خون شہیداں رنگ لایا
(nazish huma qasmi, mumbai)
حق و باطل کی ٹکرشروع سے ہی رہی
ہے ، حق ہمیشہ کمزور وناتواں رہا ہے اور باطل ہمیشہ تمام تر ساز وسامان اور
آلات حربی سے لیس رہا …لیکن اللہ نے ہمیشہ حق پرستوں کی جماعت کو باطل پر
فتح نصیب فرمائی ہے ۔ اور جب جب بھی باطل حق پر حملہ آور ہوا تو کسمپرسی
کے عالم میں رہنے کے باجود حق کے متوالوں نے ہمیشہ باطل کو اپنی بلند ہمتی
اور توکل علی اللہ کے ذریعہ سرنگوں کیا ہے۔ لوگوں کی خوشی سے آنکھیں چھلک
پڑیں جب قندوز فتح کی خبر سنی… قندوز فتح کرنے والے وہی طالبان ہیں جنہوں
نے روس سے کسمپرسی کے عالم میں لڑا اور آج 14سال سے امریکہ و اس کے
حواریوں سے ٹوٹی پھوٹی بندوق اور زنگ آلود کلاشنکوف کے ساتھ برسر پیکار ہے۔
جب فاتح قندوز کی تصویریں سوشل میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آئی تو ان کی
سادگی اور پھٹے پرانے کپڑے نے یہ باور کرادیا کہ ہم حق پر ہیں اور ہم ہی
غالب رہیں گے۔ نہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ 14سال کے طویل عرصے میں امریکہ
اور اس کے ہم نوائوں نے طالبان کو ختم نہیں کرپائے بلکہ طالبان پہلے سے
زیادہ مزید مستحکم ہوتے گئے…اور عوامی حمایت نے ان کی ہمت کو مزید دوبالا
کردیا … قندوز فتح تو ایک ہراول ہے آگے کے جو عزائم ہیں اس سے یہی اندازہ
لگایاجاسکتا ہے کہ عنقریب ملا محمد عمر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا اور
باطل اپنے منہ کی کھائے گا۔
طالبان کے عزم آپریشن کے سلسلے میں رپورٹ کے مطابق طالبان کی کاروائیاں
افغانی سرکاری فوجیوں کے خلاف صوبہ قندوز کے گرد ونواح میں جاری ہیں۔تفصیل
کے مطابق بدھ کے روز 2015-09-30 مقامی وقت کے مطابق شام چار بجے کے لگ بھگ
طالبان نے قندوز شہر کے قریب دشت ابدان کے علاقے میں واقع فوجی و پولیس
اکیڈمی اور زرخرید کے علاقے میں قائم باچا قلندر نامی فوجی بیس اور پل
الچین سے دشت ابدان تک پانچ چوکیوں پر اللہ تعالی کی نصرت سے قبضہ کر لیا
اور وہاں تعینات بزدل جان بچانے میں کامیاب ہوگئے ۔ رپورٹ کے مطابق طالبان
نے اکیڈمی میں 70 فوجی ٹینک اور رینجر گاڑیاں جبکہ بچاقلندر بیس میں 4
بکتربند فوجی ٹینک کے علاوہ کافی مقدار میں بھی غنیمت کرلیے۔وہیں دوسری
رپورٹ کے مطابق بدھ ہی کے دن سرک بالا کے علاقے غلام تپہ کے مقام پر واقع
فوجی بیس کا کنٹرول حاصل کرلیا اور وہاں تعینات 33 سیکورٹی اہلکار گرفتار
ہونے کے علاوہ 3 فوجی ٹینک، 3 رینجر گاڑیاں، ایک ایس پی جی نائن توپ، 2
مارٹرتوپ، ایک اینٹی ایئرکرافٹ گن، 33 کلاشنکوفیں، 5 ہیوی مشین گن،راکٹ
لانچر اور کافی مقدار میں مختلف النوع اسلحہ غنیمت کرلیا۔ الامارہ ویب سائٹ
کے نمائندے ضلع امام کی رپورٹ کے مطابق ضلعی مرکز، پولیس ہیڈکوار، تاشگذر
بیس، دہقان قشلاق نامی فوجی بیس اور 12 چوکیاں تابڑتوڑ حملوں کے بعد بدھ
اور جمعرات کی درمیانی شب مقامی وقت کے مطابق رات آٹھ بجے کے لگ بھگ مکمل
