ہم ہیں کہ ہم نہیں

 آئے روز سوشل میڈیا کی کئی ویب سائٹز پرکئی سروے نظر آتے ہیں کہ ریاست جموں کشمیر کے لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ۔اخبارات و رسائل میں بھی خبریں چھپتی رہتی ہیں اور بعض بین الاقوامی این جی اوز نے بھی متعدد سروے کئے ہیں جن کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے تینوں حصوں کی غالب اکثریت اپنے ملک کا احیا ء چاہتی ہے جبکہ محض دس سے پندرہ فیصد پاکستان اور تین سے آٹھ فیصد بھارت سے الحاق کے متمنی ہیں ۔یوں تو الحاق بذات خود آزادی کی ایک معمولی سی قسم ہے، ایک ایسا معائدہ جواپنی حیثیت برقراررکھ سکا ہو اس کی دنیاکی تاریخ میں کوئی شہادت موجود نہیں البتہ کسی تحریک آزادی کی قوت کو کم کرنے اور اسے طوالت دے کر کمزور کرنیکا ایک مضبوط انجکشن ضرورہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اثر کرتاہے۔

الحاق ،ادغام میں بال برابر فرق ہے ،الحاق کے معنی ہیں کہ کوئی ملک اپنی شناخت و تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے ایک معائدے کے تحت چند اہم امور کسی بڑے ملک کو سونپ دیتا ہے جب کہ اپنی شناخت کو مکمل طور پر ختم کر کے کسی ملک میں شامل ہو جانا ادغام کہلاتا ہے، تاریخ گواہ ہے حال ہی میں ریاست سوات ،بہاولپور ،قلات وغیرہ نے پاکستان سے الحاق کیا تھا لیکن جلدہی وہ دستاویزات الحاق دریا برد ہو گئیں اور آج ان تمام ریاستوں کی کوئی شناخت و تشخص باقی نہیں اور نہ ہی ان کی تاریخ باقی ہے ۔اس طرح وہ ہونے والا الحاق مختصر مدت میں ادغام ثابت ہوا ہے ۔اگر اس منظر نامے میں غور کیا جائے تو ریاست جموں کشمیر کے وہ لوگ جوسچے دل سے الحاق ہند و پاک کا سوچتے ہیں در حقیقت وہ بھی آزادی پسندوں کی ہی ایک ادنیٰ سی قسم ہے ۔نازک مزاج لوگوں کا وہ گروہ جوپر آسائش زندگی کا متمنی ضرور ہے لیکن کسی بڑے کاز کے لئے اپنے آپ کو کسی مشکل میں ڈالنا پسند نہیں کرتا۔وہ لوگ صرف آج کے لئے اور زیادہ سے زیادہ شام تک کے لئے زندہ رہتے ہیں ۔

