صدیوں پرانے تعلقات کی ایک نئی شروعات
(Shams Tabraiz Qasmi, India)
ہند۔عرب تعلقات صدیوں
پرانے ہیں ۔ان دونوں خطوں کے درمیان اقتصادی ، تجارتی اور سیاسی رشتہ
ہزاروں سال قدیم ہیں ۔ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور کلچر میں عرب ثقافت
جگہ جگہ نمایاں ہے ۔ تاریخ دانوں کے مطابق ہنداور عرب کلچر کے اختلاط کا
سلسلہ 2000 سال قبل سے مسیح سے ملتا ہے۔712 عیسوی میں محمد بن قاسم کی آمد
کے بعد ہندوعرب کے رشتے میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ۔ اسلامی سلطنت کے تحت
سندھ کے آجانے کے بعد عربوں کی آمد کا سلسلہ مزید بڑھ گیا ،تجارتی اور
ثقافتی تعلقات میں دن بہ داضافہ ہونے لگا۔ ہندوستان میں مذہب اسلام کی
آبیاری ہونے لگی ۔ مشرف بہ اسلام ہونے والوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع
ہوگیا ۔1106 میں قطب الدین ایبک کے ہاتھوں باضابطہ مسلم سلطنت کے قیام کے
بعد عربوں اور ترکوں کے ساتھ ہندوستانیوں کا اختلاط مزید گہرا ہونے لگا اور
اس طرح ہند ۔ عرب تعلقات کا سلسلہ قائم رہا ۔
ہندوستان اور عرب کے تعلقات آج بھی گہرے ہیں ۔ خلیجی ملکوں کے ساتھ
ہندوستان کا تعلق اب وقت کی ضرروت بن گیا ہے ۔ہندوستان کی معیشت آور آبادی
کو خوشحالی فراہم کرنے میں عرب اور خلیجی ممالک کا کردار کبھی بھی فراموش
نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ہندوستان سے غربت کے خاتمہ ، روزگار کی فراہمی ،تیل کی
بر آمدگی، اقتصادی ترقی اور دیگر معاملوں میں عرب ملکوں نے نمایاں کردار
اداکیا ہے۔لاکھوں کی تعدادمیں ہندوستانی نوجوان عرب ملکوں میں برسرروزگار
ہیں۔ روزگار کی فراہمی کے حوالے سے عرب ممالک سب سے آگے ہیں ۔ ہندوستان کی
عوام تو ویسے پوری دنیا میں موجود ہے ۔ دنیا کوئی ایسا خطہ نہیں ہے جہاں
ہندوستانی موجود نہ ہوں۔ جہاں کہیں بھی دنیا کا کوئی خطہ آباد ہے وہاں
ہندوستانی تجارت ، ملازمت اور دیگر ضروریات کے تحت قیام پذیر ہیں لیکن عرب
ملکوں میں یہ تعد اد سب سے زیادہ ہے ۔ان عرب ممالک میں سرفہرست متحدہ عرب
امارات ہیں جہاں 26 لاکھ ہندوستانی آباد ہیں ۔ وہاں کی آبادی کا 28 فیصد
حصہ ہندوستانیوں پر مشتمل ہے ۔متحدہ عرب امارات کے دو شہر ابوظہبی اور دبئی
بعض ہندوستانیوں کے لئے گھر آنگن کی طرح ہیں وہ صبح دہلی میں اور شام کو
دبئی میں نظر آتے ہیں۔عرب ملکوں میں برسرروزگار ہندوستانیوں میں سے اکثریت
مسلمانوں کی ہے ۔ یہ سچائی بھی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو خوشحالی
عطاکرنے اور غربت کے دلدل سے نکالنے میں عرب ملکوں کا خصوصی کردار ہے ۔ جب
سے مسلمانوں نے عرب ملکوں میں ملازمت شروع کی ہے ان کی زندگی میں تبدیلی
آئی ہے ۔پسماندگی اور غربت کے داغ دھلے ہیں ۔مسلم بستیوں میں کچے مکانات کی
جگہ پختہ مکانات نظر آنے لگے ہیں ۔ بچوں کی تعلیم و تربیت شروع ہوگئی ہے ۔لیکن
براداروطن کی بھی ایک بڑی تعداد وہاں برسرروزگار ہے ۔ خاص طور سے متحدہ عرب
امارات میں ہندومذہب سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے تاجر موجود ہیں ۔وہ وہاں
اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں ۔ بالی ووڈ، فلم ، ڈرامہ اور کرکٹ کے حوالے سے
بھی متحدہ عرب امارات ہندوستان کے لئے بہت اہم ہوگیا ہے ۔تجارت کے باب میں
متحدہ عرب امارات ہندوستان کا تیسرا سب سے بڑا شراکت دار ہے ۔حالیہ دنوں
میں ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی اسی متحدہ عرب امارات کا دورزوہ دورہ کرکے
آئے ہیں ۔اور ہند۔ متحدہ عرب تعلقات کو ایک نئی بلندی پر لے جانے کے
خواہشمند نظر آرہے ہیں ۔
وزیر اعظم کا یہ دورہ دو واقعات کی وجہ سرخیوں میں ہے ۔ ایک وزیر اعظم
نریندر مودی کا وہاں کی سب سے بڑی مسجد شیخ الزائد میں جانا اور دوسرا
