پیپلز پارٹی کی چوتھی بھڑک!

جب دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ اُن کو مالی مدد کرنے والوں کے خلاف رینجرز نے کاروائی شرع کی اور اس میں پیپلز پارٹی کے لوگ ملوث نکلے تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین جناب آصف علی زرداری صاحب نے فوج کو بھڑک ماری تھی کہ ہمیں دیوار سے نہ لگاؤ ورنہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے کراچی سے تورخم تک ملک کو بند کر دیا جائے گااور میرے پاس جرنلوں کی کرپشن کے بھی ثبوت ہیں اور جب میں نے ثبوت پیش کے تو کوئی بھی بچ نہیں سکے گا ہوشیار ہوشیار ہوشیار۔اس بھڑک پر تجزیہ نگار کہتے تھے جب پارٹی بنانے والے کی موت پر پیپلز پارٹی ملک کی اینٹ سے اینٹ نہ بجا سکی تو اب کیا اینٹ سے اینٹ بجائے گی۔ جب زرداری صاحب کو بعد میں اپنی بھڑک کا احساس ہوا تو وہ خاموشی سے ملک سے باہر چلے گئے اور اپنی پارٹی کو دبئی میں بیٹھ کر چلا رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ احتیاط کے طور پر اپنی بھڑک والے بیان سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرا مقصد فوج کے خلاف نہیں بلکہ یہ تھاوہ تھا۔ اب تو پیر پگارہ صاحب نے دو دن پہلے پیشن گوئی کی ہے کہ زرداری صاحب پاکستان نہیں آئیں گے اور کچھ د نوں بعد کچھ ہونے والا ہے۔سندھ کے اداروں میں کرپشن کے ثبوتوں کے لیے جب رینجرز نے چھاپے مارے شروع کیے تو پکڑے جانے والوں نے بیان دیے تھے کہ کرپشن کے پیسے بلاول ہاؤس پہنچائے جاتے تھے۔اس پر مظبوط گرفت کی گئی تو سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ صاحب نے دوسری بھڑک ماری کہ سندھ پر حملہ کر دیا گیا ہے اور کہا، کہ کیا کرپشن صرف سندھ میں دوسرے صوبوں میں کرپٹ لوگوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتاپیپلز پارٹی کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ ان کی بھڑک پر بھی کسی نے کان نہیں دھرا اور کرپشن کے خلاف مہم زورشور سے جاری رکھی ۔کرپشن کے خلاف تیسری بھڑک جناب خورشید شاہ صاحب نے ماری کہ اب جھنگ ہوگی یعنی جو کرپشن پکڑی جا رہی ہے یا سندھ میں جو کرپٹ عناصر پکڑے جا رہے ہیں جن کو پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے یہ بیان اُن کے حق میں تھا اور فوج کے خلاف تھا۔ خورشید شاہ صاحب پارلیمنٹ کے اندر حزب اختلاف کے لیڈرکی پوزیش میں ہیں ان کو سوچ سمجھ کر بیان دینا چاہیے تھا کہ اس بیان سے اُن کی ایک باعزت پوزیشن پر اثر پڑے گا مگر شاید اُن کی مجبوری تھی کہ پارٹیکی ہائی کمان کی طرف سے یہی حکم ہوا ہو گا کہ جس طرح سندھ کے وزیر اعلی صاحب نے بیان دیا تھا اُسی طرح خورشید شاہ صاحب نے بھی بیان داغ دیا بلکہ ذرا سخت بیان تھا کہ جھنگ ہو گی اس پر بھی کسی نے کان نہیں دھرا اور پہلے زیادہ زرو سے کرپشن کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں اور ملزم پکڑے جا رہے ہیں جس سے عوام خوش ہے۔اب اُن سے بھی بڑی پوزیشن جو صدر کے بعد کی پوزیشن ہے پاکستان کی سینیٹ کے سربراہ جناب رضا ربانی صاحب نے چوتھی بھڑک ماردی کہ کرپشن پکڑنے والوں کی کرپشن کاحساب کون کرے گا۔پاکستان میں کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہے سب کا حساب ہونا چاہیے ۔رضا ربانی صاحب نے بھی فوج کے خلاف بیان دیا کہ فوج کا احتساب کون کرے گا۔ ہمارے خیال میں پیپلزز پارٹی کے مرکزی لیڈر صرف وہ ہی رہ گئے تھے کہ جنہوں نے پیپلز پارٹی کے کرپٹ لوگوں کے حق میں بیان دیا۔اگر پیپلز پارٹی کی کرپشن کے خلاف چاروں بھڑکوں کا تجزیہ کیا جائے تو کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ زرداری صاحب تو پاکستان میں کیا پوری دنیا میں مسٹر ۱۰؍ پر سینٹ اور پھر مسٹر ۱۰۰؍ پر سنٹ مشہور ہوئے تھے فرانس سے آگسٹا سمرین خریدنے میں پوری دنیا میں زرداری صاحب کی کرپشن مشہور ہوئی تھی۔ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سرے محل کرپشن کے پیسوں سے خریدا تھا اور ایک مدت تک اس کی مالکیت کا انکار کرتے رہے بعد میں اقرار کیا جب سرے محل فروخت ہونے لگا۔ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ایک معاہدے سے انحراف کیا۔ لوگون نے اعتراض کیا تو کہا کہ وعدہ کچھ حدیث تونہیں کہ جس پر عمل ضرور کیا جائے۔ کرپشن کے پیسے سوئس کے بنکوں میں پیسے جمع کئے جن کے اب تک مقدمے چل رہے ہیں۔بیرون میں ملک جائدادیں بنائیں جس کی ٹرنسپرنسی انٹر نیشنل لسٹ اخبارات میں شائع کر چکی ہے ۔ سمجھ نہیں آتی کہ ملک کے صدر رہے ہیں اورایک بڑی سیاسی پارٹی کے شریک چیئر پرسن ہیں اگر وہ خود کرپشن میں مبتلا ہیں تو ان کے نیچے پارٹی کے لوگ اقتدارمیں ہو کر کرپشن کیسے نہیں کریں گے۔ اس کی زندہ مثال ان کی پارٹی کے دو وزیر اعظم صاحبان پرکرپشن کے نیب میں مقدمات چل رہے ہیں۔وزراء کے مقدمات بھی نیپ میں چل رہے ہیں۔ کیا کسی ملک کی سیاسی پارٹی کے ہیڈ کو ایسا ہونا چاہیے یہ زرداری صاحب سے پاکستان کی عوام کا سوال ہے۔جہاں تک وزیر اعلی سندھ صاحب کے کرپشن کے خلاف کاروائیواں کے خلاف بیان کا سوال ہے کہ اگر وہ حکومت میں رہ کر کرپٹ لوگوں کی گرفت نہیں کریں گے تو رینجرز نے تو پھر ملک کے قانون کے مطابق کرپٹ لوگوں کو پکڑنا ہی ہے۔حکومت سندھ کے سارے ادارے وزیر اعلی کے انڈر ہیں کیا ان اداروں کو کرپشن روکنے میں لگایا تھاکہ اس سے صرف نظر کیا کہ فلاں صاحب زرادری صاحب کہ منہ بولے بھائی ہیں اور فلاں صاحب فریال تال پور کے منظورِ نظر ہیں اس لیے ان کی کرپشن سے صرف نظر کرنا ہے۔ اس کے بعد خورشید شاہ صاحب کے بیان کا اگر جائزا لیا جائے، وہ تو قائد حزبِ اخلاف ہیں اگر انہیں فوج میں کرپشن نظر آتی ہے تو نواز شریف صاحب تو آپ کی پارٹی سے مفاہمت کی قرارداد کے تحت قانون سازی کرا سکتے تھے کہ فوج کا بھی احتصاب ہو آپ نے بھی ایسا نہیں کیا تو پھر شعور کائے کا۔ ویسے تو آئین پاکستان کے مطابق فوج کے اندر خود احتصابی کا نظام موجود ہے پھر بھی موجودہ سپہ سالانے اپنے کرپٹ جرنلوں کے خلاف کاروائی بھی کی ہے۔اب آتے ہیں جناب رضا ربانی صاحب کے جذباتی بیان کی طرف جو انہوں نے پیپلز پارٹی کی کرپشن کی حمایت میں دیا ہے اپنی نیک سیرتی کی وجہ سے تو انہوں نے پیپلز پرٹی کے لوگوں کی کرپشن کو مانا ہے مگر دل کی بڑاس نکالنے کے لیے دوسروں کا بھی ذکر کیا ہے جو ان کی صحیح بات ہے سب کرپٹ لوگوں کا احتصاب ہونا چاہیے۔ چائے وہ سیاست دان ہوں ،بیروکریٹس ہوں، چاہے احتساب کرنے والے نیب کے لوگ ہوں اور چائے کرپشن کسی فوجی نے کی ہو ۔پاکستانی غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی میں جس نے بھی ہاتھ صاف کیا ہو اس کا کڑااحتصاب ہونا چاہے ۔ چائے اس میں فوجی بھی شامل ہوں لیکن ہم ان سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ اگر چاہتے ہیں کہ فوج کا بھی احتصاب ہو تو سینیٹ میں اس کے لیے بل پیش کریں اسے پاس کریں اور اسے پارلیمنٹ سے بھی پاس کروا کر آئین کا حصہ بنا دیا تاکہ آپ کی خواہش بھی پوری ہو جائے ویسے تو جو اس وقت سیاست دانوں کا قانون کے مطابق احتصاب ہو رہا ہے جس قانون پر آپ نے بھی بادل ناخواستہ دستخط کئے تھے تو اسے پھر عون بھی کریں اور اس میں روڑے نہ اٹکائیں ۔یہ احتصاب نیشنل ایکشن پلان کے مطابق آئین میں دیے گئے اختیارات کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ کرپشن پر واویلا نہ کریں اس سے آپ کی پارٹی کا گرائف گر رہا ہے۔ قارئین!شاید اﷲ کو پاکستانی قوم پر رحم آ گیا ہے کہ کسی مرد مسلمان نے یہ کام شروع کیا ہے۔ اﷲ ہمارے ملک کو دہشت گردی سے پاک کرے۔ ہمارے حکمران ایمان دار ہوں۔ ہم دنیا کی مہذب قوموں میں ایک مہذب قوم کی طرح امن و امان اور کرپشن سے پاک ماحول میں رہ سکیں آمین۔


 
Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1095753 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More