طور پر فتح ہوئیں، کاروائی کے دوران دشمن کو ہلاکتوں کا سامنا ہوا، اور
بزدلوں نے فرار کی راہ اپنائی۔ رپورٹ کے مطابق طالبان نے مزید 6 فوجی ٹینک
تباہ، 15 رینجر گاڑیاں، اسلحہ و گولہ بارود بھری ہوئی ایک انٹرنیشنل نامی
گاڑی اور کافی مقدار میں ہلکے و بھاری ہتھیار غنیمت کرلیے۔ طالبان کی قندوز
فتح کے متعلق طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دشمن کی طرف سے پھیلائے گئے
افواہ اور ان کی شکست کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا کہ ’’دشمن نے بعض ابلاغی
ذرائع کے ذریعے دعویٰ کیا ہے کہ قندوز کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آپریشن
شروع کیا گیا ، سینٹرل جیل اور پولیس ہیڈ کوارٹر پر دوبارہ قبضہ کرلیاگیا
ہے اورطالبان پر بمباری کی گئی ہے۔ہم دشمن کے اس دعوے کی پرزور الفاظ میں
تردید کرتے ہیں۔ قندوز کے حالت معمول پر ہیں ۔ شہری پرسکون زندگی گزار رہے
ہیں۔ طالبان شہریوں کے استحکامات میں مصروف ہیں، دشمن کے آپریشن کا ہم پر
کوئی اثر نہیں ہے اور نہ ہی دشمن میں پلٹ کر وار کرنے کی کوئی سکت ہے۔
امریکی طیاروں نے دو مقامات پر بے ہدف بمباری کی، جس سے الحمدللہ طالبان
کوکسی قسم کا نقصان نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی ٹارگٹ کو نشانہ بنایا
گیا۔دوسری جانب دشمن نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ قندوز میں سرکاری املاک کو
آگ لگا دی گئی ہیں ، یا کرنسی مارکیٹ ، سونے کی دکانیں اور بینکوں میں لوٹ
مار کیا گیا ہے، ایسے پروپیگنڈوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ قندوز میں کسی کی
سوئی بھی ضائع نہیں ہوئی ہے … اور نہ ہی کسی کو ایسے اعمال سرانجام دینے کی
اجازت دی جاتی ہے۔ دشمن ایسے پروپیگنڈوں سے طالبان کو کو بدنام کرنا چاہتے
ہیں۔ہم اہل وطن کو قندوز کی حالت کے متعلق تسلی دیتے ہیں، دشمن کو مار
بھگایا گیاہے، وہ دوبارہ حملے کی استطاعت نہیں رکھتے، مزدور فوجیوں کے کابل
سے آنے والے قافلے پر صوبہ بغلان کے مختلف علاقوں میں طالبان کے تابڑتوڑ
حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور دشمن آگے بڑھنے کی سکت نہیں رکھتا، طالبان
بہادری سے قندوز کا دفاع کریگا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ‘‘۔
شہیدوں کا خون ہمیشہ رنگ لایا ہے … شہادتوں کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہا اور
رہے گا… یہ اور بات ہے کہ جو شہید ہوتے ہیں وہ اپنے خون کی سرخی سے سیراب
زمین کو نہیں دیکھ پاتے لیکن ان کے ہم نشیں و ہم نوا ، سرفروشان اسلام اسے
پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیتے ہیں… یہی صورت ہمیں قندوز فتح کو دیکھ کر
معلوم ہوتی ہے… تقریباً پندرہ سال قبل اسی قندوز کے مقام پر طالبان کے ساتھ
جنرل رشید نے قرآن پاک پر جھوٹی قسم کھا کر اس بات کا عہد لیا تھا کہ میں
