وقت سے میں
کسی نہ کسی طور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے منسلک چلاآرہا ہوں۔ 2013میں
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے مجھے Best University Teacher Award 2013سے
نوازا، یہ کس کی شفارش تھی مجھے نہیں معلوم، بعد میں پتا چلا کہ کراچی کے
ریجنل ڈائریکٹر نے میرا نام اس اعزاز کے لیے تجویز کیا تھا جسے یونیورسٹی
کے ذمہ داران نے قبول کیا ۔ ڈاکٹر فرزانہ کو بھی اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے
مجھے ای میل پر مبارک باد دی۔ اب جب کہ میں نے اس مضمون کے لیے فرزانہ کی
میل تلاش کیں تو یہ میل میرے ریکارد میں مل گئی ۔ یہ ای میل 13جولائی 2013،
کو فرزانہ نے دمام سے بھیجی تھی۔اس وقت بھی رمضان تھے۔ اس بات کو دو سال
ہوچکے ہیں۔ اس نے لکھا۔Many many congratulations sir for this success.
May Allah bless you here and hereafter. How is your health now? ramadan
greetings. Please remember in your prayers. Wassalam.
ڈاکٹر فرزانہ کے انتقال پر لائبریرین شپ سے تعلق رکھنے والے کئی احباب نے
اپنے دکھ اورافسوس کا اظہار کیا۔ جنہیں پاک لیگ ای میل گروپ(PLAGPK) پر
دیکھا جاسکتا ہے۔ فرزانہ کے حادثہ اور اس کے جاں بحق ہونے کی اطلاع اسی ای
میل گروپ پر سب سے پہلے ڈاکٹر محمد رمضان نے دی۔ ڈاکٹر رمضان LUMSکے کتب
خانے سے وابستہ ہیں، پاکستان لائبریری ایسو ایشن پنجاب برانچ کونسل کے صدر
بھی ہیں۔بعد ازاں بے شمار ساتھیوں نے فرزانہ کو خراج تحسین پیش کیااور اس
کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ جامعہ پنجاب شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے
سابق چیرٔمین ، سینئر استادپروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور نے ڈاکٹر فرزانہ شفیق
کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
It was a very sad news to learn that Dr. Farzana and her family had met
a terrible accident resulting in her death and serious injuries to her
husband and sons. She was in her prime age at which she was making a
good contribution to the profession and her family needed her most to
raise her children. It is a great tragedy for her young children who
needed her for a long time. May Allah rest her soul in peace. We pray
for her children and the family to have courage to bear this
loss which is irreplaceable especially for the immediate family.
شعبہ لائبریری و انفار میشن سائنس ، جامعہ سرگودھا کے چیرٔمین اور چیف
لائبریرین ڈاکٹر ہارون ادریس نے ڈاکٹر فرزانہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے
لکھا
It was such a depressing news that I couldn't find any words to say. A
lady who represented a true spirit of 14 centuries back. The one who was
equipped with knowledge, expertise, skills, confidence, hard work,
responsibility, responsiveness and every thing, one wishes to have. She
was a source of inspiration for those who work under stress. She told me
she would conduct an interview with me to collect data, the structure /
schedule of which we discussed several times and finalized, before
leaving for UK this year's vacation and spending her there, working
extensively, but this is something she has committed and has not done.
She had no concept of vacation or leave in her life. When I arranged
some facilitation during her visit of Europe last year, it was so
tedious schedule of visiting so many places that it was only she who
could do it, sprinting to leave one flight and taking another and
connecting rails--having no rest time. Aahhhhh..... my sister has gone
such a place that she is happy there, I strongly believe and
we shall remain missing her badly. Allah bless you even higher places in
heaven, Farzana!!!
