محترمہ فاطمہ جناحؒ کے 122ویں
یوم ولادت 31 جولائی کے لیے۔
محترمہ کی کتاب "مائی برادر" قابل مطالعہ ہے لیکن اس میں سے دو پیراگراف
حزف کر دیئے گئے ۔ادارے کا نام قائد اعظم اکیڈمی ،ڈائریکٹر جناب شریف
المجاہد ،نے محترمہ کی کتاب سے دو پیراگراف حذف کر کے ان کی کتاب شائع کی ۔یہ
کسی بھی طرح مناسب نہیں تھا کہ کسی مصنف (اور وہ بھی مرحوم مصنف)کی تحریر
کو اپنی مرضی کے تحت سنسر کیاجائے ۔بظاہر ان کی کتاب سے یہ پیراگراف حذف کر
دیے گئے لیکن جناب قدرت اﷲ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں یہ دونوں
پیراگراف شامل کیے ۔ایک پیرا گراف آپ بھی پڑھیے ۔
وزیر اعظم نے ڈاکٹر الہی بخش سے پوچھا کہ قائد اعظم کی صحت کے متعلق ان کی
تشخیص کیا ہے ؟ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں مس فاطمہ نے یہاں بلایا ہے اس لیے وہ
اپنے مریض کے متعلق کوئی بات صرف انہی کو بتا سکتے ہیں ۔لیکن وزیر اعظم کی
حیثیت سے میں یہ جاننے کے لیے بے چین ہوں ۔ڈاکٹر نے ادب سے جواب دیا " جی
ہاں بے شک لیکن میں اپنے مریض کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں بتا سکتا " میں
قائد اعظم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جب مجھے معلوم ہوا کہ وزیر اعظم اور
سیکرٹری جنرل ان سے ملنا چاہتے ہیں ،میں نے اس کی اطلاع ان کو دی ،وہ
مسکرائے اور بولے " فطی تم جانتی ہو وہ یہاں کیوں آئے ہیں ؟" میں نے کہا کہ
مجھے ان کی آمد کے سبب کا کوئی اندازہ نہیں ہے ۔وہ بولے " وہ جاننا چاہتے
ہیں کہ میری بیماری کتنی شدید ہے ۔میں کتنا عرصہ اور زندہ رہ سکتا ہوں '"
چند منٹ بعد انہوں نے مجھ سے کہا " نیچے جاؤ ۔۔۔وزیر اعظم سے کہو ۔۔۔میں ان
سے ابھی ملوں گا " جن! بہت دیر ہو چکی ہے ۔وہ کل صبح آپ سے مل لیں گے ۔"
نہیں ۔انہیں ابھی آنے دو ۔وہ خود آکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں " لیاقت علی
خان نے نصف گھنٹہ تک علیحدگی میں قائد اعظم سے ملاقات کی ۔جونہی وہ واپس
نیچے آئے تو میں اوپر اپنے بھائی کے پاس گئی۔وہ بری طرح تھکے ہوئے تھے اور
ان کا چہرہ اترا ہوا تھا ۔انہوں نے مجھ سے پھلوں کا جوس مانگا اور پھر
انہوں نے چودھری محمد علی کو اندر بلا لیا ۔وہ پندرہ منٹ تک ان کے پاس رہے
پھر جب دوبارہ وہ اکیلے ہوئے تو میں اندر ان کے پاس گئی میں نے پوچھا کہ وہ
جوس یا کافی پینا پسند کریں گے ۔انہوں نے کوئی جواب نہ دیا ۔ان کا ذہین کسی
گہری سوچ میں گم تھا اتنے میں ڈنر کا وقت ہو گیا ۔انہوں نے مجھ سے کہا "
بہتر ہے کہ تم نیچے چلی جاو اور ا نکے ساتھ کھانا کھاو ،۔نہیں ۔میں نے زور
دے کر کہا میں ا ٓپ کے پاس ہی بیٹھوں گی ۔اور یہیں پر کھانا کھا لوں گی ۔"
نہیں ۔یہ مناسب نہیں ہے وہ یہاں ہمارے مہمان ہیں ،جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا
کھاؤ " کھانے کی میز پر میں نے وزیر اعظم کو بہت خوشگوار موڈ میں پایا ،وہ
لطیفے سنا رہے تھے اور ہنسی مذاق کر رہے تھے ،جبکہ میں قائد اعظم کی صحت کی
طرف سے خوف کے مارے کانپ رہی تھی ،جو اوپر کی منزل میں تنہا بستر علالت پر
پڑے ہوئے تھے ۔کھانے کے دوران چودھری محمد علی بھی چپ چاپ کسی سوچ میں گم
رہے ۔کھانے ختم ہونے سے پہلے ہی میں اوپر کی منزل پر چلی گئی ۔جب میں کمرے
میں داخل ہوئی تو قائد اعظم مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے " فطی تمہیں ہمت