نے امریکہ سے بات کرلی ہے تم ہتھیار ڈال دو میں تمہیں محفوظ راستہ سے باہر
نکال دیں گے … اس وقت طالبان محاصرے میں آگئے تھے اور ان کے پاس ہتھیاروں
کی بھی کمی تھی جس کی بناء پر انہوں نے اس دغا باز فریبی کی باتوں میں آکر
ہتھیار ڈال دئیے… جرمن رپورٹر اس منظر کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب ان
طالبان کو قندوز سے شبرغان لے جانے کے لئے گنجائش سے زیادہ کنٹینروں میں
ڈالا گیا اور ان سے یہ کہا گیا کہ تھوڑا راستہ آپ لوگوں کو اس طرح لے کر
جائیں گے پھر آپ کو ان سے نکال لیں گے مگر جب بند کنٹینروں میں ان مظلوم
طالبان کا دم گھٹنے لگا تو انہوں نے اپنے ساتھ ہوئے دھوکے کو بھانپ لیا…
لیکن کر بھی کیا سکتے تھے مجبور ولاچار تھے… اسی لاچارگی ومجبوری کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے امن عالم کے علمبردار وں نے کنٹینر کا دروازہ کھول دیا اور اور
فائرنگ شروع کردی ۔ اس رپورٹر کے مطابق کہ میری گاڑی کنٹینر کے اس قافلے کے
پیچھے جارہی تھی فائرنگ کی و جہ سے شہید طالبانیوں کے خون سے پورے راستہ
سیراب ہوچکا تھا ۔ اسی طرح زیادہ طالبان کو کنٹینروں میں ہی شہید کردیا گیا،
جو بچ گئے اس کو رشید دوستم جو آج کل موجودہ کٹھ پتلی حکومت میں مشیر اعلیٰ
کے عہدہ ذلیلہ پر فائز ہے نے ہاتھ پائوں باندھ کر دشت لیلیٰ میں زندہ درگور
کردیا اور کچھ عرصہ بعد ان مظلوم مجاہدین کی بے گورو کفن لاشیں صحرا میں
ظاہر ہونے لگی۔ لیکن شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جاتا ہے آج نہیں تو کل
رنگ ضرور لاتا ہے … آج جب طالبان قندوز کے ایئر پورٹ پر فاتحانہ انداز سے
پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہوکر جشن فتح منارہے ہیں اور اپنے ان شہیدوں کو
خراج عقیدت پیش کرررہے ہیں ، ان کی قربانیوں کو یاد کرکے رو رہے ہیں اور ا
پنے لیے بھی شہادت کی تمنا کررہے ہیں اور اس بات کا عزم کررہے ہیںکہ آئندہ
جلد ہی پورے افغان پر سے علم یہود اکھاڑ کر سیاہ پرچم لاالہ الا اللہ کند
ہوا لہرا دیں گے۔ اور انشاء اللہ وہ دن جلد ہی آئے گا کیوں کہ جس طرح کے
عزائم ، نصرت الہی اور عوامی حمایت ان کے ساتھ ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے
کہ جلد ہی اپنے شہداء کے خون کا وہ بدلہ لیں گے اور باطل ناکام ونامراد
ہوکر روس کی طرح ہدیہ ہزیمت اٹھاتا ہوا فرار ہوجائے گا… اور پھر اسی آب
وتاب سے وہی حکومت افغان میں خیمہ زن ہوگی جو 2001سے پہلے ملا محمد عمر کی
قیادت میں تھی۔ اور وہیں سے اقصیٰ کی بازیابی کے لیے قافلے نکلیں گے اور
حرمین شریفین کی حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے دستے روانہ کیے جائیں گے۔ شام
میں جاری بقول پوپ کے صلیبی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اس کا خاتمہ بھی کریں گے…پھر
نہ کوئی شام میں تڑپے گا اور نہ ہی برما میں کسی پر ظلم ہوگا ۔ انشاء اللہ
العزیز۔ |
|