ڈاکٹر ہارون کے جذبات اور احساسات فرزانہ کے لیے ہر پروفیشنل کے احساسات
ہیں۔ انہوں نے فرزانہ کی پیشہ ورانہ زندگی کی جو تصوریر کشی کی ہے وہ ہر
اعتبار سے سچائی اور حقیقت پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر روبینہ بھٹی شعبہ لائبریری و
انفارمیشن سائنس ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاوپور کی چیرٔ پرسن ہیں۔ ڈاکٹر
فرزانہ نے ستمبر2007 سے ستمبر 2012تک لیکچرر کی حیثیت سے شعبہ میں خدمات
انجام دیں ۔ دو سال قبل وہ چھٹیوں پر دمام یونیورسٹی کی خواتین کے لائبریری
میں اسسٹنٹ پروفیسر؍ڈائریکٹر کی حیثیت سے چلی گئی۔ ڈاکٹر روبینہ بھٹی اب اس
شعبہ کی چیرٔپرسن ہیں انہوں نے سینئر استاد کی حیثیت سے فرزانہ کے ساتھ چند
سال کام کیا۔ ڈاکٹر روبینہ بھٹی نے فون پر فرزانہ کے بارے میں بتا یا کہ وہ
ایک مذہبی خاتون تھی، نیک و محنتی، طلباء اس سے مطمئن رہا کرتے تھے۔ محنت
سے اور تیاری سے کلاس میں جایا کرتی۔ وہ مکمل پروفیشنل تھی۔ اپنے پروفیسن
کے لیے ہما وقت مستعد رہا کرتی۔ اس میں ٹیلنٹ تھا اس نے بہت آگے جانا تھا۔
اس میں اور دیگر اساتذہ ساتھیوں میں مکمل ہم آہنگی تھی۔ ڈاکٹر روبینہ نے
بتا یا کہ اس نے اپنی ایک بیٹی کی شادی کردی تھی جب کہ دوسری بیٹی کے لیے
فکر مند تھی، دونوں بیٹے چھوٹے تھے۔ اس نے جامعہ کو مزید چھٹی کی درخواست
دی تھی۔ لیکن جامعہ کے ذمہ داران نے اسے مزید چھٹی دینے سے معزرت کرلی ۔ وہ
سعودی عرب میں مطمئن اور خوش تھی۔ اس نے اپریل 2015میں اپنا استعفیٰ جامعہ
کر بھیج دیا جو اس کے حادثہ کے چند روز قبل ہی منظور کر لیا گیا۔
پاکستان کی خواتین لائبریرینز کے انٹر ویوز پر مبنی تصنیف ’’درخشاں
ستارے‘‘کی مولفۂ ڈاکٹر نسرین شگفتہ نے ڈاکٹر فرزانہ کی الم ناک موت پر دلی
افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان لائبریرین شپ کے لیے عظیم سانحہ قرار
دیا ، ان کا کہنا تھاکہ ڈاکٹر فرزانہ کی موت ایک شخصیت کی موت نہیں ، نہ ہی
یہ ایک ایسی موت ہے کہ جس سے صرف ایک خاندان ، عزیز رشتہ دار ہی متاثر ہوئے
بلکہ پورا لائبریری پروفیشن اپنے ایک بہترین ساتھی سے، بہترین استاد سے،
بہترین منتظم سے، محنتی محقق سے، مصنفہ اور مؤلفہ سے محروم ہوگیا۔ اس
پروفیشن میں فرزانہ کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہ ہوسکے
گا۔ وہ محنتی تھی، پروفیشن کے لیے بہتر سے بہتر کرنے کے جذبہ سے سرشار تھی۔
یہ بات حقیقت ہے کہ اس طرح رخصت ہوجانے والے برسوں یاد رکھے جاتے ہیں،
فرزانہ کوبھی ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ وہ اپنے بچوں کے دلوں میں نہیں بلکہ
پاکستان لائبریرین شپ سے تعلق رکھنے والے ہر پروفیشنل کے دل میں ہمیشہ زندہ
رہے گی۔ فرزانہ کا چھوڑا ہوا علمی سرمایہ لکھنے والوں اور تحقیق کرنے والوں
کی رہنمائی کرتا رہے گا۔فرزانہ اُن خواتین لائبریرینز میں سے تھی کہ جس نے
اپنے عمل سے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ آج کل کے آزاد معاشرہ میں کوئی بھی
خاتون اگر چاہے تو حجاب میں رہتے ہوئے وہ سب کچھ کرسکتی ہے جو دیگر لوگ سر
انجام دیتے ہیں۔ حجاب یا پردہ کسی بھی خاتون کے حصول علم میں یا ملازمت میں
رکاوٹ نہیں ہوتا ۔ فرزانہ ان خواتین میں سے تھی کہ جس نے شرعی پردہ کرتے
ہوئے اعلیٰ تعلیم یعنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، جامعہ اسلامیہ بہاولپور
میں درس و تدریس کے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیے، سعودی عرب کی دمام
یونیورسٹی کے کتب خانے کے شعبہ خواتین کی سربراہ کی حیثیت سے ایک کامیاب
منتظم ہونے کا ثبوت دیا۔ اس کی موت کا افسوس ضرور ہے لیکن جس انداز سے وہ
رخصت ہوئی ، وہ اعزاز بہت کم لوگوں کو ملتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت
فرمائے۔ آمین
مرنے والے مرتو جاتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
(29جولائی2015) |