سانحہ قصور کا انجام

آج کل سانحہ قصور کا ذکر میڈیا میں عام ہے میڈیا والے اپنی ریٹنگ کے چکر میں لفظوں کا ہیر پھیر خوب بڑھا چڑھا کر ،کرر ہے ہیں کسی کے پاس بھی درست فگر نہیں ہیں اور کسی کو بھی اصل کہانی کا پتا نہیں ہے بلکہ بعض ہمارے میڈیا اینکر جو عرف عام میں اپنے آپ کو فرشتہ سمجھتے ہیں وہ بھی اپنے ( کیمرے ) کے ساتھ قصور میں ڈیرہ لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید وہاں سے ان کی ریٹنگ میں مذید اضافہ کا کوئی سبب ہو جائے ہر کسی کے پاس بچوں کے ساتھ زیادتی کے بارے میں الگ الگ کہانی ہے ، لیکن کوئی بھی ایسا نہیں جس کے پاس تصدیق شدہ معلومات ہوں سب اپنی معلومات کے درست ہونے پر بضد بھی ہیں ایسا نہیں ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی یا کہانی سرے سے ہی من گھڑت ہے زیادتی تو ہوئی، لیکن کتنوں کے ساتھ اور کب سے؟ اس سوال کا کوئی ایک جواب نہیں نہ میڈیا چینلز کے پاس نہ پولیس کے پاس؟ سوال یہ ہے کہ معاشرے میں ایسے سانحات کیوں رنماء ہوتے ہیں اس میں زیادہ تر قصور والدین کا ہوتا ہے جو اپنے پچوں کی ذہنی نشو نماء میں کمی چھوڑ دیتے ہیں ان کو یہ باور نہیں کرایا جاتا کہ کس طرح انھوں نے اپنے آپ کو محفوظ کرنا ہے ان کی سو سائٹی کو چیک نہیں کرتے کہ وہ کن کے ساتھ اپنا وقت گزارتے ہیں ۔اس واقعے نے ہمارے معاشرے کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے اور بحثیت پاکستانی ہمارے سر شرم سے جھکا دیے ہیں کیونکہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں جنسی زیادتیاں روز مرہ کا معمول بن جائے جہاں انصاف نام کی کوئی چیز نہ ہو قانون صرف چھوٹے لوگوں کے لئے اور بڑے لوگوں کے لئے صرف اپنے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بن جائے جہاں لوگوں کی عزتیں حکمرانوں کے ہاتھوں پامال ہونا شروع ہو جائیں جہاں کوئی بھی با اثر پولیس یا سول افسر اپنے مخالفین کو نیچا دیکھانے کے لئے کچھ بھی کرنے میں باختیار ہو ان کو اپنے اختیارات سے قابو کرنا چاہے ہمارے معاشرے میں یہ سب بہت آسان بھی ہے اور عام بھی جس کی کئی مثالیں ہم روز دیکھتے رہتے ہیں چونکہ ہمارا پولیس کا نظام اس دور کا ہے جب غلامی کا طوق ہمارے گلے میں ہوتا تھا بحثیت ایک آزاد قوم ہمیں سب سے پہلے اس ادارے کی تشکیل نو کرنی چاہیے تھی لیکن ہم نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی نتیجے کے طور پر آج ہم پولیس کی وجہ سے عجیب و غریب قسم کے مسائل کا شکار ہیں کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ پر حالات کو یکسر الٹے رخ پر ڈالنے میں ہماری پولیس کو ملکہ حاصل ہے قانون گھر کی لونڈی اور انصاف ناپید ہو چکا ہے ہمارے عوام اس ادارے سے سخت نالاں ہے کیونکہ ان لوگوں کی وجہ سے حالات درست ہونے کے بجائے مذید بگاڑ کا شکار ہو رہے ہیں قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے والدین کو بلیک میل کرنے کے اسکینڈل میں ڈی پی او اور آر پی او کے متضاد بیانات اسی سلسلے کی کڑی ہیں ڈی پی او نے اپنے موقف میں کہا کہ بچوں سے زیادتی کے واقعات سینکڑوں میں نہیں ہوئے تاہم یہ واقعات ضرور ہوئے ہیں اور ان کی کچھ ویڈیو کلپس بھی سامنے آئے ہیں چھ افراد کو گرفتار کیاگیاہے اس بے عکس آر پی او نے کہا کہ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات چھ سال پرانے ہیں ان مقدمات میں نامزد چھ ملزمان کوگرفتار کیاگیاہے باقی ضمانت پر ہیں اس کے ساتھ ہی آر پی او کا کہناتھا کہ دراصل ان واقعات کا تعلق سرکاری زمینوں کے معاملات سے ہے کچھ لوگ بیرون ملک پناہ حاصل کرنے کے لئے اس واقعہ کو اچھال رہے ہیں ۔پولیس کے موقف کی روشنی میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں اگر یہ واقعات پانچ چھ سال پرانے ہیں تو اس سے قبل انہیں کیوں اٹھایاگیا اور ان کو اس وقت اٹھایاگیا توپولیس نے کیا کارروائی کی؟اچانک انہیں شدت سے کیوں اٹھایاگیا؟ اگر واقعات پرانے ہیں تو ظاہر ہے ویڈیو کلپس بھی اسی دور کی ہیں یہ کلپس کب پولیس کو دستیاب ہوئیں اور ان کی روشنی میں کیا تحقیقات کی گئی؟اگر ان واقعات کے پیچھے زمینوں کے معاملات ہیں تو اس سلسلے میں پولیس کی اب تک کی تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلا؟یہ سوال بھی اہم ہے کہ جن واقعات کو پولیس پرانے واقعات قرار دے رہی ہے انہیں نمٹانے کے سلسلے میں اس کی کارکردگی کیا رہی؟ ہر علاقے میں پولیس کی سپیشل برانچ سمیت متعدد خفیہ ایجنسیاں بھی فعال ہوتی ہیں جو مختلف واقعات کے بارے اپنے اپنے اداروں کو رپورٹ کرتی ہیں قصور کے ان واقعات کے بارے میں ان کا کیا کردار رہا ان کی رپورٹیں کیا تھیں معاملات چاہے کچھ بھی رہے ہوں یہ حقیقت ہے کہ اس گاؤں کے بچے سالوں تک جسمانی اور ذہنی اذیت سہتے رہے ہیں لیکن فی الوقت سیاستدان اپنی سیاست چمکانے، میڈیا والے اپنی ریٹنگ بڑھانے اور حکومت گڈ گورننس کے دعوے کرنے میں مگن ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ بھی ماضی کے واقعات کی طرح داخل دفتر کر دیا جائے گا یا ملزمان کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں گی کیونکہ تفتیش تو برحال پولیس کو ہی کرنی ہے اور پولیس کیا کرتی ہے یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں لہذا قوی امید ہے کہ یہ کیس بھی باقی کیسوں کی طرح داخل دفتر کر دیا جائے گا ۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227378 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More