ریاست جموں کشمیراور فلسطین کی تحریک آزادی جن کا آغاز ساتھ ساتھ ہی ہواتھا لیکن آج فلسطینی اپنی منزل آزادی کے نشان اپنی آنکھوں سے دیکھ پا رہے ہیں جب کہ تحریک آزادی کشمیر چھ لاکھ سے زیادہ انسانی جانوں کی قربانی کے باوجود ۱۳، اگست ۱۹۴۷ ء کو پاس کی گئی قرارداد سے ایک اینچ آگے نہ بڑھ سکی ۔جس کی بنیادی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ فکری انتشار الحاق ہند وپاک اور آزادی کے’’ریمکس‘‘ نے اس تحریک کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب جب عوامی قربانیوں نے تحریک کو بام عروج پر پہنچایا تو غیر ملکی آلہ کاراپنے آقاؤں کی ترجمانی کرنے میدان میں کود پڑھے نتیجتاً دنیا نے تحریک آزادی کشمیر کو دوممالک کی شرارت و چھیڑچھاڑ سمجھتے ہوئے اسے اہمیت نہ دیتے ہوئے نظرانداز کر دیا ۔یہ کھیل ۱۹۴۷ تک محدود نہیں رہا اب بھی شدومد سے جاری ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کھیل میں جدت پیدا ہوئی ہے اور ابتداء میں اکا دکا لوگ ہو اکرتے تھے لیکن آج تینوں حصوں میں ایسے عناصر وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں اور غیر ملکی طاقتیں اپنی پسند کے ’’روبوٹ‘‘ کا دیکھ بحال کرانتخاب کرتی ہیں۔ریاست کے تینوں حصوں میں موجود سیاستدان اپنے آقاؤں سے حاصل کردہ مراعات،میڈیا کی طاقت اور پوری انتظامی مشینری کے باعث ٹیکنیکل طور پر منظر پر چھائے نظر آتے ہیں اور حقیقی عوامی طاقت کو زیادہ دیرمنظر عام پر نہیں رہ سکتی اسے پس منظر میں دھکیل دیا جاتا ہے اور یوں ریاست کے یہ مٹھی بھر عناصر عرصہ دراز سے کھمبا ،ٹیوٹی ،پولیس پٹواری اور ٹھیکہ کے علاوہ وی آئی پی پروٹوکول و نمود نمائش سے لوگوں کو قبیلہ ازم برادری ازم اور علاقہ ازم کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کر کے مسلسل بے وقوف مناتے چلے آ رہے ہیں اور گزشتہ سڑسٹھ سالہ دور پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ہندوپاک کے تمام تر جوروستم ایک طرف اور اس غیر ملکی حاشیہ برادارطبقہ کے ظلم و جبراور بدترین منافقانہ کردار ایک طرف ہے جس کے باعث انہیں تحریک آزادی کا دشمن نمبر ایک قراردیا جا سکتا ہے ،کیوں کے یہی وہ لوگ ہیں جو موجودہ جبری و فکری تقسیم کے زمہ دار ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے باعث مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح سے علاقائی مسئلہ بنا دیا گیا یہی وہ لوگ ہیں جو پوری دنیا میں قومی ترجمانی کے بجائے غیر ملکی آقاؤں کی وقالت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو ہر سال ریاست کے تینوں حصوں میں انڈیا پاکستان کا یوم آزادی منا تے ان کے جھنڈے لہراتے اورسادہ لوح انسانوں سے دونوں ممالک کے حق میں نعرے لگواتے ہیں اور اپنے اپنے حصوں میں اپنے کسی آقا کے انتقال پر سرکاری طور پر سوگ مناتے یہ کردار پوری دنیا کوکشمیر کاز سے متنفر کرتے ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے اس بدترین منافقانہ کردار کے باعث ریاستی عوام تحریک آزادی سے دور ہورہے ہیں ۔ان کے اس کردار نے عوام کو کنفیوژ کر دیا ہے اور لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا ہم ہیں یا ہم نہیں ہیں ‘‘یہی وہ لوگ ہیں جو چھ لاکھ شہداء کے خون سے سینچی تحریک آزادی کشمیر پراپنی پر آسائش زندگی ،زاتی و فروہی مفادات کی منافقانہ چادر اوڑھا کر اسے بے نام و نشان کر دیتے ہیں ۔اس پر ستم یہ کہ وہ تمام آزادی پسند جو وحدت کشمیر و آزادی کے حقیقی علمبردار ہیں جو سٹیج پر ہوں توخود کو قبیلا ازم ،برادری ازم و علاقہ ازم سے بالاتر کہتے ہیں لیکن موقع ملتے ہی ان قومی مجرموں کی آرتی اتارنے لگتے ہیں ان کے ساتھ ’’صلفیاں ‘‘ بنانے کو فخر سمجھتے ہیں ،استقبالیوں ظہرانوں ایشایوں سے ان کی تواضع کرتے ہیں ۔اس منظر نامے میں ’’عام کشمیری‘‘ سوچنے پر مجبور ہے کہ ’’ہم ہیں کہ ہم نہیں ہیں ‘‘اگر ہیں تو کہاں ہیں ؟ اگر نہیں ہیں تو کیوں ۔۔۔؟ پوری دنیا کے سروے کہتے ہیں کہ ہم ۹۰ فیصد سے زائد کشمیری آزادی پسند ہیں لیکن آج تک پاکستان سمیت۱۹۵ آزاد ممالک میں سے کسی ایک کی بھی حمائت حاصل نہ کر سکے تو پھراگر ہم ہیں توکہاں ہیں ؟۱۹۳۰ سے سے آج تک چھ لاکھ لوگ قربان کر کے ہم اپنے اصل آزادی دشمن کی پہچان نہ کر پائے تو پھر اگر ہم ہیں تو کہاں ہیں۔۔؟ اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ ہم آزادی دشمنوں اور آزادی پسندوں کے درمیاں فرق نہیں جان سکے اور ہم وطن فروشوں اور سرفروشوں کے درمیاں لکیر کھینچنے کو تیار نہیں ہیں کیوں کے ہم آج اکیسویں صدی میں بھی برادریوں ،قبیلوں اور علاقوں جیسے فروہی تعصبات سے باہر نہیں نکل پائے ہیں جو غلامی کی ایک بد ترین شکل ہے ۔اگر ہمیں مسئلہ کشمیر کو حل کر کے اپنی آئندہ نسلوں کو اس تنازعہ سے نجات دلانا ہے تو تمام مکتب فکر کو حق خود ارادیت کے بنیادی مطالبے پر کام کرنا ہوگا اور جب تک ریاستی عوام کو اپنا یہ موعود حق مل نہیں جاتا ریاست کے کسی بھی حصے میں کسی غیر ملک کا یوم آزادی و یوم سوگ اور الحاق ہند و پاک جیسے متنازعہ نعروں پر پابندی ہونا چاہیے جو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ تمام لوگ فروہی و لسانی تعصبات سے بالا ہو کر اس ایک نعرے پر اتفاق کر لیں اور اسی بنیاد پر جدوجہد کو آگے بڑھانے کا عہد کر لیں ۔

Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 82209 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.