سے کام لینا چاہیے " میں نے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی بڑی کوشش کی جو میں
آنکھوں میں امڈ آئے تھے ۔(مائی برادر) جو دوسرا پیراگراف اس کتاب سے حذف
کیا گیا اس میں ایک جگہ محترمہ فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ ۔قائد اعظم اکثر بے
ہوشی کے عالم میں بھی ۔۔۔ان کے خوابوں کی بازگشت سنتی ۔۔۔۔وہ بڑبڑاتے رہتے
" کشمیر ۔۔۔۔انہیں ۔۔۔فیصلہ کرنے کا ۔۔۔حق ۔۔۔دو۔۔۔آئین ۔۔۔۔میں اسے مکمل
کروں گا ۔۔۔بہت جلد ۔۔۔۔مہاجرین ان کی ہرطرح ۔۔۔مدد کرو۔۔۔پاکستان ۔۔۔" اس
دوسر پیراگراف میں قائد اعظم کے آخری ایام کا ذکر ہے ۔وہ آخر میں لکھتی ہیں
آخری مرتبہ کوشش کر کے زیر لب مجھ سے مخاطب ہوئے " فاطی خدا حافط ۔۔۔لاالہٰ۔۔۔الااﷲ
محمد۔۔۔الرسول ۔۔۔اﷲ" پھر ان کا سر دائیں جانب کو آہستگی سے ڈھلک گیا اور
آنکھیں بند ہو گئیں ۔
اب رہیں چین سے دنیا میں زمانے والے
سوگئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
مر کے بھی مرتے نہیں مادر ملت کی طرح
شمع تاریک فضاؤں میں جلانے والے
محترمہ فاطمہ جناحؒ نے شبانہ روز قائداعظمؒ کی خدمت کی ( جب آپ کی بیوی رتی
جناحؒ انتقال کر گئی 20 فروری 1929 کو فاطمہ جناح اپنا کلینک چھوڑ کر قائد
اعظم کے گھر میں منتقل ہو گئیں اس کے بعد آپ کی بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ نے
آپ کا اور آپ کی بیٹی دینا جناح کا ہر طرح سے خیال رکھا قائد اعظم کی وفات
تک وہ ان کے ساتھ رہیں) یہ خدمت در حقیقت ایک بھائی کی خدمت نہ تھی بلکہ
ایک عظیم قومی راہنما کی خدمت تھی، وہ یہ جانتی تھیں کہ اگر قائد اعظم ؒاپنے
مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کامیابی اصل میں قوم کی ہے امت مسلمہ کی
ہے، قائد اعظمؒ اگر برصغیر کے عظیم راہنما تھے تو محترمہ فاطمہ جناح عظیم
خاتون راہنما تھیں، جن میں شخصی خوبیاں تو کوٹ کوٹ کر بھری تھیں مگر سادہ
ایسی کہ کبھی غرور و تکبر ، دکھاوا اور احساس برتری کی جھلک تک ان کی زندگی
میں نظر نہیں آتی، اسی خدمت نے قائد اعظمؒ کو ایک غیر مرئی طاقت بخشی اور
اﷲ تعالیٰ نے پاکستان جیسی عظیم مملکت کا معجزہ ان دونوں بہن بھائیوں کے سر
باندھا، محترمہ فاطمہ جناحؒ نے قائد اعظم کی زندگی میں نہایت اہم اور
نمایاں کردار ادا کیا، قائد اعظم کے بعد اگر کسی ایسی شخصیت کا ذکر مقصود
ہو جس کی عدم موجودگی میں پاکستان کا قیام ناممکن ہو تو پھر فاطمہ جناح کا
ہی نام آئے گا، فاطمہ جناح ؒ نے قائد اعظمؒ کے ساتھ اپنی طویل رفاقت میں
برادرانہ محبت ، خلوص، نگرانی، تیمارداری اور مشاورت کا حق ادا کیا۔آپ کا
بھائی کے ساتھ یہ تعلق قائد اعظم کی وفات 11 ستمبر 1948 تک جاری رہا ۔محترمہ
فاطمہ جناح نے سیاسی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی و فلاحی کاموں کے لیے خود کو
وقف کیے رکھا۔آپ کی کوششوں سے کراچی میں آپ کے نام خاتون پاکستان سکول کی
بنیاد رکھی گئی جو 1963 میں کالج بن گیا ۔محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893
کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ پاکستان کے لیے سب کچھ قربان کر دینے والی فاطمہ
جناح 9 جولائی 1967 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئیں آپ کا مزار قائد اعظم کے
مزار کے احاطے میں ہے ۔
|