ابوظہبی میں مند رکی تعمیر کے لئے زمین کی حصولیابی ۔نریندر مودی اپنی
زندگی میں پہلی مرتبہ کسی مسجد میں گئے تھے۔ان کے مسجد میں جانے کو اس طور
پر دیکھا جارہا ہے ان کے سخت گیر نظریے میں کمی آرہی ہے ۔ مسجد میں جاکر وہ
مسلمانوں کے تئیں اپنی داغدار شبیہ کو سدھا رنا چاہتے ہیں ۔ہندوستانی
مسلمانوں کو وہ اپنے تئیں ایک مثبت پیغام دیناچاہتے ہیں ۔ بعض چینلوں نے یہ
خبربھی دی کہ مودی مسجد میں سجدہ کرکے اپنی سیکولر شبیہ کا آغاز کریں گے ۔
نریندر مودی اب تک جہاں کہیں بھی گئے ہیں وہاں موجود مندروں کی انہوں نے
زیارت کی ہے ۔البتہ کہیں بھی مسجد میں انہیں جانے کی توفیق نہیں ہوسکی تھی
۔ یواے ای کی مسجد میں جانے کے بارے میں لوگ یہی خیال کررہے ہیں کہ وہ مسلم
ملک ہے اس لئے یہاں کے لئے انہوں نے مندر کے بجائے مسجد کا انتخاب کیالیکن
سچائی یہ نہیں ہے ۔ مسجد شیخ الزائد دنیا بھر کی تیسری سب سے بڑی اور
خوبصورت مسجد وں میں شمارکی جاتی ہے ۔اس کی حیثیت ایک عبادت گاہ ہونے کے
ساتھ تفریح گاہ کی بھی ہے ۔نریندر مودی کا وہاں جانا اپنی داغدار شبیہ کو
سدھارنے اور سیکولرزم کا لبادہ اوڑھنے کے لئے نہیں بلکہ ایک سیاحتی مقام کی
سیر کرنے کے لئے تھا۔ مسجد کی زیارت کے دوران جو تصویر دکھائی جارہی تھی اس
سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کسی عبادت خانہ میں نہیں بلکہ تاریخی مقام کی سیر
کررہے ہیں ۔ اس کے حسن سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ مسجد میں مودی جی نے خوب
سیلفیاں بنائی ۔ اپنی خاص شناخت کو انہوں نے مسجد میں بھی نمایاں رکھا ۔ اس
بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ مسجد میں تصویر کشی مسجد کی بے ادبی اور بے
حرمتی میں شامل ہے۔
نریندر مودی سے مسلمانوں کا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ وہ مسجد میں جائیں ، سجدہ
کریں ، ٹوپی پہنیں ، دعوت افطا ر کا اہتمام کریں ،ساتھ کھڑے ہوکر نماز
پڑھیں اور اپنے مذہبی عقیدہ کے خلاف کوئی بھی کام کریں ہندوستانی مسلمانوں
کے زوال کی بنیادی وجہ یہی مذہبی سیکولزم کی سیاست ہے جس میں مسلمانوں کو
بہ ظاہر بہلایا گیا اور عملی طور پر ان کے خلاف زمین تیار کی گئی ۔ نریندر
مودی کی یہ اچھی صفت ہے کہ وہ مذہبی سیکولزم کے حامی نہیں ہیں ۔ لیکن سیاست
کے باب میں سیکولر بننا ضروری ہے ۔ ہندوستان کی 125 کڑور عوام کے ساتھ
یکساں برتاؤں کرنا وزیر اعظم کا اولین فریضہ اور آئین کی پاسداری ہے ۔
وزیر اعظم نے اس دورہ کی دوسری کامیابی اپنے ٹوئیٹ میں یہ ظاہر کی انہیں
ابوظہبی میں مند ر کی تعمیر کے لئے زمین مل گئی ہے ۔متحدہ عرب امارات کے
دوسرے بڑے شہر دبئی میں پہلے سے دو مندر موجود ہیں ،وہاں ایک گردواراہ اور
کئی گرجا گھر بھی ہیں ۔ ابوظہبی میں مندر کی تعمیر کے لئے کافی دنوں سے بات
چیت چل رہی تھی ۔ایک اخبار کے مطابق 2013 میں ہی ایک عربی شیخ نے مندر کے
لئے زمین فراہم کردی تھی بہرحال نریندر مودی نے مندر کی تعمیر کا کریڈٹ لے
کر یہ باور کرانے کی کوشش کہ وہ سیکولر ہندوستان کے نہیں جہاں مختلف مذاہب
کے لوگ رہتے ہیں بلکہ آر ایس ایس کے نظریہ کے مطابق ہندو رشٹروالے ہندوستان
کے وزیر اعظم ہیں۔
متحد ہ عرب امارت کی آباد ی میں جہاں 77 فی صد مسلمان اور 13 فی صد عیسائی
شامل ہیں وہیں 4 فی صدہندوبھی ہیں ۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے پناہ گزین
ہندوؤں کی تعد اد اس کے علاوہ ہے۔ ایسے میں یواے ای حکومت نے مندر کی تعمیر
کی اجازت دے کر مذہبی رواداری کو فروغ دیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر
اعظم اس سفر سے کیا سبق لیتے ہیں ۔ اپنے ملک میں مذہبی رواداری کوفروغ دیتے
ہیں یا پھر خاص طبقہ کی ہی ترجمانی کرتے رہیں گے!!!۔ |
|